بھگت سنگھ: ایک غیرمعمولی انقلابی

تحریر:کرسٹوف جافریلاٹ

ترجمہ:سجاد جمالی

[آرٹیکل کا انگریزی ورژن اس لنک پر ملاحظہ کریں]

1920ء کی دہائی کے وسط میں کاکوری سازش کیس کی وجہ سے انقلابی تحریک قیادت سے محروم ہوچکی تھی کیونکہ اس کے صف اول کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسی دے  دی گئی تھی یا جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ عسکریت پسندوں کی اگلی نسل، جنہوں نے تحریک کو زندہ کرنا تھا، مختلف قسم کے لوگ تھے ۔ اس گروہ کی مضبوط ترین شخصیت بھگت سنگھ اس بات کا ثبوت ہے ۔ وہ لائل پور، پنجاب میں ایک سکھ گھرانے، جو آریہ سماج اور غدر پارٹی کے زیر اثر تھا، میں پیدا ہوا ۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کے چچا اجیت سنگھ کو لاجپت رائے کے ساتھ منڈالے جلاوطن کردیا گیا تھا ۔ بھگت سنگھ کی تربیت نیشنل کالج آف لاہور میں ہوئی ۔ اسے 1919 میں امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے خاصا صدمہ پہنچا جہاں جنرل ڈائر نے سینکڑوں لوگوں کا قتل عام کیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے تحریکِ عدم تعاون میں حصہ لیا اور بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بھگت سنگھ بھی مہاتما گاندھی کی جانب سے عدم تعاون کی جدوجہد کو ختم کرنے کے بعد انقلابی تحریک میں شامل ہو گئے ۔ 1926 میں ایک سوشلسٹ اور غیرمذہبی تنظیم کی تعمیر کے لیے انہوں نے’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کا آغاز کیا اور صوبے کے نوجوانوں کو اس کے گرد منظم کرنے کی کوشش کی ۔

سوشلزم، انسانیت اور قوم پرستی کا امتزاج جو بھگت سنگھ کے نظریات کا خاصہ تھا ستمبر 1928 میں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) کے آغاز کے بعد مزید مضبوط ہونے والا تھا ۔ اس دوران بھگت سنگھ ایچ ایس آر اے میں ایک اہم رہنما تھا ۔ دیگر نمایاں قائدین میں سکھ دیو جو کمیونزم کے بہت بڑے مداح تھے، وجے کمار سنہا جو پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے، شیو ورما اور چندر شیکھر آزاد، جو ایسوسی ایشن کے’’فوجی‘‘ آپریشنز کے انچارج تھے، بھی شامل تھے ۔ ان افراد نے ایک مرکزی کمیٹی بنائی جس میں پنجاب، یونائیٹڈ پروونسز اور بہار (ان صوبوں میں تحریک اچھی طرح منظم تھی)سے دو دو نمائندے شامل تھے ۔ تنظیم کو فوری طور پر نظریاتی اور عسکری حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ بھگت سنگھ نظریاتی شعبے کا سربراہ تھا لیکن عسکری کاموں میں بھی حصہ لیا ۔ درحقیقت بھگت سنگھ نے پولیس اہلکار جے پی سانڈرز کے قتل میں براہ راست حصہ لیا جسے اس نے غلطی سے پولیس کے سربراہ جے اے اسکاٹ ،جسے بھگت سنگھ نے لالا لجپت رائے کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، سمجھ کر قتل کیا تھا ۔ ایک آریہ سماجی اور کانگریسی رہنما لالا لاجپت رائے کو لاٹھی چارج سے اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اور دیگر سائمن کمیشن کے دورہ لاہور کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے ۔ 19ویں صدی کے عسکریت پسندوں کی طرح، ایچ ایس آر اے کا خیال تھا کہ سانڈرز کو مار کرانہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ’’ہندوستان اب بھی زندہ ہے ۔ نوجوانوں کا خون ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا اور اگر ان کی قوم کی عزت داؤ پر لگی ہو تو وہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں ‘‘ ۔ بعد میں بھگت سنگھ نے انفرادی مہم جوئی  کی جگہ انقلاب کا راستہ چُنا ۔ اپنی آخری تحریر میں ، جو اس نے فروری 1931 میں لکھی تھی، اس نے اپنے ماضی کے عمل کا بہت ہی واضح انداز میں حوالہ دیا:

’’بظاہر میں نے ایک دہشت گرد کے طور پر کام کیا ہے لیکن میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔ میں ایک انقلابی ہوں جس کے پاس ایک طویل پروگرام کے ایسے واضح نظریات ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی پوری قوت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں اور کبھی نہیں تھا، (سوائے) شاید اپنے انقلابی کیریئر کے آغاز میں ‘‘ ۔

اس دوران کچھ نایاب تحریریں پڑھنے کے بعد بھگت سنگھ کے خیالات ایک نئے سانچے میں ڈھل چکی تھیں ۔ ان کی لائبریری میں مصنفین کی فہرست میں مختلف مغربی مصنفین کی بہت سی کتابیں موجود تھیں ۔ وہاں آپ کو مارکس، اینگلز، ٹراٹسکی، تھامس پین، اپٹن سنکلیئر، مورس ہلکوٹ، جیک لندن، وکٹر ہوگو، دوستووسکی، اسپینوزا، برٹرینڈ رسل، جان اسٹورٹ مل، تھامس جیفرسن، کاؤتسکی، بخارین، برک، لینن، تھامس ڈی ایکون، ڈانٹن، عمر خیام، ٹیگور، این اے موروزوف، ہربرٹ اسپینسر، ہنری مین اور روسو کی کتابیں ملیں گی ۔

یہ کتابیں ، جو بھگت سنگھ نے گرفتار ہونے کے بعد جیل میں پڑھی تھیں ، ان کتابوں نے انہیں ایک عقلیت پسند اور سوشلسٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ پہلا انقلابی تھا جس نے واضح طور پر مذہب سے انکار کا اظہار کیا، جب اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی بالکل اس وقت اس نے جیل میں ’’ میں ایک ملحد کیوں ہوں؟‘‘ لکھا ۔ اس عبارت میں بھگت سنگھ واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ وہ کس طرح بغیر کسی اگلے جہاں کی امید کے موت کا انتظار کرتے ہیں :

’’خدا پر یقین رکھنے والا ایک ہندو شاید ایک بادشاہ کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی توقع کر رہا ہو، ایک مسلمان یا عیسائی ہو سکتا ہے کہ اپنے دکھوں اور قربانیوں کے بدلے بطور انعام جنت میں آسائشوں کے خواب دیکھتا ہو ۔ لیکن میں کیا توقع کروں ؟ میں اس لمحے یہ جانتا ہوں کہ جب میری گردن میں رسی کا پھندا ڈالا جائے گا اور میرے پیروں کے نیچے سے شہتیریں ہٹا دی جائیں گی، وہی میرا آخری لمحہ ہوگا! وہی میرا آخری لمحہ ہوگا! میں ، یا زیادہ واضح طور پر، میری روح، جیسا کہ مابعد الطبیعاتی اصطلاح میں تشریح کی گئی ہے، وہیں ختم ہو جائے گی ۔ بس، پھر آگے کچھ نہیں ۔ جدوجہد کی ایک مختصر زندگی جس کا بظاہر کوئی شاندار انجام نہ ہوا، وہی میرے لیے انعام ہوگا، اگر مجھ میں اسے اس انداز میں دیکھنے کی ہمت ہو ۔ یہی کافی ہے! بغیر کسی خود غرضی کے، اس دنیا یا آخرت میں انعام کی لالچ کے بغیر، میں اپنی زندگی آزادی کے لیے وقف کر دوں تو میرے لیے یہی کافی ہے! جس دن ہمیں اس نفسیات میں مبتلا مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد مل جائے گی جو اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت اور دکھی انسانیت کی آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے وقف نہیں کرینگے‘ اس دن آزادی کے دور کا آغاز ہو گا‘‘ ۔

بھگت سنگھ کا مذہب سے انکار، وہ مذہب جو عوام کو بیگانہ کردیتا ہے، جبر کے دو نظاموں ، سرمایہ داری اور ذات پرستی پر ان کی سوشلسٹ تنقید کی تکمیل کرتا ہے ۔ اس سے پہلے ہندوستانی انقلابیوں نے صرف سرمایہ داری اور کلونیلزم ( colonialism) کو نشانہ بنایا تھا ۔

فروری 1931 میں ، بھگت سنگھ نے نوجوانوں کو مارکسزم کو اپنانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’انقلاب کا مطلب موجودہ سماجی نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ سوشلسٹ نظام کو لانا ہے ۔ اس کے لیے ہمارا فوری ہدف طاقت کا حصول ہے ۔ درحقیقت ریاست، حکومتی مشینری حکمران طبقے کے ہاتھ میں محض ایک ہتھیار ہے تاکہ اپنے مفادات کو مزید تحفظ دیا جا سکے ۔ ہم اسے چھیننا اور سنبھالنا چاہتے ہیں تاکہ اسے اپنے نصب العین کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا سکے، یعنی مارکسسٹ بنیادوں پر نئی سماجی تعمیر نو کر سکیں ‘‘ ۔

درحقیقت، بھگت سنگھ ایک جانس جیسی شخصیت ہے، (جانس: رومی افسانوی دیوتا) جو ترغیب و تشویق کے مختلف ذرائع کو یکجا کرتی ہے، ان میں سے کچھ خصلتیں مارکسسٹ ہیں ، دوسری انارکسٹوں کے ’’عمل کے ذریعے پروپیگنڈا‘‘ کو سپورٹ کرتی ہیں ۔ یہ اس کی آخری مہم سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ 8 اپریل 1929 کو بی کے دت کے ساتھ، اس نے قانون ساز اسمبلی میں دو بم پھینکے تاکہ’’بہروں کو سننے پے مجبور کیا جا سکے‘‘۔یہ طریقہ  ایک فرانسیسی انارکسٹ آگسٹ ویلنٹ سے مستعار لیا گیا ہے ۔ لیکن بھگت سنگھ نے اس کارروائی کو بھی ایک بڑے منصوبے کا حصہ بنا کر پیش کیا ۔ سب سے پہلے، اس کا مقصد اسمبلی کو ایک قانون’’پبلک سیفٹی اینڈ ٹریڈ ڈسپیوٹ بل‘‘ کے لیے ووٹنگ سے روکنا تھا جس کے نفاذ سے ہندوستانی محنت کشوں پر جبر کیا جانا تھا ۔ دوسرا، اس کا مقصد اس طریقہ کار کی مذمت کرنا بھی تھا جس میں اس نام نہاد ہندوستانی پارلیمنٹ نے خود کو انگریزوں کے سہولت کار کے طور پر پیش کیا ہوا تھا ۔ اس کا آخری مقصد لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینا تھا ۔ یہ تمام وضاحتیں اس عمل کو جتنا انارکسزم سے جوڑتی ہیں اتنا ہی سوشلسٹ ایجنڈے سے بھی ۔ مگر سکے کا آخری رخ ظاہرکرتا ہے کہ بھگت سنگھ نے تشدد کو اہمیت نہیں دی ۔ ان کے سیاسی فلسفے کی صحیح سمجھ حاصل کرنے کے لیے ہمیں وہ لیفلیٹ آخر تک پڑھنا چاہیے جو بھگت سنگھ اور دت نے اپنے بم پھینکنے کے بعد اسمبلی میں پھینکا تھا ۔ اس کے اختتامی الفاظ قابل ذکر ہیں :

’’ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے افسوس ہے کہ ہم ،جو انسانی زندگی کے لیے اتنا بڑا تقدس رکھتے ہیں  اور ایک شاندار مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں جس میں انسان مکمل امن اور مکمل آزادی سے لطف اندوز ہوگا‘ انسانی خون بہانے پر مجبور ہیں ‘‘ ۔

یہ الفاظ ’’تشدد سے انکار‘‘ کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسا انکار جو بھگت سنگھ اور دت نے ججوں کے سامنے اپنے اعلامیے میں زیادہ جامع شکل میں رکھا ۔ وہاں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دو بم خالی قطاروں میں پھینکے گئے اور یہ کہ اپنی ساخت میں ، جس کی تفصیلات وہ کسی عظیم کیمیادان کی مانند فراہم کرتے ہیں ، وہ بم بے ضرر تھے: اگر ان میں کوئی اور زیادہ دھماکہ خیز مواد ڈالا گیا ہوتا، جیسے تباہ کن چھرے یانوکدار چیزیں تو وہ قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا صفایا کر سکتے تھے ۔

یہاں تک بھگت سنگھ اور دت نے اپنے تشدد کے استعمال کے عمل کا دفاع کیا ۔ وہ محض’’طاقت‘‘ کی بات کرتے ہیں :

’’انسانیت کی محبت میں ہم سے کوئی آگے نہیں ۔ کسی بھی فرد کے خلاف کسی بھی قسم کی کینہ پروری سے دور اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسانی جان کو بالاتر سمجھتے ہیں (………) ہمارا واحد مقصد’بہروں کو سنانا‘ اور سوئے ہوئے کو بروقت جگانا تھا لہٰذا، طاقت جب جارحانہ طور پر لاگو کی جائے تو’تشدد‘ہے اور اس لیے اخلاقی طور پر ناقابل جواز ہے لیکن جب اسے کسی جائز مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر اس کا اخلاقی جواز بنتا ہے‘‘ ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ‘ گاندھی کی طرح یسوع مسیح کو بھی اپنا ایک مثالی کردار(Role Model) سمجھتا تھا:’’اگر ہم نیت کو ایک طرف رکھ دیں ، تو یسوع مسیح بھی ایک ایسا شخص نظر آئیگا جس نے امن کو خراب کیا اور بغاوت کی تبلیغ کا جرم کیا، اور قانون کی نظر میں وہ ایک خطرناک آدمی کے طور پر دکھائی دینگے لیکن ہم اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ ہمارے دلوں میں ان کے لیے بڑا احترام اور خاص مقام ہے ۔ اس کی تصویر کا نظارہ ہمیں روحانی تسکین سے بھر دیتا ہے‘‘ ۔

 ایک حقیقی غیرمعمولی انقلابی کے طور پر بھگت سنگھ نے نہ صرف کبھی ہندو مت کی پیروی نہیں کی بلکہ  عدم تشدد کی بھی قدر کرتے تھے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے