پاکستان:جہاں بھونچال بنیاد ِ فصیل و در میں رہتے ہیں!

تحریر: سعید خان
حالیہ عرصے میں حکمران طبقے کے بڑھتے ہوئے تضادات، ہائیبرڈ رجیم کے ناکام فارمولے، تزویراتی گہرائی کی پالیسی کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی ریاستی اداروں کی تقسیم اور ان کے بیچ ٹکراؤ، برباد معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری، قدرتی آفات اور عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تضادات میں اس ملک کے حکمرانوں کے لیے اپنے سفارتی تعلقات میں توازن برقرار رکھنے میں درپیش مشکلات جیسے مسائل نے اس ملک کو ایک ایسی کیفیت میں لا کھڑا کیا ہے جس کا سامنا یہاں کے حکمرانوں کو شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ ان تمام تر مسائل کے ایک وقت اور جگہ پر ارتکاز نے اس سماج اور ریاست کے بالائی ڈھانچے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ ریاست کا بحران جنتا شدید ہوتا جا رہا ہے حکمرانوں کی سیاست اتنی ہی لاحاصل ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی پالیسیاں دور اندیشی اور حکمت سے عاری ہیں‘ ان کے فیصلوں میں روایتی عملیت پسندی سے بھی بڑھ کر ایک پر انتشار امپرو وائیزیشن ہے‘ جس سے سیاسی اور معاشی بحران مزید سنگین ہوتا جارہا ہے۔ سماج کی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے، سماج غربت اور افلاس کی گہرائیوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ سماج اس مفلسی کی ماری زچہ کی طرح ایسے لیبر پین سے گزر رہا ہے جس میں بچے کا پیٹ کے اندر ہی مرنے کا خطرہ ہو۔ محنت کش طبقے کی آہ درمیانی طبقے کے سیاسی ری ایکشن کے شور میں دب سی گئی ہے۔ ایک ایسا شور جو تیس سال کی بڑی محنت اور لاگت سے تیار کیا گیا اور اب بڑی عجلت میں دبایا جا رہا ہے۔

ہائیبرڈ نظام کی ناکامی

نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف خصوصاً پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے کچھ شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے فوجی تنصیبات اور یادگاروں کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد ریاستی کارروائی کے نتیجے میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے پارٹی کے ایم این ایز اور سابقہ ایم پی ایز کی پریس کانفرنسوں میں پارٹی سے راہیں جدا کرنے کے اعلانات کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔. درجنوں رہنما پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں موجود پی ٹی آئی کے حمایتی ججوں کی موجودگی اور ان کی طرف سے دئیے جانے والے متوقع ریلیف کے پیش نظر ( جو بار بار دیا بھی گیا ہے) ملٹری کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم اور تضاد کس حد تک بڑھ چکا ہے لیکن جس انداز اور رفتار سے پی ٹی آئی کی قیادت عمران خان اور پارٹی سے لا تعلقی کے اعلانات کر رہی ہے‘ ان کے خلاف ان فوجی عدالتوں میں کوئی کارروائی نہیں ہونے والی۔ پھر انہیں لوگوں کو مختلف پارٹیوں میں ایڈجسٹ کروا کے ایوان میں بٹھایا جائے گا۔ وہ لائے بھی ایسے ہی گئے تھے جس طرح واپس بلائے جا رہے ہیں مگر سزائیں ان ہی کارکنان کے حصے میں آنے والی ہیں جن کا تعلق نچلے طبقات سے ہے۔ نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے پیچھے دراصل پی ٹی آئی کی نرگسیت کی شکار قیادت کی حکمت عملی یہ تھی کہ کپتان کی حمایت میں لاکھوں لوگ باہر نکل آئیں گے جس سے سٹیبلشمینٹ کے اندر موجود تقسیم اور نیچے عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے بغاوت ہوسکتی ہے لیکن مختلف اداروں کے دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پورے ملک میں صرف چند ہزار لوگ ہی اپنے لیڈر کے لیے باہر نکلے۔ ان میں سے بھی ستر فیصد نچلے طبقے کے ہی لوگ تھے۔ عمران خان کا مڈل کلاس فین کلب سوشل میڈیا پر ہی مزاحمت کرنے تک محدود رہا اور شاید یہ سوشل میڈیا پر موجود پروپیگنڈہ ہی تھا جس کا شکار خود پی ٹی آئی بنی ہے اور یہ ایڈوینچر وقت سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی موت کا سبب بنا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے سال اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد اس کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا جس کی اہم وجہ پھر پی ڈی ایم حکومت کا عوام پر شدید معاشی حملہ تھا‘ جس سے بڑے پیمانے پر مہنگائی میں اضافہ ہوا‘ روپے کی قدر میں تاریخی کمی واقع ہوئی‘ صنعتیں بند ہونا شروع ہوگئیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
جنرل حمید گل کا پروجیکٹ جس کو بعد میں شجاع پاشا اور ظہیرلاسلام نے اربوں روپے کی لاگت اور ٹی وی سکرینوں کے ہزاروں گھنٹے خرید کر سماجی بنیادیں بنوانے میں اہم کردارادا کیا‘ وہیں ایک اور وجہ مشرف دور کی معاشی ترقی تھی جس میں ایک نیا شہری مڈل کلاس پیدا ہوا۔ وہ نو دولتیہ طبقہ بھی پھلا پھولا جس کی معاشی بنیادیں کالی معیشت سے جڑی ہوئی تھیں، اس کے ساتھ سول اور عسکری بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے احساس کمتری اور شناخت کے بحران کے شکار خاندان جو آدھے اندرون ملک میں اور آدھے بیرون ملک مقیم ہیں، جن کو عمران خان کی شکل میں اپنی سیاسی شناخت ملی‘ جو پہلے کبھی اس لیے بھی سیاسی عمل کا حصہ نہیں رہے کہ یا تو نواز شریف کی صورت میں ایک ”ان پڑھ جس کو ٹھیک سے انگریزی بولنی بھی نہیں آتی“کیسے ان کا لیڈر ہو سکتا ہے‘ جب کہ پیپلزپارٹی تو اپنے آغاز سے ہی ”غریبوں اور جاہلوں کی پارٹی ہے اور اس کی قیادت بھی پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی ہے“ یہ عمران خان کا فین کلب ایک ہی وقت میں مذہبی، لبرل اور شاونسٹ ہے۔ پی ٹی آئی کے مظہر کی پاکستانی سیاست میں جگہ بن جانے کی ایک اور وجہ 2008ءکا وہ عالمی معاشی بحران بھی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی درمیانی طبقے کی نمائندہ نیم فسطائی پارٹیوں اور پاپولسٹ لیڈروں کا ابھار ہوا ہے۔ 2008ءکے عالمی بحران کے بعد پاکستان کا درمیانی طبقہ سکڑنا شروع ہوا ‘ اس کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی‘ جس کا سیاسی اظہار اس طبقے نے پی ٹی آئی کے ذریعے کیا ۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادت کے قتل ہونے اور ان پارٹیوں کی سیاست کو دہشت گردی کے ذریعے محدود کرنے کے بعد ہی عمران خان کی ملکی سیاست میں جگہ بن پائی ہے۔
پی ٹی آئی کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن نہ صرف ریاستی اداروں اور ان میں موجود مختلف عناصر کے بیچ جہاں مالی مفادات کے تضادات کا اظہار ہے‘ وہیں پر نظریاتی تضادات کا بھی نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج اور چین کے واضح ہوتے ہوئے بلاکس کے درمیان عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تجارتی اور سفارتی جنگ کے اثرات بھی فیصلہ کن ہیں۔ اب یہ عالمی طاقتوں کے توازن اور ملک کی معاشی صورتحال پر منحصر ہے کہ آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کا رول کیا بنتا ہے۔ پارٹی پر مکمل پابندی بھی لگ سکتی ہے یا پھر نواز شریف کی طرح عمران خان کو نا اہل قرار دے کر پارٹی قیادت کسی اور کے حوالے کر کے اس کو چلنے دیا جائے۔ نکلے ہوئے الیکٹیبلز کے ساتھ جہانگیر ترین نے ایک نئی پارٹی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کچھ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب آنے والے انتخابات کے نتائج اتنے زیادہ غیر متوقع نہیں رہے۔ ریاستی اداروں کی آشیرباد، سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت اور الیکٹبزل کی جوڑ توڑ ہی ان نتائج کا تعین کریں گے، لیکن جس طرح ان تلخ معاشی حالات نے اکثریتی عوام کو سیاست سے بیگانہ کر دیا ہے‘ آنے والے انتخابی عمل میں عوام کی شراکت شاید ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہو۔

معیشت کی ڈوبتی ناؤ

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پچھلے عرصے میں لندن کی سوئس یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز میں دیے گئے لیکچر ” پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کے حل“ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ” پاکستان ایک ایلیٹ کیپچرڈ سٹیٹ یا اشرافیہ کے زیر تسلط ریاست ہے‘ جو پاکستان کو اس طرح کنٹرول کرتے ہیں جو باقی دنیا سے کافی زیادہ مختلف ہے۔ پوری دنیا کی اشرافیہ کے پاس پاورز ہوتی ہیں لیکن پاکستان اس حوالے سے ایک خاص کیس ہے کیونکہ یہ ایک ایلیٹ کیپچرڈ ریاست ہے، اس لیے ریاست کے پاس ترقی اور گروتھ کے لیے کوئی خواہش ہی نہیں رہ جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو” لوگ“ ریاست کو کنٹرول کرتے رہے ہیں وہ پہلے ہی بہت امیر اور طاقتور ہو چکے ہیں اور ان کی گروتھ کے لیے ضروریات بہت کم ہیں وہ حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں“۔ یہ اعتراف پاکستان کی نام نہاد” سنجیدہ“ بورژوازی کے نمائندے کا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کی بورژوازی کتنی کمزور اور لاچار ہے‘ نا وہ یہاں کوئی پائیدار جمہوریت قائم کرنے کی اہل ہے اور نا ہی اس ملک کے معاشی ڈھانچے میں کوئی اصلاحات کرنے کے قابل ہے، چاہے وہ نیو لبرل پالیسیوں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ ان” لوگوں“ کی بڑی حد تک کالی معیشت سے وابستگی، اپنے لیے حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ، پھر سرکاری ٹھیکوں سے لے کر سالانہ اربوں ڈالر کی سبسڈیز کی وجہ سے یہاں کی سرمایہ داری ان ”لوگوں“ سے مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی کیفیت میں نہیں رہتی۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ریاستی اخراجات میں کمی بلیک اکانومی کے حجم کو کم کرنے جیسے شرائط پر کم از کم یہاں کی بورژوازی اور آئی ایم ایف ایک ہی پیج پر ہیں۔ ریاستی اخراجات میں کمی، پنشنز کو ختم کرنے، ٹیکس نیٹ بڑھانے،سرکاری اداروں کی نجکاری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے جیسی شرائط کی بنا پر پی ڈی ایم حکومت کے درمیان پچھلے سال سے آئی ایم ایف کے ساتھ اجلاس تعطل کا شکار رہے اور قرض کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی۔ اس عرصے میں پی ڈی ایم حکومت روس اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے اور پلان بی جیسے منصوبے کی بیان بازی بھی آئی ایم ایف کو پریشرائز کرنے کے لیے کی گئیں۔ بالآخر تیس جون کو معاہدے کی مدت پوری ہونے کے آخری روز ایک نیا معاہدہ انہی پرانی شرائط پر عمل میں لایا گیا ۔ اس نو ماہ کے قلیل مدت کے معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر کے قرضے ملنے والے ہیں۔ جس سے ریاست کے دیوالیہ ہونے کے امکانات ختم ہونے کی نوید سنائی جا رہی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کی اسی فیصد آبادی کی معاشی صورتحال پچھلے پچھتر سالوں سے دیوالیہ رہی ہے۔ چالیس فیصد کے قریب افراط زر، اجرتوں میں کمی، بیروزگاری ہی تھی کہ جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے، ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یہاں کے ہزاروں افراد ہر سال ملک چھوڑنے کے لیے پر خطر راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اور ان میں سے سینکڑوں یا تو سرحدوں پر مارے جاتے ہیں یا پھر سمندروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس بھوک نے اپنی مٹی سے محبت اور حب الوطنی جیسے جذبات کو مجروح اور بے معنی کر کے رکھ دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے پچھلے مالی سال میں ملکی پیداوار میں ترقی کی شرح 0.3 فیصد رہی جو مالی سال 2021-2022ءکے مقابلے میں 34 ارب ڈالر کم ہے۔ وہیں مالی سال 2021-2022ءکے مقابلے میں فی کس آمدنی میں دو سو ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم انسٹھ کھرب روپے کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جن میں پچھلے گیارہ ماہ میں بائیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پچھلے سال سے روپے کی قدر میں بھیانک گراوٹ اور امریکہ کی جانب سے ڈالر کے شرح سود میں کیا گیا اضافہ بھی ہے۔ اس سال جون میں بیرونی قرضے ملک کی مجموعی پیداوار کے35 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے بعد نو اَرب ڈالر تک تو پہنچ گئے ہیں لیکن اس سال حکومت کو پچیس ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں دینے ہوں گے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے اور ڈالر کی کمی کے بحران کو حل کرنے کے لیے درآمدات پر جو پابندی عائد کر دی گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر وہ صنعتیں بند ہوئیں یا پیداوار کم کرنے پر مجبور ہو گئیں جن کا دارومدار درآمدی خام مال اور پرزہ جات پر تھا۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور صنعتوں کو چلانے کے لیے دوبارہ سے درآمدات سے پابندی ہٹانا لازمی ہوگا جس سے دوبارہ تجارتی خسارہ بڑھنے کی طرف جائے گا۔ ڈالر کی طلب بڑھ جانے سے پھر روپے کی قدر میں کمی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا‘ پھر ریاست کے پاس مزید بیرونی قرضے حاصل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔
اسحاق ڈار نے 9 جون کو 14048 اَرب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا جس کے لیے نو ہزار دو سو ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں حاصل کیے جائیں گے جبکہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.2فیصد متوقع ہے۔ فروری کے وسط میں منی بجٹ میں متعارف کرائے گئے 500 ارب روپے کے تمام ٹیکسوں کے علاوہ 223 ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات کا اعلان کیاگیا۔ آئندہ مالی سال کے لیے نئے ٹیکس اقدامات کا حجم اب 938 ارب روپے ہے۔ سات ہزار تیس ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مختص کیے گئے ہیں اور دفاع کے لئے ایک ہزار آٹھ سو ارب روپے‘ جبکہ عوام کے لئے مزید نئے ٹیکس، بجلی گیس، تیل اور ادویات، صحت کی سہولیات کو مہنگا کیا گیا ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے 3.5 فیصد کی متوقع اقتصادی نمو، 21 فیصد کی اوسط مہنگائی اور محصولات کے اقدامات کی بنیاد پر 28 فیصد زیادہ ریونیو کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ دہاڑی دار اور صنعتی مزدور تو پہلے ہی اس نظام کے جبر کا شکار ہیں لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر پینشنوں میں کٹوتیاں انکم ٹیکس میں اضافے اور سرکاری اداروں کی نجکاری سے قدرے بہتر زندگی گزارنے والے محنت کشوں کے لیے بھی یہ بجٹ اذیتوں میں اضافہ لائے گا۔

تبدیلی کے بوجھ تلے دبی تحریکیں

پچھلی ایک دہائی سے پی ٹی آئی کی شکل میں درمیانی طبقے کے رجعتی ابھار کو جس انداز سے پاکستانی معاشرے پر مسلط کیا گیا ‘ اس کے نتیجے میں عمومی شعور پیچھے کی طرف گیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود بھی محنت کشوں کی چھوٹی چھوٹی تحریکیں مختلف وقتوں میں یہاں ابھری ہیں جو درمیانی طبقے کے سیاسی شور‘ جس کو میڈیا کے ذریعے سماجی سماعت پر مسلط کیا گیا تھا‘ کے نیچے دب سی گئیں۔ پھر بھی اس عرصے میں ملک کے مختلف علاقوں میں سیاسی شعور کی کیفیت ہمیں مختلف سطحوں پر کھڑی نظر آتی ہے۔ مثلاً خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی مقبولیت کے باوجود بھی ہمیں پی ٹی ایم کی شکل میں ایک عوامی تحریک دیکھنے کو ملتی ہے، وہیں پر ہی سوات میں بھی ایک اور تحریک” اولسی پاسون“ کے نام سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی صورتحال باقی تمام ملک کی سیاسی صورتحال سے مختلف نظر آتی ہے۔ سندھ میں بھی نام نہاد تبدیلی کے اثرات اس طرح نہیں پڑے جس طرح خصوصاً مرکزی پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نظر آتی ہے۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اور اس سے پہلے بھی ضمنی انتخابات کے نتائج اس کا اظہار ہیں۔ 2018ءکے انتخابات کے بعد حالات و واقعات جس تیزی کے ساتھ رونما ہوئے ہیں، جن کے سبب یہاں نہ صرف سماجی انتشار بڑھا ہے پر سیاسی تقسیم بھی بڑھی ہے۔ ملک کے اس تاریخی معاشی اور سیاسی بحران نے محنت کش طبقے کو ایک صدمے کی کیفیت سے دوچار کیا ہے۔ شدید معاشی اور ریاستی جبر، دہشتگردانہ حملوں، وباﺅں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات نے جیسے سماج میں انتشار سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ معیشت میں تھوڑی سی بحالی جس سے اس طبقے کو سانس لینے کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے تو یہ ابلتا ہوا آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ایسے میں اگر سوشلسٹ نظریات سے لیس انقلابی قیادت یہاں تعمیر ہوجاتی ہے تو یقینا اس خطے کے مقدر کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

One thought on “پاکستان:جہاں بھونچال بنیاد ِ فصیل و در میں رہتے ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے