خواتین کے سوال کی سماجی بنیادیں

تحریر: الیگزینڈرا کولنتائی
ترجمہ: ثورہ خان

یہ مضمون پہلی بار 1909ء میں روس میں شائع ہوا تھا۔ انگریزی ورژن اس لنک پر ملاحظہ کریں۔

ایک صنف کی دوسری پر برتری یا مرد اور عورت کے دماغ کے وزن یا پھر ان کی نفسیاتی ساخت کے موازنے کے سوال کو ہم بورژوا دانشوروں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اس سوال پر سر کھپاتے رہیں۔ تاریخی مادیت کے پیروکار ہر صنف کی فطری خصوصیات کو پوری طرح قبول کرتے ہوئے صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر فرد، خواہ مرد ہو یا عورت، کو مکمل اور آزادانہ طور پر خود کو پہچاننے کا حقیقی موقع ملے اور اس کے تمام فطری رجحانات کی نشوونما اور ان کے اطلاق کی وسیع گنجائش موجود ہو۔ تاریخی مادیت کے پیروکار ہمارے دور کے عام سماجی سوال سے الگ ایک خاص عورت کے سوال کے وجود کو مسترد کرتے ہیں۔ خواتین کی غلامی کے پیچھے مخصوص معاشی عوامل کارفرما تھے جبکہفطری خصوصیات اس عمل میں ایک ثانوی عنصر رہی ہیں۔ ان عوامل کو پوری طرح ختم کرنے اور ماضی میں کسی وقت عورتوں کی محکومی کو جنم دینے والی قوتوں کے ارتقا سے اس قابل ہوا جاسکتا ہے کہ عورت کی سماجی حیثیت کو بنیادی طور پر بدلا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں صرف نئے سماجی اور پیداواری خطوط پر منظم دنیا میں ہی عورت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتی ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدید نظام کے دائرہ کار میں عورت کی زندگی میں جزوی بہتری ناممکن ہے۔ محنت کشوں کے سوال کا بنیادی حل صرف جدید پیداواری تعلقات کی مکمل تعمیر نو سے ہی ممکن ہے۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ یہ چیز ہمیں محنت کشوں کے فوری مفادات کی جدوجہد سے روک دے؟ اس کے برعکس، محنت کش طبقے کی ہر فتح بنی نوع انسان کو آزادی اور سماجی مساوات کی طرف لے جانے والے ایک قدم ہے: ہر وہ حق جسے عورت جیتتی ہے اسے مکمل آزادی کے حتمی ہدف کے قریب لے جاتا ہے۔

سوشل ڈیموکریسی نے سب سے پہلے اپنے پروگرام میں عورتوں کے حقوق کو مردوں کے برابر کرنے کا مطالبہ شامل کیا۔ تقریروں اور تحریروں میں پارٹی ہمیشہ اور ہر جگہ خواتین کو متاثر کرنے والی حدود کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ صرف پارٹی کا اثر و رسوخ ہے جس نے دوسری جماعتوں اور حکومتوں کو خواتین کے حق میں اصلاحات کرنے پر مجبور کیا اور روس میں یہ جماعت اپنے نظریاتی نقطہ نظر کے لحاظ سے نہ صرف خواتین کی محافظ ہے بلکہ ہمیشہ اور ہر جگہ خواتین کی برابری کے اصول پر کاربند ہے۔

وہ کیا چیز ہے جو ہمارے”حقوق کی برابری“ کے حمایتیوں کو اس مضبوط اور تجربہ کار جماعت کی حمایت قبول کرنے سے روکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ برابر حقوق کے حمایتی چاہے کتنے ہی”ریڈیکل“ کیوں نہ ہوں، اپنے بورژوا طبقے کے وفادار ہی رہیں گے۔ سیاسی آزادی اس وقت روسی بورژوازی کی ترقی اور طاقت کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اس کے بغیر مو¿خر الذکر کی تمام معاشی بہبود ریت پر استوار ہو گی۔ سیاسی برابری کا مطالبہ خواتین کے لیے ایک ایسی ضرورت ہے جو خود زندگی سے جنم لیتی ہے۔

تمام ”پیشوں تک رسائی “کا نعرہ کافی نہیں ہے۔ ملکی حکومت میں صرف براہ راست شرکت سے خواتین کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا مقصد پورا ہوسکتا ہے۔ اسی لیے متوسط بورژوا طبقے کی خواتین میں ووٹ کا حق حاصل کرنے کی پرجوش خواہش ہے اور اسی لیے جدید افسر شاہی کے نظام سے ان کی دشمنی ہے۔

تاہم، سیاسی برابری کے اپنے مطالبات میں ہماری فیمینسٹ اپنی غیر ملکی بہنوں کی طرح ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک خیالات کے ذریعے کھلنے والے وسیع افق ان کے لیے اجنبی اور ناقابل فہم ہیں۔ فیمینسٹ موجودہ طبقاتی معاشرے کے دائرہ کار میں برابری کے خواہاں ہیں، وہ کسی بھی طرح اس معاشرے کی بنیاد پر حملہ نہیں کرتے۔ وہ موجودہ استحقاق اور مراعات کو چیلنج کیے بغیر اپنے استحقاق کے لیے لڑتے ہیں۔ ہم بورژوا خواتین کی تحریک کے نمائندوں پر معاملے کو سمجھنے میں ناکامی کا الزام نہیں لگاتے۔ کیونکہ چیزوں کے بارے میں ان کا نظریہ ناگزیر طور پر ان کے طبقاتی نقطہ نظر سے نکلتا ہے ۔

معاشی آزادی کی جدوجہد
سب سے پہلے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ طبقاتی تضادات پر مبنی معاشرے میں عورتوں کی ایک واحد متحدہ تحریک ممکن ہے؟ کسی بھی غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھنے والے کے لیے یہ حقیقت واضح ہے کہ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والی خواتین ایک یکساں اجتماع کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔

عورتوں کی دنیا بھی اسی طرح دو مختلف محاذوں میں تقسیم ہے جس طرح مردوں کی دنیا: ایک گروپ کی عورت کے مفادات اور امنگیں اسے سرمایہ دارانہ طبقے کے نزدیک لاتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی عورتیں مزدور طبقے سے جڑتی ہیں۔۔۔ حالانکہ عورتوں کے یہ دونوں گروہ”عورت کی آزادی “ کا یکساں نعرہ لگاتے ہیں لیکن دونوں کے مفادات اور مقاصدمختلف ہیں۔ ہر گروہ غیر ارادی طور پر اپنی جدوجہد کا آغاز اپنے طبقے کے مفادات کے تحت کرتا ہے۔

فیمینسٹوں کے مطالبات  بظاہر کتنے ہی ریڈیکل کیوں نہ ہوں، لیکن کسی کو بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فیمینسٹ اپنی طبقاتی حیثیت کی وجہ سے خواتین کی مکمل آزادی کے لیے درکار سماج کے موجودہ اقتصادی و سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کے لیے لڑائی نہیں لڑ سکتے۔

اگر بعض حالات میں سارے طبقوں کی عورتوں کے مقاصد آپس میں ایک دوسرے سے مل بھی جائیں تو دونوں کیمپوں کے حتمی مقاصد، جو طویل مدت میں تحریک کی سمت اور طریقہ کار کا تعین کرتے ہیں، واضح طور پر مختلف ہوتے ہیں۔ فیمینسٹوں کے لیے موجودہ سرمایہ دارانہ دنیا کی حدود میں مردوں کے ساتھ مساوی حقوق کا حصول اپنے آپ میں ایک ٹھوس ہدف کی نمائندگی کرتا ہے لیکن موجودہ وقت میں پرولتاری خواتین کے لیے مساوی حقوق‘ معاشی غلامی کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں۔ فیمینسٹ‘ مردوں کو اپنے اصل دشمن کے طور پر دیکھتی ہیں کیونکہ مردوں نے ناحق اپنے لیے تمام حقوق اور مراعات چھین لیے ہیں، عورتوں کے لیے صرف زنجیریں اور فرائض چھوڑے ہیں۔ ان کی نظر میں فتح اس میں ہے کہ وہ تمام حقوق جو پہلے صرف مردوں کو حاصل تھے وہ”صنفِ نازک“ کے لیے بھی تسلیم کرلیے جائیں۔ پرولتاری خواتین کا رویہ مختلف ہے۔ وہ مردوں کو دشمن اور ظالم کے طور پر نہیں دیکھتیں۔ اس کے برعکس، وہ مردوں کو اپنا ساتھی سمجھتی ہیں، جو ان کے ساتھ روزانہ کی مشقت میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ بہتر مستقبل کے لیے لڑتے ہیں۔ عورت اور اس کا مرد کامریڈ ایک جیسے سماجی حالات کے غلام ہیں۔ سرمایہ داری کی وہی نفرت انگیز زنجیریں ان کی ذات کو کچلتی ہیں اور انہیں زندگی کی خوشیوں اور رونقوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ نظام کے کئی مخصوص پہلو عورتوں پر دوہرا بوجھ ڈالتے ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ اجرتی مزدوری کے حالات بعض اوقات محنت کش خواتین کو مردوں کا حریف بنا دیتے ہیں۔ لیکن ان نامساعد حالات میں محنت کش طبقہ جانتا ہے کہ قصوروار کون ہے۔

خاتون ورکر، اپنے بدقسمت بھائی کی طرح، اس بھوکے راکشس سے نفرت کرتی ہے جو صرف اپنے شکاروں کا خون چوسنے اور لاکھوں انسانی جانوں کی قیمت پر پلنے کی فکر میں ہے اور ہر مرد، عورت اور بچے پر برابر حملہ کرتا ہے۔ محنت کش خواتین کو محنت کش مردوں سے ایسی ہزاروں تاریں جوڑتی ہیں۔ دوسری طرف بورژوا عورت کی خواہشات عجیب اور ناقابل فہم لگتی ہیں۔ وہ پرولتاریہ کے دل کو گرما نہیں رہی ہیں۔ وہ پرولتاری عورت سے اس روشن مستقبل کا وعدہ نہیں کرتے جس کی طرف تمام استحصال زدہ انسانیت کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
پرولتاری خواتین کا حتمی مقصد یقیناً انہیں موجودہ بورژوا نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی اپنی حالت کو بہتر بنانے کی خواہش سے نہیں روکتا لیکن ان خواہشات کے حصول میں مسلسل رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں جو سرمایہ داری کی بنیاد سے جنم لیتی ہیں۔ ایک عورت کو مساوی حقوق اور حقیقی آزادی صرف سماجی محنت، ہم آہنگی اور انصاف کی دنیا میں حاصل ہو سکتے ہیں۔ فیمینسٹ اس بات کو سمجھنے کے لیے نہ ہی تیار ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھنے کے قابل ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جب قانون کے مسودے سے مساوات کو کاغذی طور پر قبول کر لیا جائے گا تو وہ اس جبر،  غلامی، اشکوں اور مشکلات کی پرانی دنیا میں اپنے لیے ایک پرسکون مقام حاصل کرلیں گی اور یہ ایک خاص حد تک درست بھی ہے۔ محنت کش خواتین کی اکثریت کے لیے مردوں کے ساتھ مساوی حقوق کا مطلب صرف عدم مساوات میں مساوی حصہ داری ہے، لیکن چند ایک ”چنی ہوئی“ بورژوا خواتین کے لیے یہ واقعی نئے اور بے مثال حقوق اور مراعات کے دروازے کھول دے گا جو اب تک صرف بورژوا طبقے کے مردوں کے لیے کھلے رہے ہیں۔ لیکن بورژوا عورت کی جیتی ہوئی ہر نئی رعایت اسے اپنی چھوٹی بہن کے استحصال کے لیے ایک اور ہتھیار فراہم کرے گی اور اس طرح دو مخالف سماجی کیمپوں کی خواتین کے درمیان تقسیم کو بڑھاتی جائے گی۔ ان کے مفادات کے تصادم میں زیادہ شدت آئے گی اور ان کے مقاصد میں زیادہ واضح تضاد جنم لے گا۔

پھر وہ عمومی ”عورت کا سوال“ کہاں ہے؟ اہداف اور مقاصد کا وہ اتحاد کہاں ہے جس کے بارے میں فیمینسٹ بہت بات کرتی ہیں؟ حقیقت پر سنجیدہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا اتحاد نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ فیمنسٹ خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”عورت کے سوال“ کا سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جیساکہ ایک ریڈیکل جرمن فیمینسٹ کا کہنا ہے کہ، ”اس (عورت کے سوال) کا حل تمام جماعتوں اور تمام خواتین کی شرکت سے ہی ممکن ہے۔“ حقائق کی منطق ہمیں فیمینسٹوں کے پرفریب خیال کو مسترد کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

پیداوار کے حالات اور شکلوں نے پوری انسانی تاریخ میں عورتوں کو محکوم بنا کے رکھا ہے اور انہیں بتدریج جبر اور محرومی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جس میں ان میں سے اکثر اب تک موجود ہیں۔
اس سے پہلے کہ خواتین اپنی کھوئی ہوئی اہمیت اور آزادی کو دوبارہ حاصل کرنا شروع کر سکیں انہیں پورے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں ایک زبردست ہلچل کی ضرورت تھی۔ وہ مسائل جو کسی زمانے میں انتہائی باعقل مفکرین کو پریشان کیے ہوئے تھے اب پیداوار کی عظیم قوتوں نے حل کر دیے ہیں۔ وہی قوتیں جنہوں نے خواتین کو ہزاروں سالوں تک غلام بنائے رکھا، اب ترقی کی ایک نئی منزل پر انہیں آزادی اور خود مختاری کی راہ پر گامزن کررہی ہیں۔

عورت کے سوال نے بورژوا طبقے کی خواتین کے لیے تقریباً انیسویں صدی کے وسط میں اہمیت حاصل کی ‘ پرولتاری خواتین کے محنت کے میدان میں آنے کے کافی عرصے بعد۔ سرمایہ داری کی خوفناک کامیابیوں کے اثرات کے نتیجے میں آبادی کے متوسط طبقات قلت کی لہروں کی زد میں آگئے۔ معاشی تبدیلیوں نے پیٹی اور متوسط بورژوازی کی پرتوں کی مالی صورتحال کو غیر مستحکم کر دیا تھا اور بورژوا خواتین کو ایک بہت خوفناک المیے کا سامنا کرنا پڑا، یا تو وہ غربت کی زندگی قبول کرتیں یا کام کرنے کا حق مانگتیں۔ ان سماجی پرتوں کی بیویاں اور بیٹیاں یونیورسٹیوں، آرٹ سیلونز، ایڈیٹوریل ہاؤسز اور دفاتر کے دروازوں پر دستک دینے لگیں اور ان پیشوں پر ٹوٹ پڑیں جو ان کی دسترس میں تھے۔ بورژوا خواتین کی سائنس تک رسائی اور ثقافت کے اعلیٰ فوائد حاصل کرنے کی خواہش اچانک پیدا ہوئے شعور کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ”روزی روٹی“ کے اسی سوال سے پیدا ہوئی تھی۔

بورژوا طبقے کی خواتین کو شروع سے ہی مردوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پروفیشنل مردوں جو اپنی ”آرام دہ ملازمتوں“ سے چمٹے ہوئے تھے، اور ان خواتین جو روزی روٹی کمانے کی اس لڑائی میں بالکل نئی تھیں، کے درمیان ایک شدید جنگ ہوئی۔ اس لڑائی نے ”فیمنزم“ کو جنم دیا، جو بورژوا خواتین کی ایک ساتھ اپنے دشمن یعنی مردوں کے خلاف خود کو اکٹھا کرنے کی مشترکہ کوشش تھی۔ جب وہ مزدوری کے میدان میں داخل ہوئیں تو یہ خواتین فخر سے اپنے آپ کو ”خواتین کی تحریک کا ہراول دستہ“ کہتی تھیں۔ وہ یہ بھول گئیں کہ معاشی آزادی کی جدوجہد میں وہ بھی دوسرے شعبوں کی طرح اپنی چھوٹی بہنوں کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور ان کے چھالوں والے ہاتھوں سے ملنے والے ثمرات حاصل کر رہی ہیں۔
تو پھر کیا واقعی یہ بات کرنا ممکن ہے کہ فیمینسٹوں نے خواتین کے لیے کام کی راہ ہموار کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بورژوا خواتین کی تحریک ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اور تمام ممالک میں لاکھوں پرولتاری خواتین کا فیکٹریوں اور ورکشاپوں میں سیلاب تھا اور وہ صنعت کی ایک کے بعد دوسری شاخ پر قابض ہوچکی تھیں۔ فیمینسٹ‘ بورژوا خواتین کے معاشرے میں ایک آزاد مقام حاصل کرنے پر جو فخر محسوس کرتی ہیں وہ بھی صرف اسی حقیقت کی بدولت ممکن ہوا کہ خواتین محنت کشوں کی محنت کو عالمی منڈی میں پذیرائی ملی۔

ہم محنت کش خواتین کی جدوجہد کی تاریخ میں بمشکل کسی ایک موقعے کی طرف بھی اشارہ نہیں کرسکتے جہاں فیمینسٹ تحریک نے محنت کش خواتین کے مادی حالات کو بہتر بنانے میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا ہو۔ پرولتاری خواتین نے اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ بالعموم محنت کش طبقے اور بالخصوص محنت کش خواتین کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ محنت کش خواتین کی اپنے حالاتِ کار میں بہتری اور ایک باوقار زندگی کے لیے جدوجہد کی تاریخ دراصل محنت کش طبقے کی اپنی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
یہ محنت کش طبقے کی ناراضگی کے ایک زوردار دھماکے کا ڈر نہیں تو اور کیا ہے جو فیکٹری مالکان کو اجرتوں میں اضافے، اوقاتِ میں کمی اور حالاتِ کار میں بہتری پر مجبور کرتا ہے؟ یہ محنت کشوں کی سرکشی کا ڈر نہیں تو اور کیا ہے جو حکومت کو سرمائے کے ہاتھوں محنت کے استحصال میں کمی کے حوالے سے قانون سازی پر مجبور کرتی ہے؟

دنیا میں کوئی ایک جماعت ایسی نہیں ہے جس نے خواتین کے دفاع کا بیڑا اٹھایا ہو جیسا کہ سوشل ڈیموکریسی نے کیا ہے۔ محنت کش عورت سب سے پہلے محنت کش طبقے کی ایک اہم رکن ہے اور پرولتاری خاندان کے ہر فرد کی پوزیشن اور عمومی فلاح و بہبود جتنی تسلی بخش ہوگی اس کا طویل مدتی فائدہ پورے محنت کش طبقے کو ہوگا۔

بڑھتی ہوئی سماجی مشکلات کے پیش نظر اس مقصد کے لیے سنجیدگی سے لڑنے والی( محنت کش )کو ایک بار اداسی کے عالم میں ٹھہرجانا چاہیے۔ وہ اس چیز کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ خواتین کی عمومی تحریک(فیمینسٹ تحریک) نے محنت کش خواتین کے لیے کتنا کم کام کیا ہے اور محنت کش طبقے کی زندگی اور حالاتِ کار کو بہتر بنانے میں وہ کتنی نااہل ثابت ہوئی ہے۔ جو خواتین برابری کے لیے لڑرہی ہیں لیکن محنت کشوں کے عالمی نقطہ نظر کو نہیں اپناتی اور نہ ایک بہتر سماجی نظام کے قیام میں یقین رکھتی ہیں انہیں انسانیت کا مستقبل تاریک، خوفناک اور غیر یقینی نظر آتا ہے۔ جب تک موجودہ سرمایہ دارانہ دنیا تبدیل نہیں ہوتی ان کے لیے آزادی نامکمل اور ادھوری رہے گی۔ ان حساس اور باشعور خواتین کو مایوسی جکڑ رکھے گی۔ جدید دنیا کے مسخ شدہ سماجی رشتوں میں صرف محنت کش طبقہ ہی اپنے حوصلے بلند رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مضبوطی اور  ثابت قدمی سے وہ اپنے مقصد کی طرف بتدریج آگے بڑھتا ہے۔ وہ محنت کش خواتین کو اپنی صفوں میں کھینچتا ہے۔ پرولتاری عورت بہادری سے محنت کے کانٹے دار راستے پر چل پڑتی ہے۔ اس کے قدم لرزتے ہیں، اس کا جسم زخموں سے چور ہوتا ہے۔ راستے میں خطرناک ڈھلوانیں ملتی ہیں اور ظالم شکاری درندوں کا سامنا ہوتا ہے۔

لیکن صرف یہ راستہ اختیار کرنے سے ہی عورت اس دور دراز لیکن پرکشش مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ اسکی حقیقی آزادی محنت کی ایک نئی دنیا میں ہے۔ روشن مستقبل کی طرف اس مشکل مارچ کے دوران محنت کش عورت جو اب تک تذلیل اور پستی میں گری ایک غلام تھی جس کے کوئی حقوق نہیں تھے، خود سے چمٹی اس غلامانہ ذہنیت کو ترک کرنا سیکھتی ہے، قدم قدم پر وہ خود کو ایک آزاد محنت کش اور محبت میں آزاد ایک آزاد شخصیت میں تبدیل کرتی ہے۔ وہی ہے جو پرولتاریہ کی صفوں میں لڑتے ہوئے عورتوں کے لیے کام کرنے کا حق جیتتی ہے، یہ وہی”چھوٹی بہن“ ہے جو مستقبل کی ”آزاد“ اور”برابر“ عورت کے لیے بنیاد تعمیر کرتی ہے۔

پھر کس بنیاد پر محنت کش خاتون کو بورژوا فیمنسٹوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرنی چاہیے؟ اس طرح کے اتحاد کی نتیجے میں اصل فائدہ کس کا ہوگا؟ یقیناً محنت کش خاتون کا تو نہیں ہوگا۔ وہ خود اپنی نجات دہندہ ہے۔ اس کا مستقبل اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ محنت کش عورت اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور ایسی دنیا کے بارے بڑی بڑی تقریروں سے دھوکہ نہیں کھاتی”جس میں تمام خواتین شریک ہوں“۔ محنت کش عورت یہ نہیں بھولتی اور نہ ہی اسے بھولنا چاہیے کہ جہاں بورژوا خواتین کا مقصد اس معاشرے کے حدود میں رہتے ہوئے اپنی زندگی بہتر بنانا ہے وہاں ہمارا مقصد اس پرانی اور فرسودہ دنیا کی جگہ عالمی محنت اور بھائی چارے کی بنیاد پر ایک روشن دنیا تعمیر کرنا ہے جس میں سب کو خوشیاں، محبت اور آزادی حاصل ہو۔

شادی اور خاندان کا مسئلہ
آئیے ہم اپنی توجہ عورت کے سوال کے ایک اور پہلو کی طرف مبذول کرتے ہیں؛ خاندان کا سوال۔ خواتین کی حقیقی آزادی کے لیے اس فوری اور پیچیدہ سوال کے حل کی اہمیت سب کو معلوم ہے۔ سیاسی حقوق کی جدوجہد، ڈاکٹریٹ اور دیگر تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے کے حق اور مساوی کام کے لیے مساوی تنخواہ کے لیے جدوجہد ہی کل لڑائی نہیں ہے۔ واقعی آزاد بننے کے لیے عورت کو خاندان کی موجودہ شکلوں کی بھاری زنجیروں کو اتار پھینکنا پڑتا ہے جو فرسودہ اور جابرانہ ہیں۔ خواتین کے لیے خاندانی سوال کا حل سیاسی مساوات اور معاشی آزادی کے حصول سے کم اہم نہیں ہے۔
آج کے خاندان میں، جس کا ڈھانچہ رسم و رواج اور قانون کی بنیاد پر کھڑا ہے، عورت نہ صرف بطور فرد بلکہ ایک بیوی اور ماں کے طور پر بھی مظلوم ہے۔ مہذب دنیا کے بیشتر ممالک میں کم و بیش ہر سول کوڈ خواتین کو شوہروں کا محکوم بناتا ہے اور شوہر کو نہ صرف اس کی جائیداد میں تصرف کا حق دیتا ہے بلکہ اس پر اخلاقی اور جسمانی غلبے کا بھی حق دیتا ہے۔
جہاں خواتین کی سرکاری اور قانونی غلامی ختم ہو جاتی ہے وہیں وہ قوت شروع ہو جاتی ہے جسے ہم”عوامی رائے“ کہتے ہیں۔ یہ رائے عامہ بورژوازی کی جانب سے بنائی جاتی ہے اور اس کا مقصد ”ملکیت کے مقدس ادارے“ کا تحفظ ہے۔ ایک اور منافقانہ ہتھیار ”دوہری اخلاقیات“ کا ہے۔ بورژوا معاشرہ عورت کو اپنی وحشیانہ معاشی جبر سے کچل دیتا ہے، اس کی محنت کی بہت کم قیمت دی جاتی ہے۔ عورت اپنے مفادات کے دفاع میں آواز اٹھانے کے لیے شہری کے حق سے بھی محروم ہے: اس کی جگہ اسے ایک باوقار متبادل کے طور پر شادی کے قید یا عصمت فروشی پیش کی جاتی ہے۔ ایک ایسا دھندہ جسے سرعام تو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن بندکمروں میں اس کی حوصلہ افزائی اور حمایت کی جاتی ہے۔ کیا موجودہ ازدواجی زندگی کے تاریک پہلوؤں اور موجودہ خاندانی ڈھانچے میں خواتین کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر مزید زور دینے کی ضرورت ہے؟ اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ ادب شادی شدہ اور خاندانی زندگی کے پھندوں کی افسردہ کن تصویروں سے بھرا پڑا ہے۔ کتنے ہی نفسیاتی ڈرامے بنائے جاچکے ہیں! کتنی زندگیاں اپاہج ہوچکی ہیں! یہاں ہمارے لیے یہ خیال کرنا ضروری ہے کہ جدید خاندانی نظام کم و بیش تمام طبقات اور آبادی کی تمام پرتوں کی خواتین پر ظلم کرتا ہے۔ رسم و رواج نوجوان ماں کو اذیت پہنچاتے ہیں چاہے وہ آبادی کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتی ہو۔ قوانین بورژوا، پرولتاریہ اور کسان سب خواتین کو اپنے شوہروں کی سرپرستی میں رکھتے ہیں۔

کیا ہم نے آخر کار عورت کے سوال کا وہ پہلو دریافت نہیں کرلیا جس پر تمام طبقوں کی خواتین متحد ہو سکتی ہیں؟ کیا وہ ان پر جبر کرنے والے حالات کے خلاف مشترکہ جدوجہد نہیں کر سکتیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ دکھ اور تکلیف جو تمام خواتین کے ہے سانجھی ہے اس میں طبقاتی دشمنی کے پنجے اپنی پکڑ تھوڑی نرم کرلیں اور مختلف کیمپوں کی خواتین کو مشترکہ مقاصد اور مشترکہ عمل کا موقع ملے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مشترکہ مفادات اور مقاصد کی بنیاد پر بورژوا خواتین اور محنت کش خواتین کے درمیان تعاون کی گنجائش بن جائے؟ فیمینسٹ شادی کی آزادانہ شکلوں اور”زچگی کے حق“ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ طوائفوں، وہ انسان جن کو ہر طرف سے ستم کا سامنا ہے، کے دفاع میں آواز بلند کر رہی ہیں۔ دیکھیں فیمینسٹ ادب رشتوں کی نئی شکلوں کی تلاش اورصنفوں کی”اخلاقی مساوات“ کے پرجوش مطالبات میں کتنا بھرپور ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ چاہے معاشی آزادی کے میدان میں بورژوا خواتین لاکھوں محنت کش خواتین کی مضبوط فوج سے پیچھے کھڑی ہیں جو ایک ”نئی عورت“ کی بنیاد رکھ رہی ہیں، لیکن خاندانی سوال کے حل کی لڑائی کا سہرا فیمینسٹوں کے سر ہے؟

یہاں روس میں متوسط بورژوا طبقے کی خواتین ، اجرتی مزدوروں کی وہ فوج جسے 1860 کی دہائی میں منڈی میں دھکیلا گیا ، طویل عرصے سے شادی کے سوال کے بہت سے الجھے ہوئے پہلوؤں کو عملی طور پر حل کرچکی ہیں۔ اس سماجی پرت نے نہایت بہادری سے روایتی چرچ کے تحت ہونے والی شادی کے ”اٹوٹ“ خاندان کو اپنی ضروریات کے مطابق مزید لچکدار قسم کے تعلقات سے بدل دیا ہے۔ لیکن خواتین کی جانب سے انفرادی طور پر اس سوال کا موضوعی حل عمومی صورت حال کو تبدیل نہیں کرتا اور نہ ہی خاندانی زندگی کی مجموعی طور پر اداس تصویر میں تبدیلی لاتا ہے۔ اگر کوئی طاقت خاندان کی جدید شکل کو تباہ کر رہی ہے تو وہ طاقتور افراد کی الگ الگ بڑی کوششیں نہیں ہیں بلکہ پیداوار کی طاقتور قوتیں ہیں جو زندگی کی نئی بنیادوں کو استوار کررہی ہیں۔
بیرون ملک مقیم فیمینسٹ اور ہمارے اپنے برابری کے حامی ہمیں یہ تبلیغ کرتے نہیں تھکتے کہ بورژوا سماج کی وہ بہادر نوجوان خواتین جنہوں نے انفرادی طور پر اپنی بیڑیاں اتار پھینکی ہیں اور سماج سے بغیر کسی ظلم و جبر ”محبت کرنے کی جرات“ کا حق مانگا ان تمام عورتوں کیلیے مثال ہونی چاہیے جو خاندانی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کی نظر میں شادی کا سوال معاشرے کے معروضی معاشی دھانچے میں تبدیلی کے بغیر آزادانہ طور پر حل کیا جاسکتا ہے۔ افراد کی الگ تھلگ بہادرانہ کوششیں کافی ہیں۔ ایک عورت کو صرف”جرات“ کرنے کی ضرورت ہے اور شادی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

لیکن کم بہادر خواتین بے اعتمادی میں سر ہلاتی ہیں۔”ان باکمال مصنفین کے ناولوں کی ہیروئنیں جن کے پاس آزادی، بے لوث دوست اور دلکشی کی غیر معمولی خصوصیات ہیں ان کے لیے یہ تو بہت اچھا ہے کہ وہ اپنی بیڑیاں اتار پھینکیں۔ لیکن ان لوگوں کا کیا جن کے پاس نہ سرمایہ ہے، نہ مناسب اجرتیں، نہ دوست اور نہ ہی دلکشی؟“ اور زچگی کا سوال آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کیا ”آزاد محبت“ ممکن ہے؟ کیا ہمارے معاشرے کے معاشی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اسے ایک استثنائی صورت سے ہٹ کے بالکل عام عمل بنایا جاسکتا ہے؟ کیا شادی میں نجی ملکیت کے عنصر کو نظر انداز کرنا ممکن ہے؟ کیا اس انفرادیت پر قائم دنیا میں خواتین کے مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر شادی کے سرکاری کانٹریکٹ کو نظر انداز کرنا ممکن ہے؟ ازدواجی کانٹریکٹ ہی ایک واحد ضمانت ہے کہ زچگی کی تمام مشکلات اکیلی عورت پر نہیں آئیں گی۔ کیا جو پہلے مرد مزدور کے ساتھ ہوا وہ اب عورت کے ساتھ نہیں ہوگا؟ مالکوں کے لیے ضوابط ترتیب دیے بغیر گلڈ کے ضوابط کے خاتمے نے محنت کشوں کو سرمائے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔”محنت اور سرمائے کے درمیان آزاد کانٹریکٹ“ کے پرفریب نعرے نے محنت کے سرمائے کے ہاتھوں ننگے استحصال کے دروازے کھول دیے۔ عورت کو خاندانی زندگی کی مشکلات سے آزاد کروائے بغیر موجودہ طبقاتی سماج میں ”آزاد محبت“ کی بات کرنے کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ بچوں کی اکیلے بے یار و مدد گار دیکھ بھال کا ایک نیا بوجھ بھی عورت کے کندھوں پر آجائے گا ۔

سماجی تعلقات میں بہت سی بنیادی اصلاحات ، خاندان سے معاشرے اور ریاست تک ذمہ داریوں کو منتقل کرنے والی اصلاحات ، ایسی صورتحال پیدا کر سکتی ہیں جہاں ”آزاد محبت“ کا اصول کسی حد تک پورا ہو سکے۔ لیکن کیا ہم جدید طبقاتی ریاست سے کوئی سنجیدہ توقع کر سکتے ہیں، خواہ وہ کتنی ہی جمہوری کیوں نہ ہو، کہ وہ ماؤں اور بچوں کے تئیں وہ فرائض خود ادا کرے گی جو اس وقت اس انفرادی اکائی یعنی جدید خاندان کے ذریعے ادا کیے جارہے ہیں؟ صرف تمام پیداواری تعلقات میں بنیادی تبدیلی ہی خواتین کو”آزاد محبت“ کے فارمولے کے منفی پہلوؤں سے بچانے کی سماجی شرائط پوری کر سکتی ہے۔ کیا ہم ان خرابیوں اور بدحالیوں سے واقف نہیں ہیں جو موجودہ حالات میں اس نعرے کے نتیجے میں پیش آئیں گی؟ ان تمام حضرات کے بارے میں سوچیں جو صنعتی اداروں کے مالک ہیں اور ان کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں جو اپنے مزدوری کرنے والی اور کلیریکل سٹاف کی عورتوں کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دے کر اپنی جنسی خواہشات کی تسکین پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا وہ اپنے طریقے سے ”آزاد محبت“ کا اظہار نہیں کر رہے؟ وہ تمام ”گھروں کے آقا“ جو اپنی نوکروں کی عصمت دری کرتے ہیں اور انہیں حاملہ کر کے سڑک پر پھینک دیتے ہیں، کیا وہ”آزاد محبت“ کے فارمولے پر قائم نہیں ہیں؟

لیکن آزاد شادی کے حامی اعتراض کرتے ہیں کہ ہم اس قسم کی ’آزادی‘ کی بات نہیں کر رہے۔ بلکہ ہم ایسی ’یکساں اخلاقیات‘ کی بات کررہے ہیں جن کا اطلاق دونوں جنسوں پر برابر ہو۔ ہم دور حاضر کے جنسی طور طریقوں کی مخالفت کرتے ہیں اور صرف ایسے رشتوں کو اخلاقی سمجھتے ہیں جو سچی محبت پر قائم ہوں۔ لیکن میرے پیارے دوستو کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ ”آزادانہ شادی“ کا آپ کا آئیڈیل موجودہ معاشرتی حالات میں جب نافذ کیا جاتا ہے تو ایسے نتائج پیدا کرسکتا ہے جو جنسی آزادی کی موجودہ مسخ شدہ شکل سے کوئی زیادہ مختلف نہ ہوں؟ ”آزاد محبت“ کا اصول صرف اس صورت میں قابلِ عمل ہوسکتا ہے جب عورت ان تمام بوجھوں سے آزادی ملے جو اسے شوہر اور سرمائے کی دوہری غلامی پر مجبور کرتے ہیں۔ جیسے جیسے خواتین باہر نکلتی ہیں‘کام کرتی ہیں اور معاشی آزادی حاصل کرتی ہیں تو”آزاد محبت“کے کچھ امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں خصوصاً دانشور طبقے کی کچھ پڑھی لکی خواتین کے لیے جنہیں اچھی تنخواہیں ملتی ہیں۔ لیکن خواتین کا سرمائے پر انحصار برقرار ہتا ہے اور جیسے جیسے محنت کش خواتین محنت کی منڈی میں داخل ہوتی ہیں اس انحصار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیا”آزاد محبت“ کا نعرہ ان خواتین کے اداس وجود کو بہتر بنانے کے قابل ہے جو صرف اتنا کما پاتی ہیں کہ خود کو زندہ رکھ سکیں؟ اور ویسے بھی ”آزاد محبت“ کا اصول تو محنت کش طبقے میں پہلے سے رائج نہیں ہے؟ بلکہ اس حد تک رائج ہے کہ بورژوازی نے کئی بار محنت کش طبقے کی”گراوٹ“ اور”بداخلاقی“ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے خلاف مہم چلائی ہے۔ یہ واضح رہے کہ فیمینسٹ بہت پرجوش انداز میں بورژوا عورتوں کے لیے شادی سے باہر صحبت کی جن نئی شکلوں کی بات کرتی ہیں اِن سے اُن کی مراد ”آزاد محبت“ ہوتی ہے لیکن جب محنت کش طبقے کی بات آتی ہے تو ان رشتوں کو انتہائی حقارت سے ”گھٹیا جنسی تعلقات“ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ان کے رویے کا خلاصہ ہے۔

لیکن موجودہ وقت میں محنت کش خواتین کے لیے تمام رشتے ،چاہے انہیں چرچ کی آشیرباد حاصل ہو یا نہ ہو،یکساں تکلیف دہ ہیں ۔ پرولتاری بیوی اور ماں کیلئے شادی اور خاندان کا مسئلہ کسی بیرونی مذہبی یا اخلاقی سوال کے ساتھ نہیں بلکہ موجودہ سماجی اور معاشی سوالات سے جڑا ہے جو محنت کش عورت کی مشکلات کی ذمہ دار ہیں۔ بے شک اس کے لیے یہ مسئلہ بھی اہم ہے کہ آیا اس کے شوہر کو اس کی کمائی کھانے کا حق ہے، کیا اسے قانوناً یہ حق حاصل ہے کہ عورت کی مرضی کے برخلاف اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرسکے، کیا شوہر زبردستی اس کے بچے اس سے چھین سکتا ہے وغیرہ۔ تاہم یہ قانون نہیں ہے جو سماج میں عورت کی حیثیت کا تعین کرتے ہیں اور نہ ہی یہ قانون کی سطریں ہیں جو خاندانی مسئلے کی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو جنم دیتے ہیں۔ خواتین کی اکثریت کے لیے رشتوں سے جڑی مشکلات میں کافی کمی آسکتی ہے اگر سماج ان تمام چھوٹی چھوٹی گھریلو ذمہ داریوں ، جو فی الوقت انفرادی اور چھوٹی چھوٹی گھریلو معاشی یونٹوں کے رہتے ہوئے ناگزیر ہیں، کا ذمہ لے، ممتا کا تحفظ کرے اور ماں کو بچے کو پیدائش کے شروع کے چند ماہ ہی سنبھالنا پڑے۔

شادی کے مذہبی اور قانونی کانٹریکٹ کے خلاف فیمینسٹ ایک فضول لڑائی لڑرہی ہیں۔ دوسری طرف پرولتاری خواتین ان عوامل کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں جو شادی اور جدید خاندان کی جڑ ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ زندگی کے حالات میں بنیادی تبدیلی کی جدوجہد سے وہ جنسوں کے درمیان رشتوں کی تبدیلی میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ یہاں خاندان کے مسئلے کو لے کر بورژوا اور پرولتاری نقطہ نظر میں ایک بنیادی فرق ہمارے سامنے آتا ہے۔
بورژوازی کے کیمپ سے تعلق رکھنے والی فیمینسٹ اور سماجی اصلاح پسند موجودہ طبقاتی معاشرے کے مایوس کن پس منظر میں خاندان کی نئی شکلوں اور ازدواجی تعلقات کی نئی قسموں کے پیدا ہونے کے امکان پر بے دلی سے یقین رکھتے ہوئے ان نئی شکلوں کی تلاش میںیک جٹھ ہوگئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر زندگی نے خود ان شکلوں کو تیار نہیں کیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ انہیں ہر قیمت پر تصور کرلیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ جنسی تعلقات کی ایسی جدید شکلیں ہونی چاہیے جو موجودہ سماجی نظام میں رہتے ہوئے خاندانی مسئلے کی پیچیدگی کو حل کردیں۔ اور بورژوا دنیا کے نظریہ دان، صحافی، مصنفین اور آزادی کی علمبردار ممتاز خواتین ایک کے بعد ایک اپنے ”خاندانی علاج“ اور”خاندانی فامولے“ پیش کرتے ہیں۔
شادی کے یہ فارمولے کتنے یوٹوپیائی لگتے ہیں۔ ہمارے جدید خاندانی ڈھانچے کی تلخ حقیقت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ کتنے کمزور ہیں۔ اس سے پہلے کہ ”آزاد تعلقات“ اور ”آزاد محبت“ کے یہ فارمولے عملی شکل اختیار کر لیں یہ ضروری ہے کہ لوگوں کے درمیان تمام سماجی تعلقات میں بنیادی تبدیلی کی جائے۔ مزید برآں اخلاقی اور جنسی اصولوں اور بنی نوع انسان کی پوری نفسیات کو ایک مکمل ارتقائی عمل سے گزرنا پڑے گا۔ کیا دور حاضر کا انسان نفسیاتی طور پر”آزاد محبت“ کے قابل ہے؟ اس حسد کا کیا ہوگا جو بہترین انسانی روحوں کو بھی کھا جاتا ہے؟ اور ذہنوں میں پیوست اس ملکیت کے تصور کا کیا جو جسم ہی نہیں بلکہ روح پر قبضہ چاہتاہے؟ اور دوسروں کی انفرادیت کا احترام کرنے کی نااہلی؟ اور اپنے پیارے کو اپنا محکوم بنانے یا خود اسکا محکوم بننے کی عادت؟ اور لامحدود تنہائی کا تلخ اور مایوس کن احساس جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب محبوب محبت کرنا چھوڑ کر چلاجاتا ہے؟ اکیلا شخص، جو اپنے وجود کے اندر ایک انفرادیت پسند ہے، سکون کہاں سے پا سکتا ہے؟ اجتماعیت کی خوشیاں، مایوسیاں اور امنگیں ہی فرد کی جذباتی اور فکری توانائیوں کا بہترین مرکز ہوسکتی ہے۔

لیکن کیا جدید انسان اس اجتماعیت کے ساتھ باہمی تعامل کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اس وقت اجتماعی زندگی واقعی اس قابل ہے کہ فرد کی معمولی ذاتی خوشیوں کی جگہ لے سکے؟ ”منفرد“، ”یکتا“ جڑواں روح کے بغیر، یہاں تک کہ سوشلسٹ، اجتماعیت پسند، موجودہ مخالف دنیا میں بالکل تنہا ہے۔ صرف محنت کش طبقے میں ہی ہم مستقبل کی ہلکی سی جھلک دیکھ سکتے ہیں، لوگوں کے درمیان زیادہ ہم آہنگی اور زیادہ سماجی تعلقات۔ خاندانی مسئلہ زندگی کی طرح پیچیدہ اور ہمہ جہتی ہے۔ ہمارا معاشرتی نظام اسے حل کرنے سے قاصر ہے۔


شادی کے دیگر فارمولے سامنے رکھے گئے ہیں۔ کئی ترقی پسند خواتین اور سماجی مفکرین شادی کو صرف اولاد پیدا کرنے کا طریقہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شادی اپنے آپ میں عورت کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی – ماں بننا اس کامقدس مقصداور زندگی میں اس کا کام ہے۔ روتھ بری اور ایلنکی جیسے متاثر کن وکلاءکی بدولت، بورژوا آئیڈیل جو عورت کو انسان کی بجائے عورت کے طور پر تسلیم کرتا ہے، ترقی پسندی کا ایک خاص ہالہ حاصل کر چکا ہے۔ ان ترقی یافتہ خواتین کے جوش و خروش کے ساتھ لگائے گئے نعرے کو غیر ملکی ادب نے پکڑ لیا ہے۔ اور یہاں تک کہ روس میں، سیاسی طوفان [1905] سے پہلے کے عرصے میں، سماجی اقدار پر سوالات اٹھنے سے پہلے، زچگی کے سوال نے پریس کی توجہ جلب کی تھی۔ ”زچگی کے حق“ کا نعرہ خواتین کی آبادی کے وسیع حلقوں میں جاندار ردعمل کے راستے کو روک نہیں سکتی۔ اس طرح، اس حقیقت کے باوجود کہ اس سلسلے میں فیمینسٹوں کی تمام تجاویز یوٹوپیائی نوعیت کی تھیں لیکن مسئلے کی اپنی اہمیت نے خواتین کی توجہ جلب کی۔

”زچگی کا حق“ ایک ایسا سوال ہے جو نہ صرف بورژوا طبقے کی خواتین کو چھوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ پرولتاری خواتین کو بھی چھوتا ہے۔ ماں بننے کا حق – یہ سنہری الفاظ ہیں جو سیدھے ”کسی بھی عورت کے دل“ تک جاتے ہیں اور اس دل کو تیز دھڑکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ”اپنے“ بچے کو اپنا دودھ پلانے کا حق، اور اس کے شعور بیدار ہونے کی پہلی نشانیوں میں شرکت کا حق، اس کے ننھے جسم کی دیکھ بھال اور اس کی نرم روح کو زندگی کے پہلے قدموں کے کانٹوں اور تکالیف سے بچانے کا حق۔ کون سی ماں ان مطالبات کی حمایت نہیں کرے گی؟

ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر ایک ایسے مسئلے پر متذبذب ہو گئے ہیں جو مختلف سماجی پرتوں کی خواتین کے درمیان ایک لمحے کے لیے اتحاد قائم کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں، آخر کار، دو مخالف دنیا کی خواتین کو متحد کرنے والا پل مل گیا ہے۔ آئیے قریب سے دیکھیں، یہ جاننے کے لیے کہ ترقی پسند بورژوا خواتین ”زچگی کے حق“ سے کیا مراد لیتی ہیں۔ پھر ہم دیکھ سکیں گے کہ کیا درحقیقت پرولتاری خواتین زچگی کے مسئلے کے اُس حل سے متفق ہو سکتی ہیں جومساوی حقوق کے لیے لڑنے والی بورژوا نے تجویز کیے تھے۔ اس موقفکے معذرت خواہوں کی نظر میں زچگی ایک مقدس چیز ہے۔ یہ لوگ ان جھوٹے تعصبات کو توڑنے کی بجائے، جو ایک عورت کو فطری سرگرمی یعنی بچہ پیدا کرنے پر صرف اس لیے رسوا کرتے ہیں کیونکہ اس نے یہ کام قانونی طور پر نہیں کیا، مسئلے کو دوسری جانب موڑ دیتے ہیں: ان کے لیے زچگی عورت کی زندگی کا مقصد ہے۔

زچگی اور خاندان کی ذمہ داریوں کے لیے ایلنکی کی لگن اسے یہ یقین دلانے پر مجبور کرتی ہے کہ الگ تھلگ خاندانی اکائی سوشلسٹ خطوط پر تبدیل ہونے والے معاشرے میں بھی موجود رہے گی۔ صرف تبدیلی، جیسا کہ وہ دیکھتی ہے، یہ ہو گی کہ مادی فوائد اور مفادات کو شادی کے بندھن سے الگ کر دیا جائے گا جو باہمی میلانات کے مطابق بغیر رسم و رواج کے انجام پائے گا۔ محبت اور شادی صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے مترادف ہونگے۔ لیکن الگ تھلگ خاندانی اکائی اپنی دولت کے لیے سرپٹ دوڑ، اس کے دباﺅ اور تنہائی کے ساتھ جدید انفرادیت پسند دنیا کا نتیجہ ہے اور پھر بھی ایلنکی امید کرتی ہے کہ وہ اس خاندان کو سوشلسٹ معاشرے کے لیے میراث میں چھوڑ دے ! خون اور رشتہ داری کے ناطے اکثر کام کرتے ہیں، یہ سچ ہے، زندگی میں واحد سہارا، مشکلات اور بدقسمتی کے وقت میں واحد پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ مستقبل میں اخلاقی یا معاشرتی طور پر ضروری ہوں گے؟ ایلنکی اس سوال کا جواب نہیں دیتی۔ وہ درمیانی بورژوا طبقے کی اس انا پرست اکائی، ”مثالی خاندان“ کے لیے بہت پیار رکھتی ہے جس کو سماج کے بورژوا ڈھانچے کے عقیدت مند عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

لیکن یہ صرف باصلاحیت اگرچہ منتشر ایلنکی ہی نہیں ہے جو سماجی تضادات میں اپنا راستہ کھو دیتی ہے۔ شاید اس کے علاوہ کوئی دوسرا سوال نہیں ہے جس کے بارے میں سوشلسٹ خود اتنے کم متفق ہیں جتنا کہ شادی اور خاندان کے سوال پر۔ اگر ہم سوشلسٹوں کے درمیان ایک سروے کو منظم کرنے کی کوشش کریں تو نتائج شاید بہت دلچسپ ہوں گے۔ کیا خاندان ختم ہوجائے گا؟ یا یہ ماننے کی کوئی وجہ ہے کہ موجودہ خاندانی عوارض صرف ایک عارضی بحران ہیں؟ کیا خاندان کی موجودہ شکل مستقبل کے معاشرے میں محفوظ رہے گی یا جدید سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ دفن ہو جائے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات بہت مختلف ہیں۔

خاندان سے معاشرے میں تعلیمی افعال کی منتقلی کے ساتھ، جدید الگ تھلگ خاندان کو ایک ساتھ رکھنے کا آخری بندھن ڈھیلا ہو جائے گا۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل اس سے بھی تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا اور مستقبل کے ازدواجی تعلقات کےخاکے ظاہر ہونے لگیں گے۔ ہم ان غیر واضح خاکوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں، جب وہ موجودہ دور کے اثرات سے پوشیدہ ہیں؟

کیا یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ شادی کی موجودہ جبری شکل کو محبت کرنے والے افراد کے آزاد بندھن سے بدل دیا جائے گا؟ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والی خواتین کے بھوکے تخیل سے آزاد محبت کا آئیڈیل بلاشبہ کسی حد تک ان جنسوں کے درمیان تعلقات کے معیار سے مطابقت رکھتا ہے جو معاشرہ قائم کرے گا۔ تاہم، سماجی اثرات اتنے پیچیدہ اور ان کے تعاملات اتنے متنوع ہیں کہ یہ بتانا ناممکن ہے کہ مستقبل کے تعلقات، جب پورا نظام بنیادی طور پر تبدیل ہو چکا ہو، وہ کیا پسند کرے گا۔ لیکن جنسوں کے درمیان تعلقات کا دھیرے دھیرے پختہ ہونے والا ارتقا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رسمی شادی اور جبری الگ تھلگ خاندان ختم ہونے والے ہیں۔

سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد
فیمینسٹ ہماری تنقیدوں کا جواب یوں دیتے ہیں: خواہ خواتین کے سیاسی حقوق کی دفاع کے لیے ہمارے دلائل آپ کو غلط معلوم ہوں مگر کیا اس سے، خود اس مطالبے کی اہمیت میں، جو فیمینسٹ اور محنت کش طبقے کے نمائندوں کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے،  میں کوئی کمی آتی ہے؟ کیا دو سماجی کیمپوں کی خواتین اپنی مشترکہ سیاسی مقاصد کی خاطر انہیں تقسیم کرنے والی طبقاتی دشمنی کی رکاوٹوں کو عبور نہیں کر سکتیں؟ یقیناً وہ اپنے اردگرد موجود دشمن قوتوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ جہاں تک دوسرے سوالات کا تعلق ہے بورژوا اور پرولتاریہ کے درمیان تقسیم ناگزیر ہے، لیکن اس خاص سوال کے معاملے میں، فیمینسٹوں کے خیال میں، مختلف سماجی طبقات کی خواتین میں کوئی فرق نہیں ہے۔


فیمینسٹ بار بار غصے اور اضطراب کے عالم میں ان دلائل پر واپس آتی ہیں۔ خواتین کے سیاسی حقوق کی جدوجہد میں محنت کشوں کے نمائندوں کے اِن (بورژوا فیمنسٹ)کے ساتھ الحاق سے انکار میں انہیں ایک فرقہ وارانہ تعصب نظر آتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

کیا یہ سیاسی امنگوں کی حقیقت، یا اس معاملے میں بھی طبقاتی کشمکش باقی تمام معاملوں کی طرح خواتین کی ایک ناقابل تقسیم، طبقات سے ماورا فوج کی تشکیل کا راستہ روکتی ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا اس سے پہلے کہ ہم ان حکمت عملیوں کا خاکہ پیش کریں جو پرولتاری خواتین اپنی جنس کے لیے سیاسی حقوق حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گی۔

فیمینسٹ خود کو سماجی اصلاحات کا حامی بنا کر پیش کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ سوشلزم کے حق میں ہیں – لیکن مستقبل بعید میں وہ محنت کش طبقے کی صفوں میں ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ ان میں بہت سے بہترین لوگ معصومانہ خلوص سے یقین رکھتے ہیں کہ ایک بار جب پارلیمان کی نشستیں ان کی دسترس میں آجائیں گی تو وہ ان سماجی زخموں کا علاج کر سکیں گے جو انکی نظر میں مردوں کی جبلی اناپرستی اور طاقت پر قبضے کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔ پرولتاریہ کے لیے فیمینسٹوں کے انفرادی گروہوں کے ارادے جتنے بھی اچھے ہوں، جب بھی طبقاتی جدوجہد کا سوال سامنے آیا ہے، وہ خوف کے عالم میں میدانِ جنگ سے نکل گئے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ایسی اجنبی سرحدوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اپنے بورژوا لبرلزم تک ہی محدود رہنا چاہیے۔
نہیں، بورژوا فیمنسٹ اپنی سیاسی امنگوں کے حقیقی مقاصد کو جتنا بھی چھپالیں، وہ اپنی چھوٹی بہنوں کو جتنا بھی یقین دلائیں کہ سیاسی زندگی میں شمولیت محنت کش طبقے کی خواتین کے لیے بے پناہ فوائد کی حامل ہے، وہ بورژوا روح جو پوری فیمینسٹ تحریک میں پھیلی ہوئی ہے، مردوں کے ساتھ مساوی سیاسی حقوق کے مطالبے، جو بظاہر خواتین کا عام مطالبہ لگتا ہے، کو بھی طبقاتی رنگ دیتی ہے۔ سیاسی حقوق کے استعمال کے مختلف مقاصد اور تفہیم بورژوا اور پرولتاری خواتین کے درمیان ایک ناقابل تسخیر خلیج کو جنم دیتی ہے۔ اس کا مطلب اس حقیقت سے انکار کرنا نہیں ہے کہ خواتین کے دو گروہوں کے فوری اہداف ایک خاص حد تک مطابقت رکھتے ہیں، کیونکہ تمام طبقات کے نمائندے سیاسی اقتدار تک رسائی حاصل کرکے سب سے بڑھ کر سول کوڈ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو کم و بیش ہر ملک میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ خواتین قانونی تبدیلیوں کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں اور اپنے لیے مزدوری کے زیادہ سازگار حالات پیدا کرتی ہیں۔ وہ جسم فروشی کو قانونی قرار دینے والے ضوابط کے خلاف ایک ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ تاہم ان فوری اہداف کا اتفاق بالکل کاغذی نوعیت کا ہے۔ کیونکہ طبقاتی مفاد اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ان اصلاحات کے حوالے سے دونوں گروہوں کا رویہ انتہائی متضاد ہے۔

فیمینسٹ جو بھی کہتی رہیں‘ طبقاتی جبلت ہمیشہ اپنے آپ کو کسی بھی طبقات سے ماورا سیاست کے عظیم جوش و جذبے سے زیادہ طاقتور ثابت کرتی ہے۔ جب تک بورژوا عورتیں اور ان کی ”چھوٹی بہنیں“ اپنی عدم مساوات میں مساوی ہیں تب تک اول لذکر عورتیں پورے خلوص کے ساتھ خواتین کے عمومی مفادات کے دفاع کے لیے بھرپور کوششیں کرتی ہیں۔ لیکن ایک بار جب یہ رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے اور بورژوا خواتین کو سیاسی سرگرمیوں تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے، تو پھر یہ ”تمام خواتین کے حقوق“ کی محافظ اپنے طبقے کی مراعات کی پرجوش محافظ بن جاتی ہیں اور اپنی چھوٹی بہنوں کی تمام حقوق سے محرومی پر مطمئن ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے یہ فطری بات ہے کہ جب فیمینسٹ محنت کش خواتین سے کسی عمومی اصول پر خواتین کی مشترکہ جدوجہد کی بات کرتی ہیں تو محنت کش خواتین ان پر بداعتمادی کا شکار ہوتی ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے