’نظریہ انحصاریت ‘کے پچاس سال

تحریر: مائیکل رابرٹس

[آرٹیکل کا انگلش ورژن اس لنک پر ملاحظہ کریں]

نظریہ انحصاریت (Dependency theory) ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ماڈرنائزیشن کے نظریے کی تنقید کے طور پر ابھرا تھا۔ ماڈرنائزیشن کے نظریے کی دلیل یہ تھی کہ غریب ممالک ‘ امیر ممالک کے نقش قدم پر چل کر ترقی کر سکتے ہیں۔ انحصاریت کے نظریہ دانوں کا موقف یہ تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ امیر ممالک ایک منظم انداز میں غریب ممالک کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ نظریہ لاطینی امریکہ سے اس وقت ابھرا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں میں سرمایہ دارانہ ترقی کے سنہری دور کا خاتمہ ہوا۔
ایسا لگتا تھا کہ ”مغرب“ میں ہونے والی معاشی ترقی کا ماڈل جنوبی امریکہ، مشرق وسطیٰ یا افریقہ کی معیشتوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ 1945ءمیں ارجنٹائن اور برازیل جیسے لاطینی امریکی ممالک کی فی کس آمدنی جنوبی یورپ کے کمزور سرمایہ دارانہ معیشتوں سے اتنا کم نہیں تھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ گلوبل نارتھ کی صنعتی معیشتوں کی طرز پر چلنے کی خواہش رکھنے والی حکومتوں کے زیر اثر لاطینی امریکہ میں بھی خوشحالی آئے گی۔ یہ اُمیدیں اُس وقت چکنا چور ہوگئیں جب ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں شرح منافع اور سرمایہ کاری میں زوال آیا جو بیسویں صدی کے بقیہ سالوں میں بھی جاری رہا۔
یونیورسٹی آف بیونس آئرس کے پروفیسر اور لاطینی امریکی سماج اورمعیشت کے اوپر متعدد کتابوں کے مصنف کلاڈیو کیٹس نے اپنی نئی کتاب میں نظریہ انحصاریت کی پچھلے پچاس سالوں میں لاطینی امریکہ میں ارتقا پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں نظریہ انحصاریت پر بحث کا آغاز مارکس کے اس جملے سے کرنا چاہیے جو اس نے 1867ءمیں سرمایہ کی پہلی جلد کے دیباچے میں لکھا تھا، ”صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک ‘ کم ترقی یافتہ ملک کو اُس کے مستقبل کا عکس دکھاتی ہے“۔ یہ جملہ مارکس اُس وقت لکھ رہا تھا جب برطانیہ اپنی صنعتی اور معاشی طاقت کے عروج پر تھا۔ سرمایہ دراصل ایسی ہی سرمایہ دارانہ معیشت کا تجزیہ تھا۔ مارکس کا خیال تھا کہ سرمایہ داری عالمی سطح پر پھیلے گا اور دوسری حریف سرمایہ دارانہ طاقتیں ابھریں گی۔ اس نے صحیح کہا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر جرمنی، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ نے برطانیہ کی سطح تک اپنے آپ کو پہنچا دیا۔
لیکن آج ہم یہ جانتے ہیں کہ صنعتی اور تجارتی طور پر چند سرمایہ دارانہ ممالک ہی ہیں جو مارکس کی پیشگوئی پر پورا اترے۔ بعد میں انہی طاقتوں نے اپنی عسکری، مالیاتی اور تکنیکی طاقت کے بلبوتے پر دنیا کے باقی ممالک (پسماندہ) کے سرمایہ داروں اور مزدوروں کی پیشرفت کو روک دیا۔ لینن نے 1915ءمیں لکھا کہ گنتی کے چند ممالک دنیا بھر کی ٹیکنالوجی، مالیات اور وسائل پر قابض ہیں۔ آج‘ سو سال بعد وہی ’سامراجی‘ معیشتیں کم و بیش اُسی طرح غالب ہیں۔ اس طرح ہم ایک غالب سامراجی بلاک اور ایک ’مغلوب‘ یا منحصر باقی دنیا کی بات کرسکتے ہیں۔
لیکن ’انحصاریت‘ مختلف شکلیں لے سکتا ہے اور کیٹس ہمیں انحصاریت کے مکتبہ فکر میں مختلف سوچوں کی بحث کے ذریعے یہی دکھاتا ہے۔ انحصاریت کے مفکرین عالمی معاشی نظام میں ملکوں کے دو گروہ کی نشاندہی کرتے ہیں: مرکزی ممالک اور مضافاتی ممالک(The core and the periphery)۔مرکزی ممالک امیر ہیں جو عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔مضافاتی ممالک غریب ہیں جو تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے لیے مرکزی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں لفظ مضافات (Periphery)‘ منحصر (Dependent) سے بہتر ہے کیونکہ مؤخر الذکر سے یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ مضافاتی ممالک میں سرمایہ دار طبقہ اپنے مزدور طبقے کے استحصال میں کوئی آزادانہ کردار ادا نہیں کرتا اور استحصال دراصل سامراجی قبضے اور بیرونی کمپنیوں کی وجہ سے ہے۔
نظریہ انحصاریت اس بات کی وضاحت میں مثبت کردار ادا کرتا ہے کہ غریب اور غیر ترقی یافتہ ”مضافاتی“ ممالک سے وسائل امیر ”مرکزی“ ممالک کی طرف جاتا ہے جو غریب ممالک کی قیمت پر امیر بنتے ہیں۔ یہ نظریہ رائج الوقت ’ڈویلوپمنٹ اکنامکس‘ کے نظریے کو مسترد کرتا ہے جس پر اقوام متحدہ کے ادارے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف زور دیتے ہیں کہ تمام معاشرے ترقی کے ایک ہی طرح کے مراحل سے گزرتے ہیں اور آج کے غیر ترقی یافتہ ممالک اُنہی حالات سے گزر رہے ہیں جن سے کبھی آج کے ترقی یافتہ ممالک گزرے تھے‘ اس لیے غیر ترقی یافتہ ممالک کو غربت سے نکالنے کے لیے سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور عالمی منڈی میں ضم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے سرمایہ دارانہ ترقی کے مشترکہ راستے پر لگانا چاہیے۔اس طرح وہ مضافاتی ممالک کو ’اُبھرتی‘ یا ’ترقی پذیر‘ معیشتیں کہتے ہیں۔
یہ سوچنا غلط ہوگا کہ مارکس نے ’ڈویلوپمنٹ اکنامکس‘ کو اختیار کیا جیسا کہ سرمایہ کے نقل کردہ جملے سے بظاہر لگتا ہے۔ اُس وقت وہ اپنے دور کے صنعتی سرمایہ دارانہ معیشتوں کی بات کر رہا تھا۔ اپنی بعد کی تحریروں میں اُس نے اس بات پر زور دیا کہ کس طرح انڈیا، روس اور چین جیسی بڑی آبادی والے ممالک کا استحصال کیا گیا اور بالآخر اُنہیں چوٹی کے صنعتی ممالک کی صف میں جانے سے روک دیا گیا۔
اس کتاب میں کیٹس نے رائج الوقت نظریہ انحصاریت کی بجائے اس کے مارکسی تصور پر زور دیا ہے کیونکہ رائج الوقت نظریہ یہ دلیل دیتا ہے کہ کینشین اسٹ طرز کی ریاستی اخراجات، بیرونی اجناس کی جگہ مقامی اجناس اور مالیاتی ریگولیشن جیسی پالیسیوں کے ذریعے انحصاریت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر یہ نظریہ ارجنٹائن یا برازیل جیسے ممالک کو چوٹی کے سرمایہ دارانہ معیشتوں کی صف میں لے جانے میں ناکام ہوئی ہے۔ اس کی بجائے مارکسی نظریہ انحصاریت یہ دلیل دیتا ہے کہ تجارت، فنانس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ان ممالک کی معیشتوں سے سامراجی بلاک کی طرف بے تحاشا قدر(Value)کے بہاﺅ کی وجہ سے یہ ممالک ”منحصر“ ہی رہیں گے۔
عالمی تجارت میں ’عدم مساوی تبادلہ‘ (Unequal Exchange) مارکس کے نظریہ قدر کا بنیاد ی جزو ہے۔ تاہم نظریہ انحصاریت میں عدم مساوی تبادلے کی خصلت کے بارے میں اختلافات ہیں: کیا یہ اجرتوں میں فرق کی وجہ سے ہے یا ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پیداواریت میں فرق کی وجہ سے؟ کیا سامراجی ممالک اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے مضافاتی ممالک کی سستی محنت سے منافع کماتے ہیں یا عالمی تجارت میں برتر ٹیکنالوجی اور کم تر فی یونٹ اخراجات کے ذریعے؟
کیٹس کا خیال ہے کہ لاطینی امریکہ میں نظریہ انحصاریت کے سب سے ممتاز مارکسی نظریہ دان‘ رائے مورو میرینی ”اس سوچ کے زیادہ قریب تھا کہ عدم مساوی تبادلہ‘ اُجرت کی بجائے پیداواریت میں فرق کی وجہ سے ہے“۔ اس سوچ کا یہ ماننا ہے کہ اجرتوں میں فرق‘ پیداواری قوتوں کی ترقی میں فرق کی وجہ سے ہے‘ نا کہ اس کے برعکس۔ اُن کے مطابق ، ”اُجرت‘ سرمایے کے اجتماع کا تعین کنندہ کی بجائے اُس کا نتیجہ ہے۔ ہر ملک میں اُجرت کی سطح پیداوریت، بزنس سائیکل، کپیٹل سٹاک اور طبقاتی جدوجہد کی سطح پر منحصر ہے“۔
اگر یہ میرینی کا موقف ہے تو میں اس سے اتفاق کرتا ہے۔ جدید سامراجیت کے بارے میں میری اور گگلیموکارچیڈی کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مضافاتی معیشتوں سے مرکزی معیشتوں کی طرف عدم مساوی تبادلے کے ذریعے قدر کا بہاﺅ زیادہ تر پیداواریت میں فرق اور ٹیکنالوجیکل برتری کی وجہ سے ہوتی ہے‘ اور کسی حد تک مضافاتی ممالک میں بلند تر شرح استحصال کی وجہ سے۔
تاہم میرینی نے بے تحاشا استحصال (Super-exploitation) کا تصور پیش کیا جس کے تحت مضافاتی ممالک میں اُجرتیں قوت ِ محنت کی قدر یا اوسط عالمی اُجرت سے کم ہوتی ہیں۔ کیٹس کے مطابق، ”یہ میرینی کے نظریہ انحصاریت کا مرکزی تھیسس تھا“۔ لیکن کیٹس کا موقف ہے کہ ’بے تحاشا استحصال‘ امیر سے غریب ممالک کی جانب قدر کے بہاﺅ کی اصل وجہ نہیں ہے۔ ”یہ قدر زائد کی منطق کو منحل کرتی ہے“ اور ”سرمایے کے اجتماع کی معروضی منطق“ کی بجائے پرودھون کے چوری کا تصور لگتا ہے۔ جیساکہ کیٹس نشاندہی کرتا ہے کہ ’غیر مستقل روزگار اور زیر و-آور کنٹریکٹ وغیرہ جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے نیو لبرل سامراجی معیشتوں میں بھی ’بے تحاشا استحصال‘ وجود رکھتا ہے۔
میرے خیال میں اصل نکتہ یہ ہے کہ سامراجی گلوبل نارتھ کی طرف قدر کا بہاﺅ (Value transfer)اُن کی برتر ٹیکنالوجی اور محنت کی پیداواریت کی وجہ سے ہوتی ہے‘ جس سے وہ اس قابل بنتے ہیں کہ اپنی اجناس کو عالمی منڈی میں عالمی اوسط سے کم پر فروخت کریں۔ مضافاتی ممالک کے سرمایہ دار اپنی تکنیک اور پیداواریت کی کمی کو اپنے مزدوروں کی اجرت کو کم کرکے پورا کرتے ہیں۔ اس لیے گلوبل ساﺅتھ میں بلند استحصال کی شرح دراصل گلوبل نارتھ سے مقابلے میں ناکامی کا ردعمل ہے۔
کیا اجارہ داری‘ سامراجی کمپنیوں کے غلبے کی اصل وجہ ہے؟ انحصاریت کے چند نظریہ دانوں کا یہی خیال ہے۔ تاہم کیٹس کا خیال ہے کہ میرینی اس طرح نہیں سوچتا تھا، ”میرینی ہمیشہ منڈیل جیسے مارکسی مفکرین کے زیادہ قریب رہا جو اجارہ داریوں کے درمیان تقابلی فرق کی وضاحت کرتے تھے۔ اُس نے سویزی جیسے نظریہ دانوں سے فاصلہ رکھا جو بڑی کمپنیوں کی قیمتوں کا تعین کرنے کی لامحدود صلاحیت کی بات کرتے تھے“۔ لیکن میرینی‘ انور شیخ کی حد تک نہیں گیا جو کیٹس کے مطابق ”دیو ہیکل کارپوریشنوں کے وجود سے انکاری تھا جو چھوٹی کمپنیوں کی قیمت پر مخصوص منڈیوں میں غیر معمولی منافع کماتے ہیں“۔
کیٹس کے مطابق میرینی کی مارکس کے نظریہ قدر کی سمجھ بوجھ من موجی تھا۔ ”وہ مارکسی معاشیات میں اُس روایت سے تعلق رکھتا تھا جو اس طریقہ کار سے متفق نہیں تھا جس میں پیداوار کے شعبے میں قدر کے تجزیے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی تھی۔ یہ طریقہ کار قدرِ زائد کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے میں قدر کی پیمائش کرتی ہے اور اُس اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مارکس استحصال کی منطق کو دیتا تھا اور سرمایہ داری کی تمام تضادات کو اسی سے اخذ کرتا تھا“۔ میرینی ” طلب کے شعبے میں موجود عدم توازن“ کو بھی تجزیے کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ کیٹس معاشی بحران کے بارے میں میرینی کے تصورات کو اس طرح خلاصہ کرتا ہے، ”بحران کی متعدد وجوہات ہیں بشمول طلب میں عدم توازن اور شرح منافع میں گراوٹ کا رجحان“۔ قاری جانتے ہیں کہ میں معاشی بحران کی ایک وجہ کا قائل ہوں‘ اس لیے میرے خیال میں میرینی کے نظریات میں بحرانات کا نظریہ ہے ہی نہیں۔
میرینی والی نظریہ انحصاریت کی یہی واحد کمزوری نہیں ہے۔ اُس نے زور و شور سے ’ذیلی سامراجیت‘ (Sub-imperialism) کے تصورات کا پرچار کیا۔ جس کے مطابق زیر عتاب مضافاتی ممالک اور سامراجی مرکز کے بیچ میں ذیلی سامراجی ممالک بھی ہیں۔ کیٹس اپنی کتاب کے متعدد ابواب میں اس کیٹیگری کی اہمیت پر بحث کرتا ہے۔ جس کے خلاصے میں وہ کہتا ہے، ”یہ ہم عصر سرمایہ داری کی درجہ بندی کی ساخت کو سمجھنے میں مددگار ہے جس کے مطابق اوپر مرکزی طاقتیں اور نیچے مغلوب ممالک ہیں جبکہ ان دونوں کے درمیان ذیلی سامراجی طاقتیں ہیں جو علاقائی بالادستی حاصل کرنا چاہتے ہیں“۔
مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ذیلی سامراجیت کی اصطلاح ہم عصر سرمایہ داری کو سمجھنے میں معاون ہوگی۔ یہ مرکزی سامراجی بلاک اور مغلوب مضافاتی ممالک کی تقسیم کو کمزور کرتی ہے۔ اگر ہر ملک ”کسی حد تک سامراجی‘ ہو، اگر وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ منڈی، وسائل اور زمین کے لیے جنگ لڑتا ہے“، تو سامراجیت بطور کارآمد نظریہ‘ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ نام نہاد ذیلی سامراجی ممالک کی جانب کمزور معیشتوں سے بے تحاشا قدر اور وسائل کا کوئی مستقل بہاﺅ نہیں ہو رہا ۔ سامراجیت کے اوپر ہماری تحقیق سے قدر کی منتقلی کی یہ درجہ بندی ظاہر نہیں ہوئی۔ انڈیا، چین اور روس سامراجی بلاک کی طرف جنوبی امریکا سے زیادہ مقدار میں قدر منتقل کرتے ہیں۔
برکس (BRICS)ممالک‘ میرینی کے ’ذیلی سامراج‘ کے لیے بہترین مثال ہے۔ ایسا ثبوت موجود نہیں ہے کہ برکس ممالک کی طرف‘ کمزور یا ہمسایہ معیشتوں سے بڑی مقدار میں قدر (Value)مستقل بنیادوں پر منتقل ہورہا ہے۔ اُن کے پاس اس طرح کی منتقلی کے لیے وہ مالیاتی، ٹیکنالوجیکل اور عسکری برتری ہی نہیں ہے۔ کیا مضافاتی ممالک کے درمیان جنگوں (ایران عراق، آزربائیجان آرمینیا) کو کسی بھی معنی میں سامراجی جنگ کہا جاسکتا ہے؟ کیا ان جنگوں کو کمزور سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان معاشی اور سیاسی فوائد کے لیے جنگ قرار نہیں دیا جائے؟
کیٹس اس نکتے کی نشاندہی کرتا ہے کہ برازیل ذیلی سامراجی ملک نہیں ہے۔ یہ براعظم جنوبی امریکہ پر غالب ہونے والی ابھرتی ہوئی صنعتی طاقت نہیں بن پایا ۔ نوے کی دہائی میں ڈویلوپمنٹ اکنامکس کے مکتبہ فکر کی جانب سے پھیلائی گئی بات کہ اکیسویں صدی تک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ جلد ہی امیر ممالک کی فہرست میں شامل ہوں گے، سراب ثابت ہوئی ہے۔ یہ ممالک اب بھی دوڑ میں پیچھے ہیں اور مرکزی سامراجی ممالک اُن کا استحصال کرتے ہیں اور اُن پر غالب ہیں۔ سامراجی معیشتوں اور دیگر ممالک میں خلیج کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے۔ چین بھی ایسی ہی مغلوب ممالک میں شامل ہے جو سامراجی کلب کا حصہ نہیں بنے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے