عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی اور مارکسی تناظر

تحریر : حسن جان
سرمایہ داری کے عالمی نامیاتی زوال کی وجہ سے نام نہاد عالمی لبرل ورلڈ آرڈر شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ امریکی اور یورپی سامراجیوں کی بالادستی کو نئی ابھرنے والی طاقتوں کی جانب سے ہر سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے۔دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی سربراہی میں مغربی بلاک اور چین کی سربراہی میں مشرقی بلاک کے درمیان مختلف سطحوں پر کشمکش جاری ہے۔ معاشی اور سیاسی برتری حاصل کرنے کی اس جنگ میں کمزور ممالک میں معاشی اور سیاسی انتشار دیکھنے میں آرہی ہے۔ امریکی سامراج کی طاقت کی واحد کنجی یعنی ڈالر کی بطور عالمی تجارتی کرنسی کی حیثیت کو پے در پے دھچکے لگ رہے ہیں۔ مشرقی بلاک کہلانے والے ممالک ڈالر کی بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ایشیا سے لے کر افریقہ اور لاطینی امریکہ تک ہر جگہ متحارب بلاکس کے درمیان ایک نئی ”سرد جنگ“ جاری ہے۔ دونوں بلاکس میں شامل ممالک قطعاً کسی انقلابی کردار کی حامل نہیں ہیں۔ لیکن بات یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہی سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب کی جدوجہد کرنے والوں نے ہمیشہ سامراجی طاقتوں کے درمیان چپقلش کو انقلاب کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔ بالشویک انقلاب 1917ءاور دیگر متعدد انقلابات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ اس لیے عالمی طاقتوں کی اس نئی صف بندی کو محض دو حکمران کیمپوں کی لڑائی قرار دے کر مسترد کرکے اس پورے مظہر سے پہلو تہی کرنا دراصل سامراج کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں انقلابیوں کا کام حکمرانوں کی مختلف لڑائیوں کا تجزیہ کرکے اس کے ذریعے انقلاب کا راستہ تلاشنا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کا اختتام اور بریٹن ووڈز معاہدہ
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر یورپ جنگ کی تباہ کاریوں سے خستہ حال تھا جبکہ اپنی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے جنگ میں شامل ہونے کے باوجود امریکہ اس جنگ سے محفوظ رہا۔ اس کے باوجود امریکہ میں جنگی قوانین لاگو رہے اور صنعتی پیداوار پورے زور و شور سے جاری رہا۔ دوسری طرف یورپی سامراجی طاقتیں بشمول برطانیہ، فرانس وغیرہ اس جنگ کے نتیجے میں معاشی طور پر منہدم ہوچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں قومی آزادی کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی تھیں۔ ان حالات میں انہیں اپنی نوآبادیات سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ایسے میں امریکہ اپنی مخصوص جغرافیائی اور معاشی برتری کی بنا پر نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرا۔ 1944ءمیں جنگ کے اختتامی ایام پر امریکی شہر بریٹن ووڈز میں 44ممالک کے مندوبین امریکی سربراہی میں جمع ہوئے اور ایک نئے عالمی مالیاتی معاہدے کو تشکیل دیا جسے بریٹن ووڈز معاہدہ کہتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی ڈالرکو ایک عالمی کرنسی کے طور پرقبول کیا گیاجسے تمام ممالک نے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا جبکہ امریکی ڈالر کو گولڈ اسٹینڈرڈ سے جوڑ دیا گیا جس کے تحت ایک اونس سونا پوری دنیا میں 35ڈالر کے بدلے تبدیل ہوسکتا تھا۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جن کا کام نئی لبرل ورلڈ آرڈر کی مالیاتی نگرانی کرنا تھا۔ سوویت یونین نے ان مذاکرات میں شرکت کے باوجود معاہدے کی توثیق سے انکار کیا اور مذکورہ اداروں کو بجا طور پر ”وال سٹریٹ کی شاخیں“ قرار دیا۔

امریکی سامراج کے لیے بریٹن ووڈز معاہدہ عالمی طاقت بننے کی بنیاد ثابت ہوئی کیونکہ اسی معاہدے کی وجہ سے ڈالر ایک عالمی کرنسی کے طور پر متعارف ہوئی اور تقریباً تمام تر عالمی تجارت امریکی ڈالر میں ہی ہونے لگی۔ چونکہ پوری دنیا میں ڈالر چھاپنے کا اختیار صرف امریکہ کے پاس ہے اس لیے تمام تر لین دین میں امریکہ کو ہی سبقت اور برتری حاصل تھی جو آج تک کسی نہ کسی سطح پر قائم ہے۔ تمام تر عالمی ادائیگیاں امریکی ڈالر میں ہی ہونے لگیں۔ اس کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ڈالر کے ذخائرکا حصول زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔ڈالر کے بغیر وہ اپنی ضرورت کی کوئی بھی چیز عالمی منڈی سے خرید نہیں سکتے۔ تیسری دنیا کے ممالک کورسمی آزادی کے باوجود اس معاہدے کے ذریعے ایک نئی طرز کی نوآبادیاتی غلامی میں جکڑ دیا گیا۔ یہ ممالک اپنی معیشت اور تجارت کے لیے مغربی سامراج اور ان کے عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بن گئے ہیں۔

لیکن 1971ءمیں امریکہ میں شدید افراطِ زر کی وجہ سے گولڈ سٹینڈرڈ کو ختم کرنا پڑا کیونکہ امریکہ کے پاس مارکیٹ میں موجود ڈالر کے مقابلے میں سونے کی مقدار کم پڑ گئی تھی۔ اس سے زیادہ سونا یورپی ممالک میں موجود تھا۔ امریکی ڈالر کی قیمت کی سونے کے ساتھ جڑت کو ختم کرکے فری ایکسچینج ریٹ یعنی کرنسی کی قیمت کی آزادنہ نقل و حرکت کو متعارف کروایا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بعد از جنگ ہونے والی تعمیر ِ نو کی بنیاد پر ہونے والی معاشی ابھار اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ عالمی شرح منافع گراوٹ کا شکار ہوگیااور معاشی بحران نے جنم لیا۔ بحران سے نکلنے کے لیے نیو لبرل آرڈر کو متعارف کروایا گیاجس میں معیشتوں میں ریاستی مداخلت کم کرتے ہوئے نجکاری، ڈی ریگولیشن اور لبرلائزیشن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی دوران 1973ءمیں امریکہ نے گولڈ سٹینڈرڈ کے خاتمے کے بعد ڈالر کی عالمی دھاک کو برقرار رکھنے اور اسے سہارا دینے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ پیٹرو ڈالر کا معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر سعودی عرب نے امریکہ کو تیل کی فروخت امریکی ڈالر میں کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بدلے امریکہ نے سعودی عرب کو عسکری امداد اور سیکیورٹی فراہم کرنے کا معاہدہ کیا۔ بعد میں دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک نے بھی سعودی طرز پر ڈالر میں تیل فراہم کرنا شروع کیا۔

ڈالر بطور عالمی کرنسی
امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت کی وجہ سے امریکی معیشت کو متعدد مراعات ملی ہیں جو دنیا کی کسی بھی قومی معیشت کو حاصل نہیں ہے۔ امریکہ بے تحاشا قرضے لے سکتا ہے۔ بے تحاشا تجارتی اور بجٹ خسارے کو برداشت کرسکتا ہے۔ اس وقت بھی امریکی قرضے اس کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے لیکن ڈالر کی عالمی کرنسی ہونے کی وجہ سے فوری طور پر امریکہ اس کے مضر اثرات سے محفوظ ہے۔ امریکہ ڈالر چھاپ کر ان معاملات کو سنبھال رہا ہے۔ امریکہ کی اس مراعات یافتہ حیثیت کو ڈاکٹر گال لفت اس مثال کے ذریعے واضح کرتا ہے کہ اگر امریکہ اور روس کو دو سو ڈالر کمانے ہوں تو روس اپنے ملک کے تیل سے مالامال علاقے سائبیریا میں جا کر چند لیٹر تیل نکالے گا اور اسے مارکیٹ میں بیچ کر دو سو ڈالر کمائے گا۔ اس کے برعکس امریکہ کو کسی پیداواری عمل کو انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ صرف پرنٹنگ مشین کے ذریعے دو سو ڈالر کے دو نوٹ چھاپے گا۔ لیکن یہ عمل اس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ڈالر کی عالمی بالادستی قائم ہے۔
اس کے علاوہ تجارت اور عالمی لین دین میں ڈالر کی مخصوص حیثیت نے امریکی سامراج کو نیو لبرل آرڈر کی مخالف تمام چھوٹی بڑی طاقتوں اور کمزور ممالک کو کچلنے کے لیے ایک خاص طاقت (عسکری جارحیت کے آپشن کے علاوہ) دی ہے۔عالمی مالیاتی نظام پر امریکی بالادستی ہی فیصلہ کن ہے جس کی بنا پر وہ ’ناپسندیدہ‘ ممالک پر یکطرفہ اقتصادی پابندیاں لگا کر ان کی معیشتوں کو تباہ کرتا ہے۔ تیسری دنیا کے تمام تر ممالک کی معاشی سرگرمیوں کا مقصد امریکی ڈالر کے ذخائر کا حصول ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر ملکی معیشت کی ضرورت کی تمام اہم چیزیں اور مصنوعات عالمی منڈی سے خریدی جاسکتی ہیں۔ زرمبادلہ یا ڈالر کی اسی کمی کی وجہ سے یہ ممالک بریٹن ووڈز کے بنائے گئے سامراجی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو امریکی ڈالر کے بدلے ان ممالک پر نیولبرل پالیسیاں لاگوکروا کر پھر ان ممالک سےگلوبل نارتھ کے سامراجی ممالک کی جانب دولت کے بہاﺅ کو ممکن بناتے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر تجارتی ادائیگیوں کا سب سے بڑا نظام S.W.I.F.T (سوسائٹی فار ورلڈ وائڈانٹر بینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشنس)ہے۔ اس کے ذریعے دنیا بھر کے گیارہ ہزار سے زائد بینک اور دیگر مالیاتی ادارے آپس میں مالیاتی لین دین کرتے ہیں۔اس ادارے سے باہر ہونے کا مطلب عالمی تجارت سے کٹ جانا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک یورپی ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر بیلجیم میں ہے لیکن امریکہ کی اس میں گہری مداخلت ہے اور اسے اس ادارے کی تمام ریکارڈز تک رسائی بھی حاصل ہے۔ امریکہ نے متعدد بار مختلف ممالک کو سزا دینے کے لیے اس ادارے سے نکال باہر کیا ہے۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے تنازعے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی مداخلت کو بہانہ بنا کر امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اسے Swiftکے نظام سے کاٹ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایران دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ انلائن مالیاتی لین دین نہیں کرسکتا اور مجبوراً اسے غیر روایتی طریقے استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح یوکرائن جنگ کے بعد روس اور بیلاروس کو بھی اس ادارے سے فارغ کر دیا گیا۔

امریکی سامراج کا زوال اور ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ
اگرچہ سوویت یونین کے انہدام پر سرمایہ دارانہ دنیا نے خوب جشن منایا‘ اسے سرمایہ داری کی جیت اور کمیونزم کی شکست سے تعبیر کیا اور ان کے دانشوروں نے تاریخ کے خاتمے کا بھی اعلان کردیا۔ لیکن اُسی وقت مارکسی اُستاد ڈاکٹر لال خان نے اپنے مضمون ”موت کسی کی، ماتم کسی کا“ میں واضح کیا کہ سوویت یونین کا انہدام سرمایہ داری کی جیت نہیں بلکہ سٹالن ازم کی شکست ہے اور سرمایہ دارانہ دنیا کی یہ جشن زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ بعد میں ہونے والے واقعات بالخصوص ایشیائی سٹاک مارکیٹوں میں ہونے والے کریش نے امریکی سامراج کی پر سکون یک قطبی دنیا کے خواب کو چکنا چور کردیا۔ دراصل نوے کی دہائی سرمایہ داری کے ابھار کا دور نہیں بلکہ عمومی زوال کا دور تھا جو اب مزید گہرا ہوچکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری اپنی زوال پذیری اور شرح منافع میں گراوٹ کو روکنے کے لیے نیو لبرل معاشیات(جو دراصل سرمایہ داری کی کلاسیکی شکل ہے) کو پورے زورو شور سے پوری دنیا پر لاگو کر رہا تھا۔ سرمایہ دارانہ مراکز میں ماضی کی فلاحی ریاستوں کو ختم کرتے ہوئے ننگی معاشی جارحیت کو متعارف کروایا گیا۔ سستی محنت اور زیادہ منافعوں کے لیے صنعتوں کو تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص ایشیائی ملکوں انڈیا، بنگلادیش، ویتنام، چین وغیرہ میں منتقل کیا گیا۔ اس عمل نے نئے تضادات کو جنم دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکی سامراج اپنی خیالی عالمی طاقت کے زعم میں اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے افغانستان پر چڑھ دوڑا اور اس کے دو سال بعد عراق پر چڑھائی کردی لیکن دونوں ملکوں میں امریکی سامراج کو شرمناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان عسکری ہزیمتوں نے امریکہ کی بطور عالمی طاقت زوال پذیری کے عمل کی تصدیق بھی کردی۔ دوسری طرف روس نے ، امریکہ کی اس زوال پذیری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ماضی کے حلقہ ہائے اثر پر دوبارہ حق جتانے کے لیے عسکری زور آزمائی شروع کردی جس کا اظہار جارجیا اور بعد میں شام میں عسکری مداخلت کی صورت میں نظر آیا۔

اس زوال پذیری کے ساتھ ساتھ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ بریٹن ووڈز معاہدے کی رو ُ سے ڈالر کو گولڈ سٹینڈرڈ سے جوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن 1971ءمیں صدر رچرڈ نکسن کی جانب سے گولڈ سٹینڈرد کے خاتمے کے بعد دیگر تمام کرنسیوں کی مانندڈالر بھی ریاستی اعتماد پر ہی منحصر تھی۔ ڈالر کے پیچھے اب سونے کی بجائے امریکی ریاست کی طاقت تھی۔ لیکن عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی زوال ، جو کارل مارکس کے مطابق اپنا اظہار شرح منافع میں زوال کے رجحان کے قانون کی صورت میں کرتا ہے، نے امریکی ریاست کی عالمی دھاک کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ریاستی زوال نے ڈالر کی بطور عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی اپنی رپورٹ کے مطابق 2001ءمیں پوری دنیا کی مرکزی بینکوں کی فارن ریزرو کرنسی کا 70فیصدامریکی ڈالر پر مشتمل تھا جو دسمبر 2022ءمیں گر کر 58فیصد ہو گیا ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مغربی ممالک یا سرمایہ دارانہ مرکز کے ممالک میں نسبتاًبلند معیار زندگی دراصل دو صدیوں سے گلوبل ساﺅتھ کی وسائل کی سامراجی لوٹ مار کی بنیاد پر ہی ممکن ہوئی ہے۔ اس بات کو سابق فرانسیسی صدر ژاک شیراک نے فرانس کی افریقی کالونیوں کے بارے میں کہا کہ افریقہ کے بغیر فرانس تیسری دنیا کا ملک بن جائے گا۔ یہ بات امریکہ سمیت تمام طاقتور مغربی سامراجی ممالک کے بارے میںبھی درست ہے۔ درج بالا وجوہات کی بنا پر اگر امریکی ڈالر بطور عالمی کرنسی مزید گراوٹ کا شکار ہوتی ہے اور اس کی جگہ مختلف ممالک واحد کرنسی کی بجائے اپنی ہی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دیتے ہیں تو اس سے امریکی معیشت جو ڈالر کی عالمی حیثیت کی وجہ سے اپنی اصل حجم سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہ دھڑام سے منہدم ہوسکتی ہے۔ یہ عمل خود امریکہ کے اندر بڑے معاشی انہدام کو جنم دے سکتا ہے جو گہری سماجی تبدیلیوں اور تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس کے براہ راست اثرات یورپی سامراجی ممالک پر بھی پڑیں گے۔ اگر چین اور امریکہ کے درمیان معاشی اور تجارتی میدان میں لڑائی مزید شدت اختیار کرتی ہے تو چین کی جانب سے اس کے پاس موجود ایک کھرب ڈالر کے قریب موجود امریکی بانڈز کو مارکیٹ میں بیچنے کا اعلان ہی دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچا کر ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس سے عالمی سطح پر ڈالر پر اعتماد کو شدید دھچکا لگے گا۔

ڈالر کی بطور عالمی کرنسی کے تضادات
اگرچہ ڈالر کی بطور عالمی کرنسی حیثیت نے امریکہ کو مراعات یافتہ مقام دیا ہے۔ پوری دنیا امریکی مرکزی بینک کی پالیسیوں بالخصوص شرح سود کے اعلانات کی انہماک سے پیروی کرتے ہیں۔ امریکہ ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھاﺅ کو اپنے تجارتی فوائد کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت دیگر ممالک کی معیشتوں کے لیے مثبت یا منفی مضمرات کی حامل ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک کے زیادہ تر قرضے امریکی ڈالر میں ہوتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں ابھار سے ان ممالک کے قرضے اسی حساب سے بڑھتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت نے امریکی معیشت کے لیے خطرناک تضادات کوبھی جنم دیا ہے جو ڈالر کی عالمی حیثیت کے خاتمے سے پھٹ کر پوری امریکی معیشت کو ڈبو سکتاہے۔ ڈالر کی بے لگام چھپائی،امریکی قرضے، بجٹ اور تجارتی خسارے کی ہوشربا قیمت کے واضح اثرات سے امریکی معیشت اُس وقت تک ’محفوظ‘ ہے جب تک ڈالر عالمی کرنسی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کو مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ ملک بے لگام ہو کر صرف اپنی کرنسی چھاپنا شروع کردے تو اس کرنسی کی قدر کہاں پہنچے گی اور معیشت کی کیا حالت ہوگی۔ پچھلے عرصے ونیزویلا کی معیشت اسی کیفیت سے گزری تھی جہاں کرنسی نوٹوں کی بے تحاشا چھپائی سے نوٹ اتنے بے قدر ہوگئے تھے کہ لوگوں نے ان کرنسی نوٹوں سے کھلونے بنانا شروع کردیا تھا۔ یہی کیفیت ڈالر کی بھی بن سکتی تھی اگر وہ عالمی ریزرو کرنسی نہ ہوتا۔ ڈاکٹر گال لفت نے اس تضاد کو اس مثال سے واضح کیا ہے کہ اگر کسی کمرے میں ایک آئینہ اور ایک کتاب ہو تو اُس کتاب کی آئینے میں صرف ایک تصویر بنے گی لیکن اگر پورے کمرے میں ہر طرف آئینے لگا دیئے جائیں تو اُسی ایک کتاب کی لاتعداد تصویریں بنیں گی حالانکہ اصل چیز صرف ایک ہے۔ یہی حال امریکی ڈالر کا ہے۔

برکس (BRICS) ، مشرقی بلاک اور مغربی بلاک میں پھوٹ
جس طرح سلطنت روم کے زوال کے وقت سلطنت کے مختلف حصوں میں علاقائی سطح پر مختلف چھوٹی چھوٹی طاقتیں ابھر رہی تھیں، یہی حال آج امریکی سامراج اور اس کے نیو لبرل ورلڈ آرڈر کی ہے۔ برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کی قیادت میں بننے والی معاشی بلاک دراصل امریکی قیادت میں قائم نیو لبرل آرڈر کی شکست و ریخت کی غمازی کرتی ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر سمیت متعدد ممالک جنوری 2024ءسے برکس کے ممبر بن جائیں گے۔ اگرچہ یہ بلاک مغربی نیولبرل معاشیات کی حامل ممالک کی مانند کسی واضح اور مربوط معاشی لائحہ عمل کی حامل نہیں ہے اور زیادہ تر مغربی انتقامی کاروائیوں کی شکار ممالک پر مشتمل ڈھیلا ڈھالا سا گروپ ہے۔ لیکن اس کے باوجود حالیہ عرصے میں اِن ممالک میں باہمی تجارت کو ڈالر کی بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں کرنے کے معاہدے امریکی بالادستی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مغربی بلاک دراصل سرمایہ داری کے سب سے ترقی یافتہ یا مرکزی (Core)ملکوں پر مشتمل ٹولہ ہے جو پوری دنیا پر نیولبرل معاشیات اور اس کے نسخوں کو بزور طاقت لاگو کر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر پوری دنیا کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ نئی ابھرنے والی مشرقی بلاک اس مغربی معاشی نظم و نسق میں اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ پہلے ہی یہ ممالک امریکہ کی جانب سے یک طرفہ مختلف معاشی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں ان طاقتوں کے درمیان ایک سرد جنگ بھی چل رہی ہے۔مثلاً جب 2013ءمیں یوکرائنی صدر وکٹر یانوکووچ یورپی یونین اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاشی بحالی کے پیکج کے لیے مذاکرات کر رہا تھا تو یوکرائن نے 20اَرب یورو کی فراہمی کی درخواست کی تھی جبکہ یورپی یونین محض 610ملین یورو دینے پر رضا مند ہوا اور ساتھ ہی یوکرائن میں معاشی لبرلائزیشن اور سٹرکچرل تبدیلیوں کا بھی مطالبہ کیا۔ نومبر 2013ءمیں جب یہ مذاکرات فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے والی تھی تو روس نے یوکرائن کو 15اَرب ڈالر کے پیکج کی پیشکش کی اور بدلے میں کسی بھی معاشی سٹرکچرل تبدیلیوں کا مطالبہ نہیں کیا۔ یوکرائن نے روسی پیشکش کو قبول کیا اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات ختم کردیئے۔ بعد میں ہونے والے واقعات ایک الگ بحث کی متقاضی ہے لیکن روسی پیشکش ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتی ہے کہ نئی ابھرنے والی مشرقی بلاک میں نیولبرل معاشیات کے خلاف رجحانات، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور ایک طرح کی ریاستی سرمایہ داری پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح افریقہ میں دونوں بلاکوں کی چپقلش ہمیں معاشی اور عسکری میدانوں میں واضح نظر آرہا ہے۔ حالیہ عرصے میں افریقی ممالک میں چین کی سرمایہ کاری میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپی طاقتیں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے داعش، بوکوحرام اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ حال ہی میں افریقی خطے ساہل میں سابق فرانسیسی کالونیوں میں ہونے والی فوجی بغاوتیں اہم مضمرات کی حامل واقعات ہیں۔ ان ممالک میں روسی نجی فوج واگنر کی مداخلت بھی سامنے آئی ہے۔ یوکرائن جنگ نے عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں آنے والی نئی تبدیلیوں کو بھی آشکار کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرائن جنگ کے ایک سال پورے ہونے پر اس سال فروری میںجنگ کے خلاف ہونے والی ووٹنگ میں 28ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ روس سمیت سات ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی اور 141ممالک نے قرارداد کی حمایت کی۔ ووٹنگ میں حصہ نہ ہونے والے (Abstention) ممالک کی اکثریت کا تعلق براعظم افریقہ سے تھا جبکہ انڈیا، پاکستان، ایران اور چین نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ خود نام نہاد مغربی بلاک میں پھوٹ واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔ حال ہی میں بھارت میں ہونے والی جی 20کے اجلاس کے آخر میں جاری ہونے والے اعلامیے نے اس پھوٹ کو مزید واضح کیا۔ دراصل امریکہ جی 20اعلامیے کے ذریعے روس سمیت مشرقی بلاک کے دیگر ممالک کو ایک پرزور پیغام دینا چاہتا تھا کہ بڑی سرمایہ دارانہ طاقتیں یوکرائن کے معاملے میں متحد ہیں۔ نیٹو کے گماشتہ یوکرائنی صدر زیلینسکی کو اجلاس سے بھرپور حمایت اور روس کی مذمت کی توقع تھی۔ شاید امریکی صدر کی بذات خود شرکت اس کوشش کو شرمندہ تعبیر کرنا تھا لیکن میزبان ملک بھارت کی مداخلت سے اجلاس کے آخر میں ایک بے ضرر سا اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں روس کی مذمت اور یوکرائن کی حمایت کا ذکر بھی نہیں تھا۔ بعد میں کینیڈا میں مقیم خالصتان تحریک کے رہنماﺅں کے قتل کے مسئلے پر کینیڈا کا بھارت پر الزام لگانا اور امریکہ کی جانب سے بھارت کے خلاف بیانات دراصل جی 20اجلاس میں بھارت کے کردار کے خلاف مغربی طاقتوں کا ردعمل تھا۔ بھارت کے خلاف کسی ممکنہ سفارتی کاروائی سے قطع نظر، یہ پورا عمل امریکہ اور یورپی طاقتوں کے درمیان پھوٹ کی غمازی کرتا ہے۔

امکانات
مغربی یا نیو لبرل معاشیات کی حامل بلاک کے خلاف نومولود مشرقی بلاک یقینا انقلابی خصوصیات سے عاری ہے اور ان سے کسی انقلابی تبدیلی کی توقع رکھنا بلاشبہ ایک حماقت ہے لیکن نئے مظہر کو محض عالمی طاقتوں کی لوٹ مار کی لڑائی قرار دینا اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلسل قرار دے کر اس پورے عمل سے صرف ِ نظر کرنا میکانکی مارکسزم کی بدترین مثال ہے۔ عالمی قوتوں کے درمیان طاقتوں کے توازن کو سمجھے بغیر انقلاب کی جگالی کرنے والے ”اانقلابی“ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ان طاقتوں کے درمیان کشمکش کو سمجھ کر انہیں انقلاب کے حق میں استعمال کرنا، یہی انقلابیوں کا مقصد ہونا چاہیے۔ لینن نے ایک بار کہا تھا، ” ’خالص‘انقلاب کی توقع رکھنے والا شخص اپنی زندگی میں کبھی بھی انقلاب نہیں دیکھ پائے گا۔ ایسا شخص صرف انقلاب کی باتیں کرتا ہے جبکہ اسے انقلاب کی سمجھ ہی نہیں“۔ 1917ءمیں جب فروری انقلاب برپا ہوچکا تھا اور زار شاہی کی مطلق العنانیت کی جگہ عبوری حکومت قائم ہوچکی تھی تو اُس وقت بالشویکوں کی مرکزی قیادت بشمول لینن زیورخ میں جلاوطن تھے۔ پہلی عالمی جنگ چل رہی تھی۔ ایسے میں لینن اور مرکزی قیادت کی روس میں موجودگی لازمی ہوچکی تھی۔ جرمن جنرل سٹاف نے لینن کو جرمنی سے گزر کر روس جانے کی اجازت دے دی کیونکہ جرمنی کا یہ خیال تھا کہ لینن کے روس پہنچنے پر عبوری حکومت پر بالشویکوں کا دباﺅ بڑھ جائے گا جس سے روس کو جنگ میں پس قدمی کرنی پڑے گی اور اس کیفیت سے جرمنی کو جنگ میں کامیابی مل سکتی تھی۔ دوسری طرف لینن اس موقع کو روس میں انقلابی قوتوں کو منظم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ گویا دو طاقتوں کی باہمی لڑائی سے انقلاب کے لیے راستہ نکالا۔ لینن روس پہنچ گیا اور بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ لینن کا بڑی طاقتوں کی باہمی لڑائی کی پرکھ اور ان کی چپقلش کو انقلاب کے حق میں استعمال کرتے ہوئے روس واپس آنے کا فیصلہ درست تھا۔ اگرچہ بعد میں بعض حلقوں کی جانب سے لینن کو جرمن ایجنٹ بھی قرار دیا گیا اور پوری بالشویک انقلاب کو ایک سازش سے تعبیر کیا گیا۔
آج کے حالات ماضی کی سرد جنگ کے حالات سے یکسر مختلف ہیں۔ اُس وقت دنیا دو نظریاتی بلاکوں میں تقسیم تھی جس میں ایک طرف مسخ شدہ مزدور ریاستیں تھیں جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک ترقی پسند انسانی سماج کی نمائندگی کرتی تھیں اور دوسری طرف امریکی سامراج کی قیادت میں سرمایہ دارانہ لوٹ مار کی بنیاد پر منافع خوری کا بلاک۔ امریکی سامراج نے پوری دنیا کو کمیونزم کا خوف دلا کر اپنے ساتھ یکجا کیا ہوا تھا۔ جہاں کہیں بھی فوجی بغاوت یا الیکشن کے ذریعے بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہوتیں تو امریکی سامراج اور سی آئی اے کی ان ملکوں میں ریشہ دوانیاں شروع ہوتی۔ کہیں براہ راست فوجی مداخلت اور کہیں سی آئی اے کی خفیہ آپریشنز کے ذریعے ان حکومتوں کو فوجی بغاوتوں کے ذریعے گرادیا جاتا۔ افغانستان کے ثور انقلاب کو سی آئی اے کے ڈالری جہادیوں کے ذریعے خون میں نہلایا گیا۔ چلی کے انقلاب کو فوجی بغاوت کے ذریعے کچلا گیا۔ کیوبا کے انقلاب کو ہر ممکنہ واردات کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی اور آج تک وہ بد ترین اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔

بیسویں صدی امریکی سامراج اور مغربی لبرل عالمی نظم و نسق کے زوال کا عہد ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کی شرمناک شکستوں کے بعد امریکی حکمرانوں کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ اب وہ ماضی کی مانند براہ راست فوجی مداخلتیں کرنے کے قابل نہیں ہے۔ نئی ابھرتی طاقتوں اور مشرقی بلاک کی موجودگی میں امریکی سامراج کی مہم جوئی اُس کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ ان حالات میں اگر پاکستان میں انقلابی تحریک کے نتیجے میں مزدور ریاست تشکیل پاتی ہے تو مشرقی بلاک میں اس کی موجودگی اس انقلابی حکومت پر امریکی سامراج کی جارحیت کے خلاف ایک حفاظتی غلاف کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک سرمایہ داری کے مرکزی (Core) ممالک میں انقلابات برپا نہیں ہوتے اس وقت تک سرمایہ داری کو فیصلہ کن کاری ضرب نہیں لگ سکتی۔ مشرقی بلاک کے ممالک فی الحال عالمی سطح پر مخصوص کیفیات کی وجہ سے عدم مداخلت کی بات کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں نیو لبرل عالمگیریت اور اس کے عالمی اداروں کے خلاف ہیں یا آسان الفاظ میں یہ ممالک نیو لبرل آرڈر کی حدود میں رہتے ہوئے کبھی بھی ترقی یافتہ ممالک کی مانند معاشی طاقت حاصل نہیں کرسکتے، اس لیے اگر انقلابی حکومت انقلاب کی حفاظت کے لیے اس بلاک کا حصہ بنتا ہے تو اس سامراجی جارحیت سے بچ سکتا ہے جس کا شکار بالشویک انقلاب 1917ءکو ہونا پڑا تھا جب 21سامراجی ممالک نے انقلاب کو کچلنے کے لیے سوویت یونین پر حملہ کیا تھا۔ اس لیے مشرقی بلاک کی نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کومیکانکی انداز میں سرمایہ داری کے مرکزی ممالک کے ساتھ برابر کھڑا کرنا اور انہیں مغربی ممالک کی تاریخی سامراجی کردار کی مانند قرار دینا دراصل امریکی سامراج اور مغربی طاقتوں کی ان ممالک کے خلاف پروپیگنڈے کو فروغ دینا ہے جس میں وہ منافقانہ انداز میں گھسی پٹی بورژوا جمہوریت اور انسانی حقوق کی جگالی کرکے ان ممالک کو ڈکٹیٹر اورجمہوریت مخالف طاقتیں گردانتے ہیں۔ بہت سی بائیں بازو کی قوتیں مشرقی بلاک کے ممالک بالخصوص چین اور روس کا تجزیہ امریکی سامراج کی جمہوریت اور آمریت کے عینک سے کرتے ہیں جس میں یہ دونوں ممالک صرف ڈکٹیٹر نظر آتے ہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو بائیں بازو کے روپ میں دراصل امریکی سی آئی اے اورمغربی سامراج کے تنخواہ دار ہیں اور انہیں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ یہی وہ کالی بھیڑیں ہیں جنہوں نے مغربی پروپیگنڈے کی بنیاد پر یوکرائن جنگ کو روس کی توسیع پسندی اور یوکرائن کی قومی دفاعی جنگ قرار دیا، روس کو تمام تر مسئلے کی جڑقرار دے کر مشرقی یورپ میں نیٹو اور سی آئی اے کی ریشہ دوانیوں سے صرف نظر کیا۔ انقلابیوں کا یہ فریضہ ہے کہ انقلاب کو ریاضی کے مجرد فارمولوں کی بنیاد پر نہ دیکھیں بلکہ زندہ انسانی سماج کی حرکیات کو سمجھ کر انقلابی لائحہ عمل طے کریں۔ ہر مثبت پیش رفت، چاہے وہ کتنی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، کو انقلاب کے حق میں استعمال کریں۔ یہی بالشویزم کا سبق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے