9 مئی کی بساط

اداریہ طبقاتی جدوجہد

طبقاتی سماج میں سماجی و سیاسی واقعات کی فطرت بھی طبقاتی ہی ہوتی ہے‘ کسی ایک نوعیت کا واقعہ اگر حکمران طبقے کو طاقت بخشتا یا کمزور کرتا ہے تو دوسرا کوئی واقعہ محنت کشوں کے اکٹھ‘ تحرک یا ان کے انتشار کا باعث بن جاتا ہے۔ پھر ایک متحرک اور پاکستان جیسے شدید منقسم سماج و ہمہ جہت بحرانوں کے غیر معمولی حالات میں گھرے ریاست میں برپا ہونے والے مختلف واقعات طبقات کی زندگیوں اور ان کے سماجی شعور پر نہایت گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہی واقعات در واقعات ہی محنت کشوں کو کسی خستہ حال معاشی نظام کے مکمل استرداد کے ادراک کا سبق سکھاتے ہیں اور یہی مسلسل سماجی عمل متوازی سطح پر ان کے تنظیمی و روایتی سیاسی قیادت کو ظالم حکمرانوں کی صف میں ایستادہ دکھاتی ہے جس سے طبقے کے شعور میں اپنے طبقے ہی سے قیادت تراشنے کی ضرورت کا احساس اجاگر ہوتا ہے اور جب طبقے کے ساتھ اس کا نظریاتی ہراول دستہ جڑت اور یگانگت میں نہیں ہوتا‘ جب وہ ہراول دستہ مزدور انقلابی نظریات مارکسزم کے ذریعے طبقے کو تعلیم و تربیت سے مسلح اور منظم نہیں کرتا اداروں کے اندر چھوٹی چھوٹی معاشی لڑائیوں، ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت سے لے کر سیاسی جنگ کے بڑے میدان تک راہنمائی نہیں کرتا تو بقول لینن طبقہ اپنی طبقاتی جنگ کو خودرو طریقے سے اپنے تئیں بڑے پیمانے پر منظم کرکے کامیاب انجام تک کبھی نہیں پہنچا سکتا۔

واقعات اور سانحات کی یہی تاریخی صورتحال مملکت خداداد کی ہے کہ جہاں عظیم عوامی سانحات نے گاہے بگاہے حکمرانوں اور سرمایہ دار ریاست کو کبھی قدرے مضبوط کیا ہے تو کبھی واقعات نے اس کی چولیں ہلا ڈالی ہیں۔ جابر سرمایہ دار ریاست کے میڈیا کے تمام شعبوں پر کنٹرول کے ذریعے پسماندہ حکمران نہ صرف اپنی گھٹیا ، مصنوعی اور رجعتی ثقافتی بالادستی قائم رکھتی ہے بلکہ اپنے گماشتہ مڈل کلاس کی جانب سے حکمران طبقات کی غلیظ اور اندھی تابعداری کے توسط سے محنت کشوں اور عوام کے حق میں برپا ہونے والے سیاسی واقعات کوبھی قومی شاونزم اور ریاستی طاقت میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سانحہ بابڑہ اور نواب نوروز خان کے واقعے سے لے کر ساٹھ کی دہائی کی انقلابی تحریک تک، ضیاءجبر میں کالونی ٹیکسٹائل مل میں ریاستی قتل عام سے ٹیپل ڈیرہ کی کسان موومنٹ کو کچلنے کے ظلم تک ، ایم آر ڈی کی 80 کی دہائی میں آمریت کے خلاف تحریک کو گن شپ ہیلی کاپٹرز اور مسلح دستوں کے ذریعے کچلنے، شہید بےنظیر کے قتل پر ابھرنے والے انقلاب کو ذائل کرنے سے 12 مئی کے جرنیلی حکم پر ریاستی غنڈوں کے ذریعے سیاسی کیڈرز کے قتل عام تک، پورے کیلینڈر میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ جو عوام اور محنت کشوں پر ریاستی جبر اور ظلم کی داستانوں سے خالی ہو۔ لیکن یہاں سانحہ صرف وہی ہے جس سے حکمران طبقے اور سرمایہ دار ریاست کو گزند پہنچے۔ 9 مئی بھی ایک ایسا واقعہ تھا جس میں زور آزمائی کی ایک بڑی بساط بچھائی گئی تھی جس پر کھل کر کھیل کھیلا نہ جاسکا۔

سماج کی عمومی حرکیات اور اس کے قوانین سے ماورا بڑے پیمانے پر واقعات اور سچائی کو کوئی بھی طاقت اپنی مرضی سے نہ تو مستقل طور پر مسخ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی میڈیا کے کنٹرول اور رائے عامہ بنانے سے معروض کو ہمہ وقت اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ریاست کے جنم سے عموماً اور گزشتہ چار دہائیوں سے خصوصاً، ریاستی طاقت کے ذریعے معیشت، سیاست اور سماج کے عمومی ارتقائی پراسس کو ملک کی نام نہاد نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی بھینٹ چڑھایا گیا، رجعتیت کو شعوری طور پر سماج اور سیاست پر مسلط کرکے تزویراتی گہرائی کی پالیسی کی ترویج کا ساماں فراہم کیا گیا‘ غیر ریاستی مسلح طاقت کے جتھے تخلیق کیے گئے‘ ان مسلح جتھوں کی تخریبی فعالیت کے لیے منشیات کی پیداوار اور تجارت پر مبنی کالے دھن کی متبادل معیشت کھڑی کرکے ریاست کے اندر ایک انتہائی رجعتی ریاست تخلیق کی گئی اور اس انتہاپسند نیٹ ورک کو مذہبی تنظیموں اور پارٹیوں کے ذریعے پہلے علیحدہ علیحدہ اور پھر ان کے اتحاد کے ذریعے سیاسی شکل دینے کی کئی ناکام و نامراد کوششیں ہوئیں۔ بالآخر ریاست کو عمران خان کی شکل میں عوامی شہرت رکھنے والا معروف کھلاڑی دستیاب ہوا۔ عمران ایک ایسا مظہر تھا جو پاکستانی مڈل کلاس کے عین مطابق اپنے کردار اور وضع قطع میں بے ہودہ مغربی لبرلزم سے متاثر اور خیالات کی حدتک ماضی کے گناہوں کے بوجھ تلے کٹر مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔ وہ خود بھی مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت سے نو دولتیا بن کے ابھرا تھا اور اس کے پیروکار بھی تمام طبقوں کی ہر پرت سے معاشی اعتبار سے سماجی عمودی عروج پانے والوں پر مشتمل تھے یعنی اپنی فطرت اور مزاج کے اعتبار سے یہ ہر طبقے میں نئے وارد ہونے والوں کا انبوہ تھا جسے محلے سے لے کر مرکزی حکومتی سطح تک قیادت اور حکمرانی کے حصول کا خمار چڑھا تھا۔ دوسری جانب ریاستی غالب اکثریتی سوچ اور ضیائی باقیات اس مظہر کے ساتھ خود کو ہم آہنگ اور استراحت محسوس کرتی رہی۔ضیائی آمریت اور اس کی رجعتی سوچ جنرل ضیاءکی عبرت ناک موت کے بعد بھی مختلف صورتوں میں جاری رہی ہے یہاں تک کہ اس سوچ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں بھی شخصیات اور خیالات کی شکل میں سرائیت کی ہے۔ ضیاءرژیم نے جس طرح شریف خاندان اور مسلم لیگ کو ریاستی چھایا میں پروان چڑھایا‘ اسی طرح بعد کے عشروں میں ضیاءوارثین حمیدگل، ظہیر الاسلام ، ندیم پاشا اور جنرل فیض حمید نے بے ہودہ لبرل چہرے کے حامل مگر زیادہ رجعتی خیالات کے ساتھ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ملک کے سیاسی افق پر ابھار کر اقتدار کے مسند پر براجمان کیا۔ اس کے لیے ریاست نے حکمران سرمایہ دار اور جاگیردار طبقوں کے نمائندوں کو ایک ایک کرکے ان کی نااہلی اور کرپشن کی قینچی سے خصی کیا۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کی ہم آہنگی سچائی کے سندان پر واقعات کے کاری ضربوں سے بہت جلد ٹوٹ کر بکھر گئی۔ مشرف دور میں تزویراتی گہرائی اور خارجہ پالیسیوں میں متضاد سمت میں پلٹنے سے ریاست میں اندرونی طور پر گہری دراڑیں پڑ گئی تھیں جسے عمران دور میں تمام پالیسیوں کو ڈیپ سٹیٹ اور سامراجی مفادات کے متضاد و متصادم مفادات کی خاطر موڑنے کے نتیجے میں پہلے سے موجود دراڑیں مزید گہری ہوئیں۔ علاقائی اور عالمی سطح پر مختلف سامراجی ریاستوں کی سٹریٹیجک و معاشی مفادات کے کھیل نے ریاست اور حکمران طبقوں میں خلیج بہت واضح کردی۔ ریاستی ٹوٹ پھوٹ اور صف بندی نے 9 مئی کو ملک اور پاکستانی سماج کو ایک شدید تر بحران میں دھکیل دیا۔کمزور اور سکڑتی ہوئی بھاری خساروں اور بحرانوں سے دوچار ملکی معیشت اور غربت٬ مفلسی٬ مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا مضطرب سماج نے ان داخلی ریاستی تضادات کو برانگیختہ کیا جس سے ریاست کے دو دھڑوں میں زورآزمائی اپنے عروج پر پہنچی۔ 9 مئی کے واقعے کو پاکستانی حکمران ریاست کی تاریخ کا حکمرانوں کے ایوانوں میں اب تک کی سب سے گہری اور وسیع داخلی بغاوت جیسی کوشش کا دن کہا جاسکتا ہے (ہم یہاں حکمران ریاست میں پھوٹ کی بات کررہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش سمیت دیگر سیاسی واقعات کی ہیئت اور ماہیت یکسر مختلف تھی) عمران اور اس کی تولید کردہ سیاسی نسل طیب اردوگان کی مصنوعیت اور ارتغرل کے خیالی اور گھڑی گئی داستانوں کی جھوٹی تاریخ کے دلدادہ ہیں۔ عمران مبالغے پر مبنی سوشل میڈیائی پیروی اور تعداد کو مزاحمتی قوت سمجھ کر پورا حساب کتاب کرکے یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کی گرفتاری کے بعد جنگ کے نقارے بجنے کے ساتھ ہی عوام اور کارکنوں کی غضبناک سونامی پاکستانی موجودہ رجیم کو بہا کر لے جائے گی۔ یہ مبالغہ صرف پی ٹی آئی قیادت کی سطح پر نہیں تھا بلکہ حکمران ریاست کے اندر خصوصاً اعلی فوجی آفیسران بھی عوامی سونامی اپنی خوش فہمیوں کے خیالی صحرا سے ابھرتے دیکھ رہے تھے لیکن یہ ہو نہ سکا کیونکہ جہاں سوشل میڈیائی Click Revolutionپر تکیہ موجودہ دور کا سب سے بڑا دھوکہ ہے‘ وہاں ریاست کے برسر اقتدار دھڑے نے سب سے پہلے انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کے تمام راستے بند کر دیئے۔ عسکری عوامی رابطہ شعبے کے سربراہ نے واقعے میں ملوث اعلیٰ اور درمیانے درجے کے فوجی عہدیداروں کی گرفتاری اور ان کے ٹرائل کی اطلاعات دیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کارکنوں اور قیادت کی گرفتاریاں ہوئیں۔ پارٹی کی پارلیمانی اور اعلی سیاسی قیادت جو قتیل شفائی اور حبیب جالب کے شعروں و نظموں کی گونج میں انقلابی جگالی کرنے والے اور کارکنوں کو عسکری تنصیبات پر حملے کی ترغیب دینے والے لیڈرز تو تحریک انصاف سے اپنی وفاداری بدلنے کے عوض چھوٹ گئے جبکہ عام سیاسی جذباتی کارکن کال کوٹھڑیوں کی تاریکیوں میں فوجی عدالتوں کے انصاف کی نذر ہوئے۔ پی ٹی آئی کے غلیظ حرم سے نئی تشکیل کردہ کٹھ پتلی پارٹیوں کی گماشتہ قیادت پھر سے ایک گھٹیا بیانیے کے گرد ایک نیا گھن چکر تخلیق کرکے نوجوانوں کو کولھو کے بیل بناکر بازاری معیشت میں ذلیل کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد پی ڈی ایم اور اس میں شامل پارٹیاں جمہوریت اور مصالحت کی بے وقت کی بلند راگنی میں غربت اور مہنگائی میں سلگتی جنتا کی سسکیاں دبانا چاہتی ہے لیکن اب مزید ایسا ممکن نہیں۔ حکمران ریاست تاریخی ٹوٹ پھوٹ ، معاشی سماجی و سیاسی بحرانوں اور زوال کے تیز ڈھلوان پر لڑھکتی جارہی ہے۔ کسی پارٹی اور حکمران طبقے کے کسی حصے کے پاس اس انتشار اور بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس امر کا اظہار سیاسی پارٹیوں کے سیاسی حالات کے تجزیوں، سطحی بیانیوں ، ان کے سیاسی پروگرام و اہداف اور درپیش گھمبیر مسائل کےلئے مضحکہ خیز حل کے نسخوں میں ہوتا ہے۔ اس پر استہزاءیہ کہ علاقائی سطح پر ابھرنے والے نئے اتحاد اور عالمی طاقتوں کی باہمی براہ راست اور بالواسطہ جنگ کے خطروں نے مستقبل مخدوش کردیا ہے۔ امریکی سامراج کی ڈکٹیشن پر آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے قرضے کے حصول کے لیے نیولبرل پالیسیوں کے تسلط کے ساتھ عوام دشمن اقدامات کی کڑی سامراجی شرائط معیشت کی مزید بربادی اور غربت میں دیو ہیکل اضافے کا باعث بنتی رہی ہیں۔ قرضوں میں اضافے کے ساتھ سود کی مد میں ادائیگی ریونیو وصولی کے تناظر میں برداشت کی حد بہت پہلے پار کر چکا ہے۔ اب تو آئی ایم ایف نے قرضہ لینے والے ملکوں پر خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی اعلانیہ شرائط بھی مسلط کرنا شروع کردی ہیں۔ پاکستان پر آئی ایم ایف کا شدید دباو¿ ہے کہ وہ یوکرین کو کسی تیسرے ملک کے ذریعے اسلحہ بھیجنے کی بجائے براہ راست بھیجنا شروع کردے جبکہ ترکی کو قرضہ سویڈن کی یورپی یونین میں شمولیت پر ترکی کی حمایت کے ساتھ مشروط کردیا ہے جسے اردگان نے سویڈن میں توہین مذہب کے اقدامات کے خلاف بھرپور لفاظیت کے باوجود تسلیم کرلیا ہے۔ چین‘ روس اور دیگر ممالک کے ابھرتے بلاک کی جانب پاکستان کا زیادہ جھکاو¿ اسے خطے میں امریکی پراکسی قوتوں کا آسان ہدف بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے اہداف کے حصول اور مملکت خداداد کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے تخلیق کیے گئے اثاثے اور رجعتی قوتیں ریاست کے پاو¿ں کی بیڑیاں اور یہی انتہاپسند مذہبی بنیاد پرستی کی درندگی اب اپنے پالنہار کو ہی برباد کرنے پر تلی ہے۔

عالمی سطح پر معاشی زوال، مسلسل گراوٹ اور شدید گہرے بحرانوں کی حالت میں کسی معاشی بحالی کا دور دور تک کسی امکان کی عدم موجودگی میں سماجی گراوٹ اور بربریت کی نئی مثالیں جنم لے رہی ہیں۔ نیم فسطائیت اور بنیاد پرستی وقفے وقفے سے سر اٹھا رہی ہے۔ دوسری جانب محنت کشوں کی شاندار احتجاجی تحریکیں بھی ایک کے بعد دوسرے ملک میں کسی وبا کی طرح ابھر رہی ہیں جس سے حکمران عالمی سطح پر خوفزدہ اور اصلاحات میں نااہلی سے شدید مایوسی کی حالت میں ہیں۔ روئے زمین پر نسل انسان آج جتنی اذیت میں ہے ملکی اور عالمی سطح پر بے چینی اور اضطراب کا جو لاوا اُبل رہا ہے وہ شاید توقعات سے بھی پہلے پھٹ کر افتادگان خاک کو تاج اچھالنے کے مناظر دکھائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے