انتخابات 2024: جن کو مرہم سے آگ لگ جائے!

تحریر: حمید خان

بازاری معیشت پر مبنی جدید قومی ریاست میں انتخابات کا انعقاد دراصل سرمائے اورمعیشت پر قابض سرمایہ دار دھڑوں کے درمیان حق ِاقتدار کے حصول کی رسہ کشی کا نتیجہ نکالنا مقصود ہوتا ہے تاکہ حکمران دھڑوں کے بیچ اقتدار و اختیار پر قبضے کے تناؤ کو کم کیا جاسکے۔ اسی طرح انتخابات کے دھوکے کےذریعے حکمران ریاست مفلسی مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کے جہنم میں بلکتے محنت کش عوام کے غم وغصہ کو کم کرنے اور بنیادی ایشوز سے ان کی توجہ ہٹانے کے لیے اسے سیفٹی وال کی طرح استعمال کرتی ہے لیکن تاریخی اور منطقی طور پر ہمہ جہت بحرانوں، شدید ٹوٹ پھوٹ اور پولرائزیشن کی شکار پاکستانی ریاست کے رستے زخموں کو حالیہ انتخابات نے پیوند لگانے و مرہم جیسی راحت کا کام کرنے کی بجائے اس کے گھاؤ مزید گہرے کرکے سماج اور ریاست میں نئے تنازعات بھی ابھارے ہیں جس سے ریاست سماج اور سیاست میں پولرائزیشن خطرناک سطحوں کو چھو رہی ہے۔ انتخابات سے من مرضی کے نتائج نکالنے سے سیاسی و معاشی عدم استحکام و عمومی بے یقینی و عوامی غیض وغضب میں شدید اضافہ ہوا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سرمائے کے شدید تسلط میں بورژوا پارلیمنٹ کی تشکیل اور حکومت سازی کے لیے انتخابات کا سٹیج سجتا ہے جو ظالم حکمرانوں کے مختلف دھڑوں اور گروہوں میں سے محنت کش عوام کو اپنی لوٹ، استحصال اور امتیازی سلوک پر مبنی قانون سازی کے لیے اپنے حکمران منتخب کرنے کا تماشہ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسی پسماندہ ریاست میں جہاں سرمایہ دار طبقہ تاریخی طور پر اپنی سرشت میں ہی نظریات و خیالات میں پسماندہ ہے‘ تاریخی فرائض کی تکمیل میں نااہل اور ثقافتی و سیاسی طور پر کردار میں رجعتی ہے اور اسی بنیاد پر اپنی وسیع بدعنوانی، بجلی و گیس چوری ، ٹیکس میں غبن اور عالمی صنعتی، ٹیکنالوجیکل اجارہ داریوں، مالیاتی سامراجی اداروں و سامراجی ریاستوں کی گماشتہ کردار کی وجہ سے یہ سرمایہ دار طبقہ حکمران ریاست کے طاقتور اداروں کے آگے بالعموم اور فوج کے سامنے بالخصوص خصی اور بلیک میل ہے جس سے ریاست کے طاقتور ادارے کا سیاست ، معیشت، سماج، حکمرانی اور ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میں کردار تمام حدود پھلانگ کر بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ ریاست کا منظم و طاقتور ادارہ فوج صنعت و تجارت، تعلیم و صحت، ترسیل و مواصلات ، زراعت و معدنیات اور رئیل اسٹیٹ سے لے کر معیشت کے تمام شعبوں میں تمام مالی مراعات، ٹیکس چھوٹ اور سبسیڈیز کی بنیاد پر اپنی اجارہ داری قائم اور مضبوط کرتا چلا گیا ہے۔ دوسری طرف جرنیلوں کی سربراہی میں ریاستی ملکیتی انٹرپرائزز لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کی وجہ سے زوال پذیر ہوکر یہ ادارے بند کیے جارہے ہیں۔ انہی جعلی خساروں کو بنیاد بناکر ریاستی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھنے والے اداروں کو حکمران اونے پونے دام میں فروخت کرنے کی پالیسیاں بناتے ہیں‘ پھر یہی ارباب اختیار غیر ملکی کمپنیوں کے نام پر ان کے ساتھ سازباز کرکے یہ عوامی ادارے خرید لیتے ہیں۔ اسی طرح روایتی نجی شعبے کو بھی مختلف ہتھکنڈوں‘ زور زبردستی کے ذریعے مقابلے سے باہر نکال دیتے ہیں جس سے ان عسکری اداروں کی اجارہ داری اور بالادستی مزید مضبوط ہوتی رہتی ہے۔ ملکی معیشت کے ایک بڑے حصے پر فوج کی ملکیت اور معیشت پر تسلط اور سیاسی پارٹیوں میں اثرورسوخ کے بعد لبرل دانشوروں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں کا فوج کی سیاست میں مداخلت اور اس کا اپنے فرائض تک محدود رہنے کا مطالبہ انتہائی کھوکھلا ہے۔ ایسے میں سیاسی پارٹیوں کا خالص جمہوریت کا پروگرام صرف ایک بے بنیاد حسین خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کی امیدیں اور توانائیاں کسی حقیقی ثمرآور تبدیلی کے لیے جدوجہد کی بجائے ناقابل اصلاح نظام میں اصلاحات کے سراب پر ضائع کی جاتی ہیں۔ حقیقی تبدیلی کو ناممکن گردان کر عملیت پسندی کے نام پر مصالحت اور موقع پرستی کے دھوکے دیئے جاتے ہیں۔ یوں سرمایہ داری کے رکھوالے مختلف روپ دھار کر محنت کش عوام کو نسل درنسل لفاظیت، جذباتیت اور فروعی تضادات کے سیاسی دھوکے میں رکھ کر انہیں بے بسی اور مفلسی کے دلدل میں دھنساتے چلے جاتے ہیں۔

حالیہ 8 فروری کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں میں منقسم مینڈیٹ کو ہرطرف سے متفقہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی کا کرشمہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ تجزیہ صرف سندھ کے ایک شہر کراچی اور بلوچستان صوبے کی حد تک درست ہے جہاں کراچی میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیٹیں ایم کیو ایم پاکستان کے یکسر مسترد اور مردہ حالت کو زندہ اور بحال رکھنے کے لیے عطا کی گئیں۔ اس عمل کے ذریعے تعصب اور تنگ نظری کوپروان چڑھانے کی غلیظ کوشش کی گئی ہے تاکہ شہر ِمزدور کراچی اور اس کے عوام کو ایم کیو ایم کے دہشت کے سایوں میں رکھ کر کسی بڑی تحریک کا حصہ بننے سے روکا جائے لیکن اس تخریبی قدم سے ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کراچی کے عوام کی نظروں میں بُری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں انتخابات کے نتائج کی تبدیلی کی واردات کا آغاز بھی کراچی کی طرح اس وقت ہوا جب تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدوار پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں بڑے پیمانے پر کامیاب ہونا شروع ہوئے۔ ویسے بھی ملکی تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان میں ارباب اختیار کی ضروریات کے تحت انتہا پر جاکر پارٹیوں، انتخابات کے مطلوبہ نتائج اور شخصیات کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ مثلاً پچھلے الیکشن میں باپ پارٹی کے نام پر انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے والے سیاستدان اور کابینہ ممبران ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اگلی حکومت تشکیل دینے کے لیے چنے گئے ہیں۔ مرکز میں ریاستی اداروں میں پھوٹ کے نتیجے میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کی مدد کے ذریعے جنم لینے والے منقسم مینڈیٹ کی حالت بھانپتے ہی پیپلز پارٹی سے نوازشریف کے لیے مرکز میں حمایت جیتنے کی خاطر پیپلزپارٹی کو بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی تھوک کے حساب سے سیٹیں دی گئیں تاکہ پیپلز پارٹی کو سندھ کے علاوہ بلوچستان میں حکومت کے تحفے کے بدلے مرکز میں زرداری کی حمایت لے کر مرضی کی حکومت بنائی جاسکے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اپنی جیت پر کھسیانی بلیاں بنی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستانی ترمیم پسند بائیں بازو کا ہیرو جماعت اسلامی کا رہنما مولانا ہدایت الرٰحمن بھی حق دو تحریک کے پردے میں صوبائی نشست جیت چکا ہے۔ فاشست زیلینسکی کے ہم پیالوں اور بائیں بازو کے ترمیم پسندوں کے ہیرو مولانا کی ‘شاندار’ جیت سے ان کی پنجاب میں گمنام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونے والی شکست جیسے دکھ کا مداوا ضرور ہوا ہوگا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی غالب اور بڑی اکثریت کے ساتھ جیت جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے رجعتی ملاں اور ریاستی گماشتہ اتحاد جی ڈی اے کے مظہر سے یہ بات سندھ کی حد تک مکمل درست اور کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی پالیسی کی کامیابی کا واضح اظہار ہے کہ پاکستان کے زوال پذیر رجعتی سیاسی ماحول میں پیپلز پارٹی فریب ہی سہی لیکن اب تک عوامی امیدوں کی مرکز ہے۔ پیپلز پارٹی کا ملکی سیاسی افق سے نہ تو ریاستی حملوں، دائیں بازو کی کوششوں، خود پی پی پی لیڈرشپ کی مصالحت در مصالحت اور عوام دشمنی پر مبنی تباہ کن پالیسیوں سے صفایا ہوا اور نہ ہی پاکستانی بائیں بازو کی انتہائی رجعتی و دائیں بازو والی مستعار تنقید سے پی پی پی کو کوئی فرق پڑا‘ البتہ عوامی پارٹی کی بے جا دشمنی نے فرقہ پرست اور طفلانہ بیماری کی شکار بائیں بازو کو مزید تنہائی کی طرف دھکیلا۔ محنت کش عوام اپنے تجربے اور زندگی کے عملی کتاب سے سماجی عمل کے دوران سیکھتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل کو عوام اور محنت کشوں میں موجود انقلابی تیزتر کرتے ہیں‘ انہیں منظم کرتے ہوئے جابرانہ استحصالی نظام اور حکمران ریاست سے ٹکراتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج پورے ملک کی نسبت سب سے زیادہ پیچیدہ اور غیر متوقع ثابت ہوئے۔ جہاں رجعتی ملائیت کو اس کی اسٹیبلشمنٹ نواز اور ریاستی رجعتی اثاثوں کے ساتھ قریبی تعلق کی بنیاد پر باشعورعوام نے یکسر مسترد کردیا‘ وہاں عوامی نیشنل پارٹی نظریات کی بجائے شخصیات پر تکیہ زن ہونے، صوبے کے زمینی بدتر حالات کی وضاحت اور اس کے حل کے لیے واضح پروگرام دینے کی بجائے ماضی قریب میں اپنی حکومت کے چند غیر اہم اقدامات کی راگ الاپتے رہ گئے۔ اے این پی کی شکست کی وجہ میں باقی کسر صوبے میں اسٹیبلشمنٹ کے دو دھڑوں کی باہمی لڑائی جو پی ٹی آئی اور ن لیگ کو حمایت مہیا کرکے کسی بھی طریقے سے انہیں جتانے نے پوری کردی۔ اس پر استہزاءیہ کہ خیبرپختونخوا میں ہونے والی بڑے پیمانے پر دھاندلی سے پارٹی عوام کو آگاہ کرنے کی مہم چلاتی‘ احتجاج اور مظاہرے کرتی‘ ایسے نازک مرحلے پر پارٹی کے صوبائی صدر کے استعفے نے گمراہ کن طور پر اس امر کی غلط تصدیق کردی کہ انتہائی صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں عوامی نیشنل پارٹی ہار گئی ہے۔ حکمران امیر خاندانوں کو چاہے وہ مظلوم قومیتوں سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں انہیں پارٹی اور عوامی مفادات کی جگہ اپنی ذاتی تشہیر، خاندانی مفادات اور بے معنی اور جعلی اقدار کی باریابی عزیز ہوتی ہے۔ ملکی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کے دھڑوں کی ن لیگ اورپی ٹی آئی کو کامیاب کرنے کی باہمی رسہ کشی میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ چھن گیا۔ خیبر پشتونخواہ میں تحریک انصاف کے حق میں پڑنے والے ووٹ اکثر سٹیشنوں پر ٹھپوں کی وجہ سے پولنگ سٹیشنوں پر مختص ووٹوں سے بھی زیادہ نکلے۔ پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں ملنے والے بھاری جعلی مینڈیٹ کے سبب پشتون خواہ میں پارٹی مینڈیٹ کے چھن جانے پر مکمل خاموشی اختیار کی جبکہ اے این پی نے اپنی بدترین شکست تسلیم کرتے ہوئے تحریک انصاف کی پشتونخواہ یعنی افغانستان کے ساتھ ملحق صوبے میں ریاستی ضرورت کے تحت طالبان نواز حکمرانی کو تسلیم کرلیا۔

فرسودہ عالمی نظام سرمایہ داری میں ریاستی ٹوٹ پھوٹ، سیاسی و معاشی عدم استحکام اور بدترین ملکی سیاسی و معاشی حالات میں اسٹیبلشمنٹ اور عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر چلنے والی پی ڈی ایم اتحادی نااہل حکومت کی مکمل ناکامیوں نے کسی متبادل کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کو پنجاب میں مڈل کلاس کی قدرے حمایت دوبارہ سے جیتنے کا اہل بنایا۔ عمران خان کی سامراج نوازی اور اسٹیبلشمنٹ کی گماشتگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن جعلی اور نام نہاد سامراج و اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے نے سماج کے سامراج و اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ کو بھی تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالنے کا کردار ادا کیا۔ اوپر سے رہی سہی کسر محنت کش طبقے و عوام کی انتخابات سے بیگانگی کے ماحول میں اسٹیبلشمنٹ میں پھوٹ اور ایک دھڑے کی پی ٹی آئی کی سپورٹ نے پوری کردی جس سے تحریک انصاف کو پنجاب میں جگہ گھیرنے جبکہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اسی صوبے میں بہت بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں۔ برسر اقتدار دھڑے کی تمام منصوبہ بندیاں خاک میں مل گئی ہیں۔ 9 مئی کی بساط پر ناکام بغاوت کے الزام میں غریب کارکن تو گمنامی کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ حکمران خاندانوں کے امیر زادے اور پی ٹی آئی کی لیڈرشپ امیدوار بننے سے لے کر کامیابی حاصل کرنے تک حکومتی تشکیل کے عمل میں پوری طرح سرگرم ہیں جو ایک طرف ریاست کے طبقاتی کردار کی غماز‘ تو دوسری جانب حکمران دھڑے اور ریاست کی بہ حیثیت مجموعی نزاع کی حالت کا اظہارہے۔ کمشنر راولپنڈی ڈویڑن کی پریس کانفرنس اور دھاندلی کرنے کے اعترافی بیانات نے ریاست کی داخلی لڑائی کو مزید کھول کر بہت تیز کردی ہے۔

منقسم و منتشر مینڈیٹ بہ حیثیت مجموعی کسی بھی صورت میں نہ تو عوامی رائے کا درست اظہار ہے اور نہ ہی سماج میں ان خطوط پر کوئی سیاسی سماجی تقسیم موجود ہے۔ حکمران ریاست اور پارٹیاں جن کا انتخابی منشور و پروگرام تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک دوسرے کے پروگرام کی نقل ہے‘ تمام پارٹیوں کے پاس ریاست کے معاشی اور سیاسی بحرانوں کا حل آئی ایم ایف سے سود پر قرضے لے کر اصلاحات کرنا ہے۔ سود پر قرضوں کےذریعے معاشی بڑھوتری، بنیادی و سماجی ڈھانچے کی تعمیر اور ترقی حاصل کرنے کا یہ حل مملکت خداد پاکستان کے جنم دن سے ہی آزمایا جارہا ہے جس کے نتائج ہمیشہ اور ہر بار مزید قرضوں کے حصول، ریاستی آمدن کی سود کی ادائیگی کی صورت میں زیاں ، حکمرانوں کی کرپشن اور عیاشی جبکہ غریب عوام کی مزید بدحالی‘ مفلسی اور انتہا کی غربت کی صورت میں ہی نکلتے رہے ہیں۔ دائیں بازو کی ن لیگ ہو یا تحریک انصاف، یا پھر سینٹر لیفٹ کی پیپلز پارٹی یہ سب سرمایہ داری کے اندر آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی نیولبرل عوام و مزدور دشمن معاشی و اقتصادی پالیسیوں کےذریعے حالات میں بہتری کا سیاسی احمقانہ خواب دیکھتی ہیں۔ گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دس میں سے سات پاکستانی انتخابات سے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید نہیں رکھتے جو اس سماج کی اکثریت کی حقیقی رائے کا اظہار ہے۔ ان پارٹیوں کو پڑنے والے حقیقی ووٹ کسی بھی عوام دوست ایجنڈے پرامید کا ووٹ نہیں بلکہ یہ اس پورے انتخابی عمل سے مایوسی کا ووٹ ہے جو شعوری اور جذباتی لگن کی بجائے بے دلی کے ساتھ کم تر ترجیحات کو بادل نخواستہ سپورٹ کی غمازی کرتا ہے اور انتخابات میں ووٹ پڑنے کی مجموعی شرح کو قابل قبول بنانے میں ٹھپوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

انتخابات کا یہ منقسم منتشر و غیر حقیقی نتیجہ پاکستان کی روایتی انتخابی سیاست میں ہمیشہ اسٹٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے مرتب و منظم کیے جانے والے نتائج سے یکسر مختلف اور متضاد ہے جس کی اہم وجہ ریاست کی معاشی و اقتصادی بدنظمیوں کے نتیجے میں فوج اور عدلیہ سمیت سول بیوروکریسی میں گہری دراڑیں ہیں جو کسی ایک ریاستی دھڑے کو ان کے منصوبوں میں کامیاب ہونے سے روکنے کی مقابل دھڑے کے پس پردہ مخالفانہ اقدامات ہیں جس سے انتخابات اور اس کے نتائج نے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو قریب لانے کی بجائے ایک دوسرے سے مزید دور کردیا۔ ملک میں ہمہ جہت بحران کو مزید گہرا اور وسیع کرکے ان انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کی تشکیل کو بہت مشکل کردیا ہے۔ شکست خوردہ نواز غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے حکومتی سربراہ بننے کی دوڑ سے بھاگ گیا ہے۔ اس نے اپنے بھائی شہباز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو ہے حکومتی سربراہی کے لیے آگے کردیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بے حس اور ظالم لیگی جن کا مذہب حکومت ہوتا ہے اور یہ ایک خدا کو جانتے ہیں جو ریاست کی طاقت ہے‘ یہ حکمران بننے سے خوفزدہ ہیں۔ اگر حکومت بڑی مشکل سے تشکیل بھی پا جاتی ہے تو اس کا ہم آہنگی اور ہموار طریقے سے چلنا ناممکن بنتا جارہا ہے۔ خطے میں امریکی سامراج اور طاقتور ریاستوں روس اور چین کی سٹریٹیجیکل پراکسی لڑائی بھی شدت سے اپنا سرابھار رہی ہے جس کا ہلکا سا نظارہ الیکشن کے دوران نظر آیا۔ اس کی شدت‘ جس کی خطے میں مقابل پراکسیز کی موجودگی کی صورت میں قوی بنیادیں بھی موجود ہیں‘ اس بحران زدہ، خارجہ پالیسی کے حوالے سے پراگندہ اور ڈگمگاتی سیاسی و ریاستی حالت پر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ حکمران ریاست اور سرمایہ داری کے بقا کا سوال حکمرانوں کو پہلی بار تاریخ میں ان دیکھی صورت میں درپیش ہے جس سے ہر وقت سے زیادہ فوجی حکمرانی کا احتمال بڑھتا جارہا ہے۔ 9 مئی کا سٹیج کسی نئی سطح پر سج سکتا ہے یا پھر برسر اقتدار دھڑا طاقت کے مراکز پر بلاواسطہ قبضہ کرسکتا ہے ۔ یہ ریاست اور بازاری نظام کے نامیاتی بحران اور چیلنجز ہیں‘ ابھی محنت کش عوام اور طبقے نے سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلایا۔ بہرصورت حکومتی تشکیل یا بصورت دیگر حکمرانوں نے سامراجی گماشتگی میں ظالمانہ پالیسیوں اور کفایت شعاری کے نام پرعوام اور محنت کشوں و ملازمین سے بہت ساری کٹوتیاں کرنی ہیں‘ زبردستی ناروا ٹیکس کا مزید بوجھ عوام پر لادنا ہے‘ بجلی گیس اور دیگر ذرائع زندگی کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچا کر رسائی سے دور پہنچانی ہیں‘ نجکاری اور خدمات میں اصلاحات کے نام پر وسیع پیمانے پر بے روزگاری پھیلانی ہے‘ غربت اور مفلسی میں جلتے بلکتے عوام کو حکمرانوں نے جہنم سے روشناس کرانا ہے‘ اشیائے ضرورت جو اب بھی عوامی پہنچ سے دور ہیں اور گھروں میں ریکارڈ فاقے چل رہے ہیں‘ حکمرانوں نے اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہی کرنا ہے۔ عالمی اور خطے کی سطح پر گہرے معاشی زوال اور ریاستی جبر کے حالات میں سرمایہ داری‘ اس کے پنڈتوں اور حکمرانوں کے پاس ان مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ ان حالات میں محنت کش عوام کے پاس ظلم وجبر کے خلاف اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ عوامی غیض و غضب ناگزیر طور پر ایک عوامی تحریک میں اپنا اظہار مستقبل قریب میں کرے گا۔ ان انتخابات نے مذہبی جماعتوں کا قدرے صفایا کردیا ہے جس سے عوامی شعور کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بایاں بازو بہت کمزور، منتشر اور موجودہ عہد کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ماضی کے تعصبات کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ کچھ ترمیم پسند مارکس وادی تو امریکی سامراج کی وسعت پسندی کے عالمی ایجنڈے کے لیے بساط کے مہروں کا گھٹیا کردار ادا کررہے ہیں۔ ڈالرجہادیوں کے بعد بائیں بازو کو ڈالرانقلابیوں کا طعنہ سننے کو مل رہا ہے۔ بائیں بازو کو مارکسسٹ اور لیننسٹ نظریات سے مسلح ہوکر بالشویکوں کی سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی کامیاب مثال کو سامنے رکھ کر اپنی جدوجہد تیز کرنی ہوگی۔ پسماندہ سماج میں تنظیمی سرگرمیوں تک محدود اور خودرو اور خالص مزدور تحریک کے ابھرنے کی خواہش اور خیال کو ترک کرکے عوام اور محنت کشوں تک نظریات پہنچانے ہونگے۔ مظلوم قومیتوں میں ترقی پسند مارکسسٹ انقلابی کیڈرز کی قیادت میں برپا ہونے والی جمہوری سیاسی تحریکوں کے ساتھ کھڑے ہوکر مزدور شہروں میں تحریکوں کو ابھارنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ مزدوروں محنت کشوں اور مظلوموں کو انقلابی نظریات سے مسلح کرنا ہوگا‘ انہیں محنت کشوں اور انقلابی تنظیم کے ڈھانچوں میں منظم کرنا ہوگا‘ مزدوروں محنت کشوں اور عوام کی انقلابی پارٹی کو جنم دینا ہوگا۔ اس ناگزیر انقلابی عمل کے بغیر سرمایہ داری اور رجعتی ریاست کے ان ظالم اور بے حس حکمرانوں سے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

One thought on “انتخابات 2024: جن کو مرہم سے آگ لگ جائے!

  1. سارا الیکشن دھاندلی زدہ تھا اور پی پی کی جیت اصلی تھی 🤪
    تحریک چلے گی تو سب سے پہلے سامراج نواز قوتیں، جن میں پی پی سر فہرست ہے، اس کی زد میں آئے گی، ٹیڈ تو وڑ گیا پھر🤪
    کے پی کے میں ٹھپے لگے اور سندھ کے وڈیرہ شاہی بوڑھوں میں "جمہوری ووٹ” پڑے🤪

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے