بلوچ نوجوانوں کا ظلمتوں بھرے سیاسی افق پر اُبھاربمثل روشن ’ماہ رنگ‘

حسن جان

29اَکتوبر 2023ءکو بلوچستان کے شہر تربت سے دس منٹ کی مسافت پر واقع علاقہ‘ اَبسر میں ریاستی اہلکار دیوار پھلانگ کر ایک گھر میں گھُسے اور گھر کی تلاشی اور گھر کے افراد سے پوچھ گچھ شروع کی۔ جب وہ واپس جانے لگے تو بائیس سالہ نوجوان بالاچ بلوچ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ 21نومبر کو سی ٹی ڈی نے بالاچ کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر درج کی‘ اُسے علیحدگی پسند مسلح تنظیم کا رکن ظاہر کیا اور مقامی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے بالاچ کو دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔ لیکن اگلے ہی دن 22اور 23نومبر کی درمیانی شب ایک ’آپریشن‘ میں بالاچ اور تین دیگر بلوچ نوجوانوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور چاروں بلوچ نوجوانوں کی لاشیں مقامی ہسپتال منتقل کی گئیں جو حکومتی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران دہشت گردوں کی ہی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے خلاف تربت کے فدا شہید چوک پر ورثا نے میتیں رکھ کر دھرنا دیاجس میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں نے شرکت کی۔ میتوں کی تدفین کے بعد یہ دھرنا ایک لانگ مارچ کی شکل میں بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچا۔ اس دوران تمام شہروں میں لانگ مارچ کے شرکا کا ہزاروں افراد نے استقبال کیا اور ریاستی جبر، قومی جبر، جبری گمشدگیوں اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف نعرے بازی اور تقاریر ہوئیں۔ کوئٹہ پڑاﺅ کے بعد لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئی جو کوہلو سے ہوتا ہوا سخی سرور، ڈی جی خان، تونسہ، ڈی آئی خان اور پھر اسلام آباد پہنچاجہاں تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں شرکا نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے کا آغاز کیا جو 23جنوری تک جاری رہا۔ ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد دھرنے کے خاتمے کے ساتھ ہی 27جنوری کو کوئٹہ میں جلسے کا اعلان کیا۔ 27 جنوری کو کوئٹہ کے جلسے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

اس دوران بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں اسلام آباد میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ہونے والے دھرنے کی حمایت اور ریاستی جبر کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہو تی رہیں۔ جن میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ان بلوچ شہروں اور قصبوں میں ریاست نے بد نام زمانہ ”ڈیتھ اسکواڈز“ کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ یہ ڈیتھ اسکواڈز دراصل ایسے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل گروہ تھے جن کا کام علاقے میں ریڈیکل سیاسی سرگرمی کو سبوتاژ کرنا اور سیاسی ورکروں کو اغوا کرکے انہیں تشدد کے بعد قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا تھا۔ اندرون بلوچستان کے مختلف شہروں میں ہر وقت خوف اور دہشت کا راج تھا۔ غیر اعلانیہ کرفیو کا سماں ہوتا تھا۔ سیاسی اجتماعات کرنا دراصل موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا تھا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ لوگ فاتحہ خوانی کے دوران بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ مبادا غلطی سے کوئی سیاسی بات منہ سے نہ نکل جائے اور موقع پر موجود ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے گفتگو نہ سن لیں۔ حتیٰ کہ بارات لے جانے کے لیے بھی مقامی ایف سی کیمپ سے اجازت لینا پڑتی تھی۔

اکیسوی صدی کے ابتدائی سالوں میں ہی بلوچستان کی جدید تاریخ میں قومی جبر اور استحصال کے خلاف چوتھی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ماضی کی بلوچ مسلح سرکشیوں کی نسبت (جو زیادہ تر مخصوص قبیلوں تک ہی محدود ہوتے تھے) یہ مسلح جدوجہد بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل گئی جس میں زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان ہی پیش پیش تھے۔ اس مسلح سرکشی کو کچلنے کے لیے ریاست نے جہاں ایک طرف باقاعدہ فوجی آپریشنز شروع کیے تو دوسری طرف بلوچستان کے مختلف علاقوں کو اپنے زر خرید نوابوں اور جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا جو بعد میں ڈیتھ اسکواڈز کہلائے۔ مثلاً سراوان کے علاقے کو سراج رئیسانی کے حوالے کردیاگیا جبکہ جھالاوان کے علاقے کو بد نام زمانہ شفیق مینگل کے حوالے کردیا۔ اسی طرح دیگر علاقوں کو بھی اسی طریقے سے مختلف ریاستی کارندوں کے حوالے کیا گیا۔ ان کے اپنے ٹارچر سیلز ہیں جہاں اغوا اور غائب کیے گئے سیاسی ورکروں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2014ءمیں بلوچستان کے علاقے توتک میں ایک اجتماعی قبر سے دو سو کے قریب لاشیں ملی تھیں۔ مبینہ طور پر یہ لاشیں انہیں اغوا شدہ سیاسی ورکروں کے تھے جنہیں بدنام زمانہ شفیق مینگل کے ڈیتھ سکواڈ کے کارندے اپنے عقوبت خانوں میں اذیت دے دے قتل کرچکے تھے۔ اسی تحریک کی نظریاتی بیخ کنی کے لیے مذہبی انتہاپسندی کو خوب پروان چڑھایا گیا۔ بلوچ معاشرہ جو عمومی طور پر ایک سیکولر معاشرہ رہا ہے اُس میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کو فروغ دیا گیا۔ تبلیغی مراکز قائم کیے گئے اور مذہبی فرقہ وارانہ مسلح تنظیموں کو سماج پر مسلط کیا گیا۔ قومی احساس محرومی اور ریاستی جبر کے خلاف قومی آزادی اور ترقی پسند قومی تحریک کی دھار کو کند کرنے کے لیے مذہبی انتہاپسندی کے اوزار کو استعمال کیا گیا۔

تقریباً چار سال پہلے اسی تربت شہر کے گرد و نواح میں ڈیتھ سکواڈ ز کے ہاتھوں قتل ہونے والی خاتون ملک ناز اور اس کی بیٹی برمش کے زخمی ہونے کے واقعے کے خلاف پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ انہی مظاہروں کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جنم لیا جس میں رہنما کردار نوجوان بلوچ خواتین نے ادا کیا۔ بلوچستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ اس کے بعد بلوچ نوجوان خواتین کی تحریک میں شرکت مسلسل روز افزوں اور قائدانہ رہی ہے۔ یہ عمل بذات خود بلوچستان جیسے معاشرے میں ایک انتہائی ترقی پسندانہ فعل ہے۔ یہ دراصل شدید ریاستی جبر، قومی جبراور استحصال کے خلاف سیاسی بیداری کا آغاز تھا۔ سالوں بعد عوام نے ریاستی جبر کے خوف کو آہستہ آہستہ فتح کرنا شروع کیا۔

موجودہ تحریک بھی اُسی تحریک کا ہی ایک تسلسل ہے جو اب زیادہ بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ یقینا تحریک کے فوری مطالبات جبری گمشدہ افراد کی بازیابی، ڈیتھ سکواڈ اور سی ٹی ڈی کا خاتمہ ہے لیکن موجودہ سیاسی بیداری اور بلوچ خطے میں عوامی ابھار دراصل قومی جبر و استحصال کے خلاف اُس وسیع تر تحریک کا حصہ ہے جو پچھلی سات دہائیوں سے مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ لیکن ماضی کی تمام تر تحریکوں کی نسبتاس تحریک کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ نہ صرف اس نے پورے بلوچ سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ بلوچستان میں ہونے والی قومی جبر و استحصال کی داستان کو پورے پاکستان میں شنوائی ملی ہے۔ بلوچ قومی مسئلے کی بحث کو اتنی وسیع عوامی پذیرائی صرف ایک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ہی مل سکتی تھی۔بلوچستان کی اشرافیہ جن کی تاریخی ذمہ داری قومی شعور کی بڑھوتری اور قومی یکجہتی ہے وہ مالی بدعنوانی اور مراعات کے چکر میں قومی تحریک کے لیے عضو معطل بن چکی ہے۔ یہ اشرافیہ اپنی مخصوص معاشی بنیادوں کی وجہ سے ماضی کی کلاسیکل قومی تحریکوں کے برعکس قومی یکجہتی اور قومی شعور پیدا کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ماہ رنگ بلوچ نے اپنی 27جنوری کی تقریر میں درست طور پر اس بدعنوان اشرافیہ کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں نام نہاد قوم پرست قرار دیا جو صرف نوجوانوں کی جدوجہد اور ان کے خون کا سودا کرتے آئے ہیں۔ یہ انتہائی حوصلہ افزا اَمر ہے کہ آزاد مستقبل کی متلاشی بلوچ نوجوانوں کی سیاسی مزاحمتی تحریک نے بلوچ قومی یکجہتی اور شعور کو جنم دیا ہے جو اپنی اساس میں پھر طبقاتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ پچھلی دو دہائیوں سے بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد کے نتائج اور اثرات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ پارلیمانی پارٹیوں کی کارکردگی پچھلی دہائیوں میں انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ قومی جبر کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں اسمبلیوں میں پہنچ کر اسی نظام کا حصہ بنتے گئے جبکہ استحصال اور جبر میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ ایسے میں بلوچستان میںبے انتہا معاشی پسماندگی، شدید غربت اور استحصال کے ماحول میں بلوچ قومی مسئلے کا پرتشدد شکل اختیار کرجا نا ایک فطری امر ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے جدوجہد کرکے قومی جبر کو ختم کرنے کا راستہ قطعاً کوئی پرکشش راستہ نہیں رہتا۔ دوسری طرف مسلح جدوجہد کے جواب میں بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گیا ہے۔ جہاں پہلے اکا دکا پولیس کے تھانے ہوتے تھے اب قدم قدم پر فوج اور ایف سی کی چیک پوسٹیں ہیں۔ ڈیتھ سکواڈز کے کارندوں کا جبر اس کے علاوہ ہے۔ چند سال پہلے تک تو سیاسی سرگرمیاں اور اجتماعات ہی ختم ہو گئی تھیں۔ تمام تر مسلح کاروائیوں کے باوجود ریاستی رٹ بلوچستان میں کمزور ہونے کی بجائے مزید طاقتور اور جابر ہو گئی۔ عوامی مزاحمت اور بھرپور اجتماعی طاقت جو کسی بھی جابر ریاستی طاقت کو پچھاڑنے کے لیے ضروری ہوتی ہے وہ ریاست کی جانب سے مسلح سرکشی کو کچلنے کی آڑ میں کہیں گم ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ حقیقت بذات خود مسلح جدوجہد کی محدودیت کو واضح کرتی ہے جو آج کی مخصوص کیفیت میں کسی بھی صورت سیاسی جدوجہد و مزاحمت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا اور موجودہ تحریک کے ہر مرحلے پر بلوچ نوجوانوں نے مہم جوئی کے برعکس سیاسی مزاحمت کو فوقیت دے کر ماضی کے اسباق کی بنیاد پر عظیم شعوری پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں جاری قومی جبر کے خلاف اس تحریک کو فیصلہ کن کامیابی دیگر صوبوں میں ایک عوامی حمایت و مزاحمت کے ابھار اور بلوچستان کی تحریک سے جڑت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ بلوچستان کی مخصوص سماجی معاشی کیفیت میں اس دیو ہیکل جابر ریاستی مشینری کو شکست صرف بلوچستان سے نہیں دیا جاسکتا بلکہ کراچی ، فیصل آباد، گجرانوالہ ، لاہور ، سیالکوٹ اور دیگر بڑے شہروں کے محنت کشوں اور محکوموں کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ ولی خان کے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلہ کن جنگ پنجاب میں ہی لڑی جائے گی۔ لیکن اس جڑت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس بائیں بازو کی وسیع و مضبوط قوت کی ضرورت ہے وہ یا تو وجود نہیں رکھتی یا انتہائی کمزور ہے۔ زیادہ تر لیفٹ ’پاکستانی‘ بن چکے ہیں اور تحریکوں اور بالخصوص بلوچستان اور قومی مسئلے کے حوالے سے ان کا موقف انتہائی موضوعی اور ریاستی بیانیے پر مشتمل ہے۔ مثلاً بلوچستان میں موجود مسلح جدوجہد کے لیے ان لیفٹوں کا پسندیدہ لفظ ”انفرادی دہشت گردی“ ہے۔ خطے میں جاری پراکسی وار ، سامراج کی جانب سے شروع کی گئی نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ اور اُن کی دیکھا دیکھی میں پاکستانی حکمرانوں کی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں شرکت جیسی فضا میں ایک محکوم قوم کی مسلح جدوجہد کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنا ریاستی بیانیہ نہیں تو کیا ہے؟ مسلح تنظیموں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کاروائی پر یہ عطائی مارکسی تنظیمیں جس طرح سیخ پا ہوتی ہیں وہ کسی ریاستی حکومتی اہلکار کے رد عمل سے قطعاً مختلف نہیں ۔ حالانکہ محکوم کی جانب سے کی گئی تشدد اور ظالم و جابر ریاست کے تشدد میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ظالم و جابر اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے اور کسی قوم کو مزید تابع رکھنے کے لیے تشدد کرتی ہے جبکہ مظلوم کی جانب سے کی جانے والی تشدد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اگرچہ بلوچستان کی مخصوص صورت حال میں پچھلی دو دہائیوں سے جاری مسلح جدوجہد کے نتائج ہمارے سامنے ہے لیکن ظالم اور مظلوم دونوں کے تشدد کو یکساں قرار دینا دراصل ریاستی موقف کو تقویت دینا ہے۔ ایسی تنظیموں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے نام نہاد انقلابی فارمولوں کو میکانکی انداز میں محکوموں کی تحریکوں پر منطبق کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز وہ کبھی نہیں سوچتے کہ بلوچستان کا قومی مسئلہ دیگر قوموں کی نسبت اتنا پر تشدد کیوں ہے؟ اس کی مادی بنیادیں کیا ہیں؟ان تمام سوالات اور تحریک کی اپنی حرکیات کو چھوڑ کر مضحکہ خیز انداز میں تحریک سے ہی مطالبات شروع کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ریڈیکل بلوچ سیاسی ورکروں کا ان نام نہاد عالمی انقلاب کے داعی عطائی مارکسیوں کی طرف رویہ انتہائی نفرت انگیز ہے اور وہ ان عطائیوں کو بجا طور پر ریاستی دلال سمجھتے ہیں جو ان کی تحریکوں کو بگاڑنے کے لیے ان میں ”مداخلت“ کرتے ہیں۔

عوامی تحریکیں ہمیشہ کسی بھی سماج میں موجود بنیادی مسئلے یا تضاد کے گرد ہی ابھرتی ہیں۔ وہ کسی کی ذاتی خواہش یا کتابی فارمولے کی بنیاد پر نہیں ابھرتیں۔ ماضی کے انقلابات کی تاریخ اگرچہ آج کے عہد کی تحریکوں کے لیے ایک عمومی گائیڈ لائن ہوسکتی ہے لیکن اس تاریخ کو من و عن آج کے مختلف حالات میں منطبق کرکے اپنی مرضی کی تحریک کی توقع کرنا انتہائی جہالت ہے۔ پاکستانی لیفٹ کی سب سے بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر ریاست پاکستان کو ایک اکائی سمجھتے ہیںاور بڑے شہروں میں بیٹھ کر قومی جبر اور معاشی پسماندگی کے شکار بلوچستان میں بھی اسی طرز کی خالص طبقاتی تحریک کی توقع رکھتے ہیں جو صنعتی شہروں میں ابھرتی ہیں۔ طبقاتی سوال کو اس میکانکی انداز میں دیکھتے دیکھتے آج اس عطائی لیفٹ کی حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں ان کی خیالی ”تحریک“ تو نہ ابھر سکی لیکن بلوچستان کی موجودہ تحریک سے وہ کوسوں دور کھڑے ہیں اور صرف نمائشی انداز میں سوشل میڈیائی مضحکہ خیزیوں میں مصروف ہیں۔لہٰذا اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی مخصوص سماجی معاشی کیفیت اور پچھڑی ہوئی سرمایہ داری کی وجہ سے یہ ملک مختلف قومی و طبقاتی تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہاں بہ یک وقت پورے ملک میں کبھی بھی ایک ہی تضاد کے گرد تحریکیں نہیں ابھر سکتیں۔ حتیٰ کہ اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی سرکشی 1968-69ءکے دوران بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں وہ ہلچل نظر نہیں آئی جو پنجاب اور سندھ کے بڑے شہروں میں دیکھنے میں آئی تھی۔ مارکس وادیوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ہر سماج کے بنیادی تضاد ، یعنی وہ بنیادی مسئلہ جو تاریخی طور پر اس سماج کے محکوموں کو ریاست اور حکمرانوں کے ساتھ تضاد میں لاتی ہے، کا ادراک کرے۔ انقلاب کی تعریف ہی یہی ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب سماج میں موجود تمام بنیادی تضادات اپنے عروج پر پہنچتے ہیں۔ ان تمام تضادات کے گرد ابھرنے والی تحریکوں کو جوڑنا کمیونسٹ قیادت کا کام ہے جو انہیں مربوط کرکے حکمران ریاست پر فیصلہ کن کاری ضرب لگائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے