یوکرائن جنگ اور آئی ایس ایل کی سامراجی گماشتگی

تحریر: حسن جان

پچھلی ایک صدی کی تاریخ میں جنگیں ہمیشہ انقلابی تنظیموں کی نظریاتی اور سیاسی موقف کی درستگی یا غلط ہونے کی کسوٹی رہی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ نے دوسری انٹرنیشنل کا کڑا امتحان لیا۔ جنگ کے آغاز پر دوسری انٹرنیشنل میںشامل بیشتر تنظیموں اور پارٹیوں( ماسوائے روس میں بالشویک پارٹی ) نے سامراجی جنگ کے حوالے سے ایک طبقاتی انقلابی موقف اپنانے کی بجائے قومی شاونزم کا شکار ہوتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کی جنگی پالیسیوں کا ساتھ دیا۔ یہی وہ تاریخی لمحات تھے جب حقیقی انقلابی سو شلسٹ اور برائے نام اور لفاظی کی حد تک انقلابی قوتوں کے درمیان فرق آشکار ہوا۔ دوسری طرف اس طرح کی جنگیں ان تنظیموں اور پارٹیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کو اور بھی بڑھاوا دیتی ہیں جو عام حالات میں سطح کے نیچے چھپے ہوتے ہیں اور نظر انداز کیے جاتے ہیںیہی وہ فیصلہ کن لمحات ہوتے ہیں جب اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ انقلابی تنظیم حقیقت میں انقلابی ہے یا انقلابیت کی آڑ میں حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں کے دلال ہیں۔

حالیہ یوکرائن روس تنازعے کے پس منظر میں ہونے والی جنگ نے بہت سی نام نہاد انقلابی تنظیموں کی اصلیت کو اجاگر کیا ہے۔ جن میں سر فہرست انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ ہے جس نے حالیہ تنازعے میں کھل کر امریکی سامراج اور نیٹو کی گماشتگی شروع کی ہے اور اپنی اس سامراجی کاسہ لیسی کو مبہم انقلابی نعرے بازی میں چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔

روس یوکرائن تنازعے کا پس منظر

یوکرائن مشرقی یورپ میں واقع ایک ملک ہے جس کی مشرقی اور شمال مشرقی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔ ملک میںیوکرینی ، روسی، تاتار سمیت متعدد قومیتیں آباد ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 67فیصدلوگ یوکرینی زبان بولتے ہیں۔ روسی زبان بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر روس سے ملحق سرحدی علاقوں اور جزیرہ نما کریمیا میں آباد ہیں۔ روسی بولنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار موجود نہیں لیکن بعض اندازوں کے مطابق یہ تعداد یوکرائن کی آبادی کا 30فیصد ہیں۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مشترقی یورپ کی آزاد شدہ ریاستوں کو مغربی سامراج نے روسی اثر و رسوخ سے نکالنے اور اپنے حلقہ اثر میں لانے کی جدوجہد تیز کی۔ 1999ءمیں زچ ریپبلک ، ہنگری اور پولینڈ سامراجی عسکری اتحاد نیٹو کا حصہ بنے۔ 2004ءمیں ایسٹونیا، لیٹویا، بلغاریہ، رومانیہ، سلووکیا، سلووینیا اور لتھوینیا نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ نیٹو کی یہ پیش قدمی سوویت یونین کے انہدام کے وقت مغربی ممالک کی جانب سے روس کو دیئے گئے اُس زبانی یقین دہائی کے باوجود عمل میں آئی جس میں انہوں نے نیٹو کو مشرق کی جانب ایک انچ بھی نہ پھیلانے کا عزم کیا تھا۔ لیکن روس ان شمولیتوں کے خلاف کوئی رد عمل نہیں دکھا سکا کیونکہ اب وہ اپنے ماضی کی پرچھائی بن کر رہ گیا تھا۔ 1998ءمیں روس سرکاری طور پر دیوالیہ ہوچکا تھا اور بد ترین معاشی بحران کا شکار تھا۔ ایسے میں وہ نیٹو کی اس پھیلاﺅ کے خلاف چاہ کر بھی کوئی رد عمل نہیں دکھا سکا۔

یوکرائن میں روس اور مغربی سامراج کی اثر و رسوخ کی جنگ ملک کی مخصوص تاریخی، جغرافیائی اور قومیتی ترکیب کی وجہ سے زیادہ شدید تھی۔ ملک میں روس نواز اولیکارگ (سرمایہ داری کی بحالی کے بعد قومی وسائل کی نجکاری اور لوٹ مار سے بننے والا نیا بد قماش سرمایہ دار طبقہ) ملک کو روسی دائرہ اثر جبکہ مغرب نواز اولیکارگ اسے یورپی یونین کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ملکی سیاست اور اقتدار پر انہی اولیگارشی کے مختلف دھڑے حاوی رہے ہیں۔ 1994ءسے 2005ءتک برسر اقتدار رہنے والے یوکرائینی صدر لیونیڈ کچما نے بارہ سالوں تک مغرب اور روس کے درمیان ایک انتہائی کمزور توازن قائم رکھنے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔

سن 2004 کے صدارتی انتخابات میں روس نواز اولیگارش وکٹر یانوکووچ ابتدائی مرحلے میں فاتح قرار پائے اور مغرب نواز اولیگارش وکٹر یاشینکو ہار گئے۔ مغرب نواز اولیگارش کے سیاسی نمائندوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے اور مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جسے ”اورینج ریولوشن“ کا نام دیا گیا (وکٹر یاشینکو کی مہم میں استعمال ہونے والے جھنڈے اورینج رنگ کے تھے)۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر مغربی یوکرائن کی مڈل کلاس اور لمپن عناصر شامل تھے اور مظاہروں کا مرکز دارالحکومت کیف تھا جبکہ ان کے مطالبات یورپ کے ساتھ گہرے تعلقات اور روس مخالف تھے۔ واضح طور پر ان مظاہروں کو یوکرائن کے طاقتور اور بد عنوان یورپ نواز اولیگارش کی بھرپور حمایت حاصل تھی جبکہ مغربی میڈیا اسے ایک بھرپور انقلاب ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ محنت کش طبقے کی ان مظاہروں میں کوئی شرکت نہیں تھی کیونکہ یہ تحریک ہی مڈل کلاس اور لمپن عناصر کی تنگ نظر مفادات کے گرد تھی۔ بہرحال سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ ’انقلاب‘ اس وقت اپنے منطقی انجام کو پہنچا جب یورپ نواز اولیگارش وکٹر یاشینکو کو فاتح قرار دیا گیا۔

سن 2010ء کے انتخابات سے قبل وکٹر یاشینکو کی مقبولیت محض 22فیصد رہ گئی تھی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد یوکرائن کا المیہ یہی رہا ہے کہ یہاں اقتدار مشرقی اور مغربی بد معاش اور جرائم پیشہ سرمایہ داروں (اولیگارش) کے بیچ ہی جھولتا رہتا ہے جو بے انتہا کرپٹ اور جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ کسی اور متبادل کی غیر موجودگی میں 2010ءکے انتخابات میں روس نواز اولیگارش وکٹر یانوکووچ صدر منتخب ہوئے۔

یورو میدان انقلاب 2014ء (عظمت کا انقلاب)

روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ نے نومبر 2013ءمیں یوکرائن کی پارلیمنٹ کی جانب سے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کی سفارشات کو مسترد کردیا اور اس کی بجائے روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنے کا اعادہ کیا۔اس سے قبل یانوکووچ نے عام تاثرات کے برعکس مغرب اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ان کے تمام معاشی پروگراموں کو ملک میں لاگو کرنے اور یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات اور معاہدے کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے۔ لیکن ان پروگراموں کو لاگو کرنے کے نتائج کا بھی اسے پتہ تھا۔ 2013ءمیں روسی صدر نے یوکرائن کو یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی طرف سے 838ملین ڈالر کے قرضے کی پیشکش (جس کے بدلے یوکرائن کو نیو لبرل معاشی اقدامات بھی کرنے تھے) کے برخلاف ایک ایسا پیکج پیش کیا جسے وہ انکار نہیں کرسکتا تھا یعنی 15بلین ڈالر کا قرضہ اور سستی گیس وہ بھی بغیر کسی شرائط کے۔ ۔ یہی وہ موقع تھا جب یانووکووچ نے روس کا انتخاب کیا اور یورپی یونین کے ساتھ معاہدوں کو مسترد کردیا۔ اس کے ساتھ ہی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ مظاہرے تقریباً انہی خطوط پر استوار تھے جن پر 2004ءکی نام نہاد اورینج انقلاب چلی تھی۔بنیادی مطالبہ یورپی یونین سے قریبی تعلقات اور شمولیت تھی۔ مظاہرین کا مقبول نعرہ ”یوکرائن یورپ ہے“ تھا۔ مظاہرے دارالحکومت کیف میں ہی مرتکز تھے۔ مظاہرین کی سماجی ساخت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ زیادہ تر مغربی یوکرائن کی مڈل کلاس کے ان نوجوانوں اور لمپن عناصر پر مشتمل تھے جو یوکرائن بدعنوان مافیا سرمایہ داری اور اولیگارشی کی حکومت سے تنگ تھے اور یورپی یونین کے ساتھ یوکرائن کے الحاق میں اپنے روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اپنے نعروں اور طبقاتی ہیت کی وجہ سے یہ تحریک رجعتی اور ردانقلابی شورش تھی اور واضح طور پر تنگ نظر روس مخالف اور بایاں بازو مخالف فاشسٹ تحریک تھی۔ یہ قطعاً محنت کش طبقے کی تحریک نہیں تھی۔ یہ بدعنوان اولیگارشی اور مافیا سرمایہ داری کے خلاف برباد مڈل کلاس ، لمپن عناصر اورانتہائی دائیں بازو کی جانب سے ایک رد عمل تھا۔ لیکن اس بار یہ مظاہرے زیادہ پر تشدد تھے۔ مغربی یوکرائن کی اولیگارشی کے طاقتور حلقے اور مغرب نواز ریاستی دھڑے ان مظاہروں کی بھرپور حمایت کر رہے تھے جبکہ تنگ نظر روس مخالف یوکرائنی قوم پرست پارٹیاں اور کھلم کھلا فاشسٹ مسلح دستے اس ’تحریک‘ کی قیادت تھے۔

امریکہ اور یورپی یونین روس کے ساتھ اپنی اثر و رسوخ کی جنگ میں اس نام نہاد تحریک کو بھرپور کمک فراہم کر رہی تھی۔مظاہروں کے دوران امریکی رپبلکن سینیٹر اور باراک اوباما کے خلاف صدارتی امیدوار جان مکین نے کیف میں اپوزیشن پارٹیوں بشمول دائیں بازو کی پارٹی سووبوڈا کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں اور مظاہرین سے خطاب بھی کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے اس وقت کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے یورپی اور یورویشیا وکٹوریا نولینڈنے 2014ءمیں اقرار کیا تھا کہ امریکہ نے یوکرائن میں اپنی پالیسیوں کی کامیابی کے لیے 5ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ایک اور انتہائی دلچسپ بات یہ بھی ہے (جس کا اظہار وکٹوریا نوولینڈ نے بعد میں کیا ) کہ وہ دائیں بازو کی اس رجعتی تحریک کے دوران متعدد مرتبہ یوکرائن گئیں ‘ مظاہروں کا معائنہ کیااور مظاہرین میں بسکٹ بھی تقسیم کیے۔ دوسری طرف یوکرائن کی مغرب نواز میڈیا نے ان مظاہروں کو بھرپور کوریج دی۔

فاشسٹ گروہوں کی پرتشدد کاروائیوں ( جو زیادہ تر دارالحکومت کیف تک محدود تھے) کے بعد 22فروری 2014ءکو صدر وکٹر یانووکووچ ملک سے فرار ہو کر روس چلا گیا اور ایک نئی مغرب نواز عبوری حکومت وجود میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی یوکرائن (جہاں زیادہ تر روسی زبان بولنے والے رہتے ہیں) میں نئی عبوری حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔ اسی دوران روس نے فوج بھیج کر کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ مشرقی یوکرائن کے علاقوں لوہانسک اور دونتسک میں علیحدگی پسندوںنے مسلح کاروائیوں کے بعد علاقائی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کرکے لوہانسک پیپلز ریپبلک اور دونتسک پیپلز ریپبلک کا اعلان کیا۔ بلاشبہ ان کو روسی کمک بھی حاصل تھی۔

یورو میدان انقلاب کے بعد بننے والی نئی حکومت

کیف میں پیٹرو پوروشینکو کی قیادت میں نئی حکومت نے آتے ہی یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات اور معاہدوں کو حتمی شکل دے دی۔ امریکی سامراج اور مغربی حکومتوں نے پرجوش انداز میں نئی حکومت کا استقبال کیا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یوکرائینی ریاست کی ہیت کو تبدیل کردیا گیا۔ روسی زبان پر پابندی لگا دی گئی۔ سوویت دور کی باقیات کو ختم کرنے کے لیے ”ڈی کمیونائزیشن“ کا قانون پاس کیا گیا جس کے تحت بائیں بازو کی تمام پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ سوویت دور کے مجسموں بشمول لینن کے تمام مجسموں کو گرانے کی مہم کا آغاز کیا گیا۔ اس قانون کے تحت حتیٰ کہ کمیونسٹ ہونے کے جرم میں کسی شخص کو پانچ سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ نئی ریاست کی آڈیالوجی دائیں بازو کی مہا یوکرائینی قوم پرستی تھی جس کا لازمی نتیجہ روس دشمنی اور مشرقی یوکرائن میں بسنے والے روسی بولنے والی آبادی پر وحشتناک جبر تھی۔ یوکرائنی فوج میں آزوف ریجمنٹ جیسے انتہائی دائیں بازو کے فاشسٹ دستوں کو شامل کیا گیا جن کا بنیادی نظریہ نیو نازی اور روس دشمنی ہے۔ ملک بھر میں نیو نازی فاشسٹ دستے پارکوں، تفریحی اور پبلک مقامات پر لوگوں کی اخلاقی پولیس کی مانند مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روس کو اپنے ایک اور حلقہ اثر سے ہاتھ دھونا پڑا۔

روسی پھیلاﺅ یا نیٹو کا پھیلاﺅ

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ سوویت یونین کے انہدام کے وقت نیٹو نے غیر اعلانیہ طور پر روس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ نیٹو کسی بھی صورت مشرق کی جانب ایک انچ بھی نہیں آئے گا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک کے بعد ایک سابقہ سوویت ریاستیں (جنہیں روس اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے) نیٹو میں شامل ہونے لگیں۔ 2008ءمیں روس کا جارجیا پر حملہ اسی تناظر میں ہوا تھا۔ جارجیا نیٹو کی ممبرشپ حاصل کرنے کی طرف جا رہا تھا۔ لیکن روسی حملے کے بعد یہ عمل رک گیا۔ روس میں سرمایہ داری کی بحالی (جو مافیا سرمایہ داری کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی) سے جو اولیگارشی بر سراقتدار آئی وہ تمام سابق سوویت ریاستوں کو زار روس کی مانند اپنا حلقہ اثر سمجھتی ہے۔ سنجیدہ مغربی ماہرین نے بارہا اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ مشرق کی جانب نیٹو کی پیش قدمی کسی بھی موقع پر سخت روسی رد عمل کو جنم دے سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی بحالی کے بعد ہونے والی معاشی بربادی اور 1998ءمیں روسی معیشت کا دیوالیہ نکل جانا وہ اہم عوامل تھے جس کی وجہ سے روس سابق سوویت ریاستوں کی پے در پے نیٹومیں شمولیت پر کوئی سنجیدہ رد عمل نہیں دے سکا لیکن معاشی دیوالیہ ہونے کے دس سال بعد نسبتاً استحکام کے قیام کے بعد روس نے فوجی مداخلت کرکے بزور طاقت جارجیا کی نیٹو میں شمولیت کو روکا۔ یہ عمل روس کے مغربی اور امریکی حریفوں کو یہ پیغام تھا کہ روس ایک بار پھر دنیا کی بندر بانٹ میں اپنا پرانا /تاریخی حصہ لینے پہنچ گیا ہے۔

یورو میدان انقلاب 2014ء کے واقعات نیٹو کی مشرق کی جانب پھیلاﺅ کے اسی پالیسی کا ہی حصہ تھا۔ امریکی سامراج اور مغربی ممالک کی اس رجعتی تحریک کے دوران بھرپور مداخلت یوکرائن کو مغربی حلقہ اثر میں لانے کی کوششوں کا ہی تسلسل تھاجس پر امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ نے 5ارب ڈالر خرچ کرنے کا انکشاف کیا تھا۔ یوکرائن میں ایک روس نواز حکومت کی اس انداز میں برطرفی اور اس کی جگہ ایک انتہائی دائیں بازو کی فاشسٹ حکومت کا برسر اقتدار آنا روس کی خطے میں اثر و رسوخ اور خود روس کی سیکیورٹی کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ مغربی ممالک شاطرانہ انداز میں روس کی یوکرائن اور سابق سوویت ریاستوں میں اثر و رسوخ کو روسی توسیع پسندی قرار دیتی ہے۔ لیکن یہ بیانیہ انتہائی منافقت پر مبنی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔ رائج الوقت اسٹیٹس کو اور بڑی طاقتوں کی عالمی بندر بانٹ اور خطوں میں اثر و رسوخ کے غیر اعلانیہ عالمی تقسیم کے حساب سے وسطی ایشیائی ریاستیں اور روسی سرحد کے ساتھ سابق سوویت ریاستیں روس کے حلقہ ہائے اثر ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی سامراج کی پوری کوشش تھی کہ نئی روسی فیڈریشن کے قدم نہ ٹکنے پائے اور نسلی بنیادوں پر روس کی تقسیم ہو۔ چیچن اسلامی علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں کو مکمل امریکی حمایت حاصل تھی۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہاں روسی توسیع پسندی کی بجائے مغربی سامراج اور نیٹو کی توسیع اور پھیلاﺅ کا مظہر سامنے آتا ہے۔ مشرقی یورپ اور بالخصوص حالیہ عرصے میں یوکرائن میں ہونے والے واقعات نیٹو کی پیش قدمی اور توسیع پسندی ہے، ایک ایسے ملک میں جو روسی اثر و رسوخ کا خطہ رہا ہے جسے روس گنوانا نہیں چاہتا۔ اس سے بڑھ کر نیٹو کے پھیلاﺅ کو روس اپنے کے لیے ایک سیکیورٹی رسک سمجھتا ہے۔ یوکرائن میں مغرب نواز نیو فاشسٹ حکومت کا برسراقتدار آنااوروہاں نیٹو کی موجودگی روس کے لیے سیکیورٹی رسک ہی تھی۔یوکرائن میں نیٹو کی توسیع پسندی کی کامیابی کی صورت میں یہ عمل یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مغربی سامراج قفقاز اور کیسپین کے خطے کو بھی اپنے حلقہ اثر میں لانے کی کوشش کرے گاتاکہ وہاں موجود توانائی کے بڑے ذخائر پر قبضہ کرسکے۔ یوں یوکرائن کی جنگ دراصل اسی بربریت کو دہرانے کی کوشش ہے جو ہم افغانستان، عراق، لیبیا اور پھر شام میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

یوکرائن پر روس کا حملہ

فروری 2022ءکے اواخر میں روس کی مداخلت اور کمک سے مشرقی یوکرائن میں بننے والی لوہانسک پیپلز ریپبلک اور دونتسک پیپلز ریپبلک کو روس نے رسمی طور پر قبول کرلیا۔ اس کے علاوہ یوکرائنی فوج کی ڈومباس میں روسی بولنے والوں کے قتل عام (2014ءکے بعد کیف میں بننے والی فاشسٹ حکومت کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ان دعوﺅں کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا) کو روکنے کے نعرے کی بنیاد پر روس نے یوکرائن پر فوجی حملہ کردیا۔ بالآخر آٹھ سال کی سفارتکاری ناکام ہوئی۔ اس دوران روس کا امریکہ اور مغرب سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ یوکرائن کو نیٹو کا ممبر نہ بنایا جائے اور یوکرائنی حکومت اس بات کی گارنٹی دے کہ وہ کبھی بھی نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا۔ امریکہ نے واشگاف الفاظ میں روس کے اس مطالبے کو بار بار مسترد کیا۔ مغربی کارپوریٹ میڈیا نے روسی حملے کو ”پہلا تھپڑ کس نے مارا“ کے مصداق اس ساری صورت حال کا ذمہ دار روس کو ٹھہرایا۔ جبکہ مشرق کی جانب نیٹو کی پیش قدمی اور یوکرائن میں نیٹو کی موجودگی اور پوری یوکرائنی ریاست پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قبضے اور ان کی پالیسیوں کو ترتیب دینے کی حقیقت پر مکمل چھپ سادھ لی۔ بحیثیت مارکسسٹ ایک عمومی اصول کے طور پر دونوں اطراف رجعتی ہیں ۔ نہ پیوٹن کی ریاست ترقی پسند ہے اور نہ ہی نیٹو کا مشرق کی جانب پھیلاﺅ ترقی پسند عمل ہے۔ لیکن حقائق کو اسی انداز میں پیش کرنا ہمارا فریضہ ہے جس طرح وہ رونما ہو رہے ہیں۔ جنگ کی بنیادی وجہ نیٹو اور مغربی سامراج کی جانب سے روس کے تاریخی حلقہ ہائے اثر میں تین دہائیوں سے مداخلت کا اپنے عروج یعنی یوکرائن پر قبضہ تھا۔ نیٹو نے خطے میں روس کے ساتھ اپنی جنگ میں طاقتوں کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ جس کا لازمی نتیجہ ایک بڑی جنگ کی صورت اختیار کرنا ایک فطری عمل تھا۔بنیادی اشتعال انگیزی نیٹو کی جانب سے کی گئی جس کے جواب میں روسی رد عمل ایک فطری امر تھا۔ لیکن تمام تر مغربی میڈیا منافقانہ انداز میں معاملے کو روسی آمریت اور ”جمہوری یوکرائن“ کے درمیان جنگ قرار دے رہے ہیں۔

آئی ایس ایل کا یوکرائن جنگ پر موقف اور سامراجی دلالی

حال ہی میں آئی ایس ایل کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے آرٹیکلز سے ان کی جنگ کے بارے میں لاعلمی اور رد انقلابی پوزیشن واضح ہوتی ہے۔سب سے پہلے تو 2014ءکی رد انقلابی تحریک اور واقعات کی تشریح ہی ان کی سیاسی وابستگی اور سامراجی دلالی کو واضح کرتی ہے۔ آئی ایس ایل کی تاسیس کی سرخیل تنظیم ارجنٹائن کی ایم ایس ٹی نے 2014ءمیں یورومیدان انقلاب کو بھرپور سپورٹ کیا اور اسے ایک جمہوری تحریک قرار دیا۔ انہوں نے یوکرائن میں عالمی طاقتوں کی اثر و رسوخ کی جنگ ، پراکسی وار اور ان واقعات پر ان کے اثرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ 7فروری 2014ءکو یوکرائن کے واقعات پر ایم ایس ٹی کے ایک آرٹیکل کا عنوان تھا: ”یوکرائن: عظیم جمہوری انقلاب جس نے یانووکوچ کی حکومت کو ہوا میں معلق کردیا“۔ آرٹیکل میں مزید لکھا گیا، ”اس جبر کے رد عمل میں ایک حقیقی جمہوری انقلاب نے جنم لیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم اپنی کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھااور صدر کے استعفے کا بھی امکان ہے جو پوری سیاسی حکومت کو نقصان پہنچا سکتی ہے“۔”اتنی دور سے بھی ہمیں عوامی تحریک کو مزید تیز کرنا چاہیے جو اپنی تمام تر کنفیوژن کے باوجود ایک ناقابل شکست جمہوری انقلاب کر رہے ہیں جو اپوزیشن کی اولیگارشی اور ان کے فاشسٹ گینگ کا مقابلہ کر رہی ہے۔“ سوال یہ ہے کہ کون کس اپوزیشن اولیگارشی اور ان کے فاشسٹ دستوں کا مقابلہ کر رہی تھی؟ حقیقت یہ ہے روس نواز حکومت کے خلاف تمام مسلح کاروائیاں فاشسٹ دستے کر رہے تھے اور تحریک کی قیادت ہی مغرب نواز اولیگارشی کے اپوزیشن کے سیاسی نمائندوں کے ہاتھوں میں تھی۔ اسی آرٹیکل میں 2013ءکی ترکی کی تکسیم اسکوائر کی تحریک کو بھی جمہوری انقلاب کہا گیا۔ ایم ایس ٹی کی جانب سے ہر تحریک کو جمہوری انقلاب اور بورژوا جمہوریت کے ساتھ رومانویت کی حد تک شغف ایک تاریخی مسئلہ ہے جس پر اس تحریر میں آگے روشنی ڈالی جائے گی۔

آئی ایس ایل موجودہ جنگ کو اسی انداز میں دیکھتی ہے جس طرح بی بی سی اور کارپوریٹ میڈیا کے دیگر نمائندے دیکھتے ہیں اور جنگ کی اصلیت کو واضح کرنے کی بجائے اسے کنفیوز کرکے امریکی سامراج کی بلواسطہ خدمت کر رہی ہے یعنی علت اورمعلول کو گڈمڈ کرکے نیٹو کے موقف کو عوامی حمایت دلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ روس کے حملے کو بنیادی ”علت“ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ نیٹو کی مداخلت کو معلول یا ثانوی عامل ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آئی ایس ایل کے سربراہ الاندرو خود اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں ”آج چونکہ کوئی اعلانیہ عالمی جنگ نہیں ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ آنے والے دنوں میں ایسا ہوگا بھی یا نہیں‘ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ جارحیت کے شکار قوم کی حمایت کریں“ ”امریکی اور یورپی سامراج نے محتاطانہ انداز میں اپنی فوجوں کے ساتھ مداخلت نہیں کی اور نہ ہی روس نے اب تک کسی نیٹو رکن کی جانب پیش قدمی کی ہے۔ اس لیے اس وقت اس جنگ کو سامراجی ممالک کی باہمی جنگ قرار دینا اور یوکرائنی مزاحمت کی حمایت نہ کرنا ایک غلطی ہوگی“۔بائیں بازو کے تمام رجحانات میں شاید ہی کہیں اس جیسا احمقانہ سطحی تجزیہ اور سامراجی چاپلوسی ملے۔

ایک طرح سے جنگ کو اخلاقیات کی بنیاد پر تشریح کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ٹھیک ہے نیٹو کی مشرقی یورپ میں مداخلت ہے لیکن روس نے حملہ ہی کیوں کیا۔ اسے نیٹو کی جانب سے مشرق کی جانب پیش قدمی اور تمام تر اشتعال انگیزی کے باوجود ”صبر“ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ! بظاہر وہ جنگ کی دہری نوعیت کو قبول کرتے ہیں لیکن وہ صرف لفاظی کی حد تک ہے۔جب کوئی جنگ کی بنیادی وجہ کو ہی کنفیوز کردے اور تمام تر ذمہ داری روس پر ڈال کر نیٹو اور امریکی سامراج کی دہائیوں سے اشتعال انگیزی اور روس کے گھیراﺅ کی پالیسی کو نظر انداز کردے تویہی وہ مقام ہے جہاں آئی ایس ایل مارکسزم کا نام لے کر سامراجیت کی توسیع پسندی کو بائیں بازو کا غلاف چڑھاتی ہے۔ وہ نیٹو کی روس کے خلاف اس جنگ کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں اور” روس کی شکست“ ان کا بنیادی نعرہ ہے۔ آئی ایس ایل کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان کے ”کامریڈز“ فرنٹ لائن پر روسی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یوکرائنی فوج انقلابی اور لیفٹسٹ ہیں۔

جنگ کی نوعیت کی غلط تشخیص کے بعد تمام تر رد انقلابی، رجعتی اور سامراج نواز پوزیشن لینا ایک لازمی اور فطری نتیجہ ہے۔ آئی ایس ایل کا بنیادی نعرہ وہی ہے جو نیٹو کا ہے یعنی ”روس کو شکست دو“۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جنگ میں روس کی شکست سے انقلابات برپا ہونگے اور روس کے اندر محکومت قومیتوں کو آزادی ملے گی۔ ان کے نزدیک جنگ میں بنیادی فریق ظالم اور حملہ ور روس اور مظلوم و محکوم یوکرائن ہے جبکہ نیٹو اور مغربی ممالک کی مشرقی یورپ میں مداخلت اور روس کا گھیراﺅ ثانوی چیزیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’ظالم‘ روس کو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہمیشہ سے ہی نیٹو اور امریکی سامراج کا مقصد رہا ہے۔ چیچن بنیاد پرستوں (جن کو پاکستان کی اُس کی وقت کی میڈیا میں چیچن جانباز کہا جاتا تھا) کی جانب سے علیحدگی کی مسلح کاروائیاں اور خانہ جنگی اسی سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے روس کو معاشی طور پر مستحکم کیا اوراس استحکام کی بنیاد پر نہ صرف اس علیحدگی کی مسلح تنظیموں کو کچلا بلکہ جارجیا پر بھی حملہ کرکے اسے نیٹو میں شمولیت سے روکا۔ دوسری طرف ’مظلوم‘ یوکرائن ہے جو امریکی سامراج کی ایک دم چھلہ ریاست ہے۔ نیٹو اپنے تمام ترعسکری سازو سامان کے ساتھ وہاں موجود ہے۔ ایک نیو فاشسٹ ریاست جو وہاں دیگر محکوم قومیتوں (بالخصوص روسی بولنے والوں) کو کچل رہا ہے۔ مغربی یوکراین میں آباد روسیوں کو زبردستی نکالا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس جنگ میں عام یوکرینی شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں لیکن یہ قطعاً سامراجی کیمپوں میں شمولیت کرکے ان کا آلہ کار بننے کا جواز نہیں ہے۔

آئی ایس ایل سربراہ اپنی سامراجی گماشتگی کو درست ثابت کرنے کے لیے 1937ءمیں چین پر جاپان کی جارحیت کی مثال دے کر ٹراٹسکی کا بھی حوالہ دیتا ہے حالانکہ جاپان اور چین کی جنگ کی صورت حال آج کی جنگی صورت حال اور جنگ کی محرکات سے بہت مختلف تھی۔ اُس وقت جاپان ایک سامراجی طاقت تھا جس نے اپنے سامراجی عزائم اور سلطنت کی وسعت کے لیے چین پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے خلاف چیانگ کائی شیک کی قوم پرست فوج اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے مل کر لڑائی لڑی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے ماحول کی وجہ سے امریکہ نے بھی اس جنگ میں قدم رکھا اور جاپان کے خلاف چین کی عسکری کمک کی۔ جنگ کو شروع کرنے والا خودجاپان تھا۔ چین کی طرف سے ایسی کوئی اشتعال انگیزی بھی نہیں ہوئی تھی۔ چین اپنی جائز قومی دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا اور اسی وجہ سے ٹراٹسکی نے چین میں انقلابیوں کو جاپان کے خلاف اس دفاعی جنگ میں بھرپور شرکت کی تلقین کی قطع نظر اس چیز کے کہ چین پر قوم پرست چیانگ کائی شیک کی حکومت تھی اور اس کے ہاتھ کمیونسٹوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔

جبکہ یوکرائن کی جنگ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ 2014ءکے بعد یوکرائن نیٹو، امریکی اور یورپی سامراجیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں پر وہ اپنی جدید ترین عسکری ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے جس کو روس نے بجا طور پر اپنی سیکیورٹی کے لیے ایک خطرے سے تعبیر کیا۔ روس کی تمام تر وارننگز کے باوجود نیٹو کی جانب سے اشتعال انگیزی جاری رہی جس کا لازمی نتیجہ روس کے حملے کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ جنگ قطعاً روس اور یوکرائن کی نہیں بلکہ روس اور نیٹو کی ہے۔ برطانیہ یوکرائنی فوجیوں کو برطانیہ میں تربیت دے رہا ہے اور امریکی کانگریس نے پچھلے سال مئی میں یوکرائن کے لیے 50اَرب ڈالر کی عسکری امداد کی منظوری دی تھی۔ امریکہ اور مغرب اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ روسی فوج کی مختلف علاقوں سے پس قدمی اور بڑے پیمانے پر نقصانات نیٹو کی عسکری کمک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

آئی ایس ایل کا ”روس کو شکست دو“ کا نعرہ انتہائی مجرد تاریخی تمثیل یعنی ”جنگیں انقلابات کی دایہ ہوتی ہیں“ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ان کے مطابق روس کی شکست کے نتیجے میں روس میں محنت کشوں اور محکوموں کی تحریکیں نکلیں گی اور پیوٹن کے اقتدار کا خاتمہ کرے گی۔ لیکن اس تناظر کی تمام تر بنیاد جنگ کی نوعیت کی غلط تشخیص اور خوش فہمیوں پر ہے۔ سب سے پہلے تو روس کی شکست کی صورت میں یوکرائن میں ایک نیو فاشسٹ حکومت کی موجودگی کی وجہ سے یوکرائن میں فاشسٹوں اور دائیں بازو کی قوتوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔ محکوم قومیتوں بالخصوص روسی زبان بولنے والوں کے نسلی قتل عام کے قوی امکانات ہیں۔ حتیٰ کہ جنگ سے پہلے بھی روسی زبان پر مکمل پابندی لگ چکی تھی اور ان کے قتل عام کی رپورٹیں مسلسل آتی رہی ہیں۔ اپریل 2022ءمیں یوکرائنی صدر زیلینسکی نے اعلان کیا تھا کہ جنگ میں یوکرائن کی فتح کے بعد یوکرائن کو نیا اسرائیل بنایا جائے گا۔ امریکی اور مغربی سامراج کو چیلینج کرنے والی (اگرچہ انقلابی بنیادوں پر نہیں) ایک بڑی طاقت کی شکست عالمی سامراج کی عالمی بدمعاشی کو ایک نئی جلا بخشے گی اور ان کا اگلہ نشانہ چین ہوگا۔ شکست خوردہ روس میں حکمرانوں کی باہمی چپقلش ریاست کو کمزور کرے گی جو امریکی سامراج کی خفیہ مداخلت کے راستے کھولے گی۔ ملک میں مذہبی اور قومیتی اقلیتوں کے مسئلوں کو ابھار کر (جیسا کہ ماضی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے کیا تھا) ملک کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ یہ تمام تر واقعات انقلابی اجزا کی بجائے رد انقلابی اور رجعتی اجزا کی حامل ہے۔ ایسے میں روس کی شکست کے لیے لڑنا سامراجی دلالی کے سوائے اور کیا ہوسکتی ہے؟ مارکسسٹ جنگ کے مسئلے پر ایسا پروگرام پیش کرتے ہیں جس سے عوام اور محنت کش طبقے کا شعور بلند ہو، نا کہ وہ پیچھے چلی جائے۔ آئی ایس ایل ”روس کو شکست دو“ کا نعرہ دے کر دراصل مغربی اور نیٹو ممالک میں محنت کشوں کو اپنے اپنے حکمرانوں (جو اِس پراکسی جنگ میں یوکرائن کو عسکری حوالے سے بھرپور کمک دے رہے ہیں) کے ساتھ کھڑا ہونے کی ترغیب دے رہی ہے۔ جنگ میں دونوں اطراف کے معاشی، سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات کو محنت کشوں کے سامنے واضح کرنے کی بجائے موقع پرستانہ نعرہ دے کر محنت کشوں کے شعور کو کند کرکے انہیں سوشل شاﺅنزم کی اندھی کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔

جمہوری انقلاب بمقابلہ انقلاب مسلسل

آئی ایس ایل کی ایک اہم تاسیسی رکن تنظیم ارجنٹائن کی ایم ایس ٹی ہے۔ یہ تنظیم ناہول مورینو کو اپنا نظریاتی گرو مانتی ہے۔ ایم ایس ٹی دراصل ناہول مورینو کی نظریاتی میراث کو ہی آگے بڑھا رہی ہے۔ مورینو چوتھی انٹرنیشنل کا ایک ٹراٹسکسٹ تھا جس کی سیاسی زندگی موقع پرستی اور مہم جوئی کی دو انتہاﺅں کے بیچ جھولتی رہی۔ ناہول مورینو کی سیاسی روایت سے تعلق رکھنے والی تمام تر تنظیمیں ٹراٹسکی کے نظریہ انقلاب مسلسل کو ترک کرکے منشویزم کے مرحلہ وار انقلاب کے نظریے سے بھی ایک قدم پیچھے چلی گئی ہیں۔ انقلاب مسلسل کے نظریے کی بجائے ناہول مورینو نے جمہوری انقلاب کا نعرہ بلند کیا۔اس نظریے کا لب لباب یہ ہے کہ فوجی آمریتوں اور فسطائی حکومتوں کے خلاف پہلی لڑائی جمہوری انقلاب برپا کرنا ہے۔ جمہوری انقلاب سے مورینو کی مراد سماجی مرحلہ واریت نہیں بلکہ صرف سیاسی بالائی ڈھانچے کی تبدیلی ہے یعنی فوجی آمریت کی جگہ ایک بورژوا جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ ناہول مورینو نے جمہوری انقلاب کے اس نعرے کو انتہائی بھونڈے انداز میں ٹراٹسکی کے سوویت بیوروکریسی کے خلاف سیاسی انقلاب کے نعرے سے اخذ کیا ہے۔سوویت یونین میں سٹالنسٹ بیوروکریسی کے بارے ٹراٹسکی کا تجزیہ یہ تھا کہ بے شک روس میں سرمایہ داری کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ذرائع پیداوار کی ملکیت محنت کش طبقے کے پاس ہے لیکن سٹالنسٹ سیاسی رد انقلاب کی وجہ سے سیاسی اقتدار محنت کش طبقے کے پاس نہیں ہے بلکہ بیوروکریسی کے پاس ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ذرائع پیداوار کی سماجی ملکیت اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی بقا کے لیے لازمی ہے کہ روس میں بیوروکریسی کے سیاسی اقتدار کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لانے کے لیے سیاسی انقلاب برپا کیا جائے۔ ناہول مورینو نے انتہائی احمقانہ انداز میں ٹراٹسکی کے اسی پروگرام کوفوجی آمریتوں اور فسطائی حکومتوں کے شکار بورژوا ریاستوں پر منطبق کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا، ” ٹراٹسکی نے جس چیز کا ذکر نہیں کیا (اگرچہ اس نے سٹالنزم اور فاشزم کے درمیان موازنہ کیا تھا) وہ یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی سیاسی حکومتوں کی تبدیلی کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے یعنی فاشزم کو ختم کرکے بورژوا جمہوریت میں حاصل آزادیاں حاصل کی جائیں‘ بے شک یہ بورژوازی کی سیاسی حکومتوں اور ریاست کی حدود میں ہی ہوں۔ بالخصوص سوشلسٹ انقلاب کی جانب پہلے قدم کے طور پر فاشسٹ آمرانہ حکومت کے خاتمے کے لیے اس نے جمہوری انقلاب کا نعرہ نہیں دیا۔ وہ فاشسٹ آمریت کے خاتمے کے لیے جمہوری انقلاب کی ضرورت کو سمجھ نہیں سکا اور اس سنجیدہ نظریاتی مسئلے کو ابہام میں چھوڑ دیا۔“ (ناہول مورینو، بیسوی صدی کے انقلابات، 1986)

حقیقت یہ ہے کہ مورینو کے ان دعوﺅں کے برعکس ٹراٹسکی نے بہت عرصہ پہلے بورژوا سیاسی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلی کے مسئلے کو واضح کیا تھا، ”کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اٹلی اب دوبارہ کچھ عرصے کے لیے پارلیمانی نظام یا جمہوری ریپبلک کی طرف نہیں جاسکتی؟میرا خیال ہے کہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ عمل کسی بورژوا انقلاب کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک پرولتاری انقلاب کے اسقاط حمل (جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اور اپنے منطقی انجام تک پہنچایا نہیں جاسکا) کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔ ایک وسیع انقلابی تحریک اور عوامی جدوجہد کے دوران اگر پرولتاری ہر اول دستہ طاقت پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو بورژوازی اپنی اقتدار کو ’جمہوری‘ بنیادوں پر بحال کرسکتی ہے“۔ ”کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ جرمن جمہوریہ ایک بورژوا انقلاب کی دین ہے؟ یہ احمقانہ سوچ ہوگی۔ جرمنی میں 1918-19ءمیں پرولتاری انقلاب ہوا تھا جو قیادت کے فقدان کی وجہ سے کچل دیا گیا۔ پرولتاری انقلاب کے کچلے جانے کے بعد بننے والے حالات کی وجہ سے بورژوا انقلاب کو مجبوراً پارلیمانی جمہوری ریپبلک کا روپ دھارنا پڑا“۔
(Leon Trotsky. A letter on the Italian revolution, May 1930)

بیسوی صدی کے دوسرے نصف میں امریکی سامراج کی حواری آمرانہ اور فسطائی ریاستوں کو پے در پے محنت کشوں اور محکوموں کی سرکشیوں اور انقلابات کا سامنا تھا۔ ان انقلابات کو سرمایہ داری کے خاتمے پر منتہج ہونے سے روکنے کے لیے سامراج نے جمہوری انقلاب کے نعرے کو مقبول عام بنا دیا جس کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کی حفاظت اور صرف بالائی سیاسی ڈھانچوں میں کاسمیٹک تبدیلی یعنی فوجی آمریت کی جگہ بورژوا پارلیمانی جمہوریت قائم کرنا تھا تاکہ بالادست طبقات کی حکمرانی اور ان کی ملکیت محفوظ رہے۔ ناہول مورینو نے جمہوری انقلاب کا نعرہ لگا کر دراصل عالمی سطح پر امریکی سامراج کی انقلابات کو جمہوری رد انقلاب کے ذریعے کچلنے کے رجعتی عزائم کو بائیں بازو کی حمایت فراہم کی۔ محکوموں ، محنت کشوں اور غریب کسانوں کی سرمایہ داری کے خلاف تحریکوں کو عالمی کارپوریٹ میڈیا اور ان کے زر خرید دانشوروں نے ہمیشہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کا نام دیا ہے اور جان بوجھ کر ان تحریکوں کی ملکیتی رشتوں کو اکھاڑ پھینکنے کے کردار کو چھپایا ہے حالانکہ اس طرح کی تمام تر تحریکوں میں مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے کیے اور کسانوں نے جاگیروں کو اپنی تحویل میں لیے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں فرانس، پرتگال، سپین، پاکستان، ایران، انڈونیشیاوغیرہ میں چلنے والی تحریکوں میں محنت کشوں نے رائج الوقت ملکیتی رشتوں کو چیلنج کیا۔ ان سب تحریکوں کا کردار واضح طور پر سوشلسٹ تھا۔ جسے مورینو اسٹ گروپوں نے بے شرمی سے جمہوری انقلابات کا نام دے کر امریکی سامراج کی دلالی کی۔ ایک بات واضح رہے کہ مورینو کا جمہوری انقلاب سٹالنسٹ جمہوری انقلاب سے بھی زیادہ رجعتی ہے کیونکہ سٹالنسٹ کم از کم بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض کی تکمیل کی بات کرتے ہیں جبکہ مورینو صرف پارلیمانی جمہوریت کے قیام کی بات کرتے ہیں یعنی صرف آمریت کی جگہ ایک پارلیمانی جمہوریت۔ اسی بنیاد پر مورینو کی موت کے بعد مورینو اسٹ انٹرنیشنل ورکرز لیگ نے سوویت یونین کے انہدام کا جشن منایا اور اسے ایک ”جمہوری انقلاب“ کا نام دیا۔

بات یہی پر ختم نہیں ہوتی۔ پچھلی دو دہائیوں میں امریکی سامراج نے تمام تر ناپسندیدہ ریاستوں میں اپنے زر خرید گماشتوں کے ذریعے کَلر ریولوشن، اورینج ریولوشن اور دیگر اقسام کے انقلابات کو جمہوریت کے نام پر آگے بڑھایا ہے تاکہ ان ریاستوں میں اس طرح کی محلاتی تحریکوں کے ذریعے اپنی مرضی کی ’جمہوری‘ حکومتیں قائم کی جائے۔ اس کی سب سے اچھی مثال یوکرائن میں 2014ءکی نام نہاد یورومیڈن انقلاب تھا۔ حسب روایت مورینو اسٹ رجحان کی حامل ارجنٹینا کی ایم ایس ٹی نے اس سامراجی سازش کو ”عظیم جمہوری انقلاب“ کا نام دیا جس کا ذکر پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔ ایم ایس ٹی نے لیبیا پر نیٹو کی بمباری کو جمہوری انقلاب اور آمریت کے خلاف جنگ کے نام پر بھرپور حمایت دی۔ اسی طرح شام میں سامراجی مذہبی پراکسیوں کو انقلابی گردانا۔ تمام تر مورینو اسٹ رجحانات اور گروہ ایک ہی نظریاتی لائن پر چلتے ہیں۔ انٹرنیشنل ورکرز لیگ ایف آئی نے افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت طالبان کے بارے میں لکھا تھا، ”یہ افغان عوام کی سامراجیت کے خلاف ایک ترقی پسند جدوجہد تھی اور ہم نے اس کی حمایت کی۔ تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ طالبان کا بورژوا کردار اسے سامراج کے خلاف جدوجہد کو مکمل کرنے نہیں دے گی“۔ مورینو اسٹ تنظیموں کی وجہ سے بہت سی سٹالن اسٹ پارٹیاں آج بھی ٹراٹسکسٹ تنظیموں کو امریکی سامراج اور سی آئی اے کی بی ٹیم کہتے ہیں۔

آئی ایس ایل کا پاکستانی سیکشن

آئی ایس ایل کا پاکستانی سیکشن دراصل ”طبقاتی جدوجہد“ سے نکالا گیا وہ ٹولہ ہے جنہوں نے اپنے مخصوص گروہی مفادات کی خاطر آئی ایس ایل میں تمام تنظیمی دستور کو بالائے طاق رکھ کروارداتی شمولیت کی تھی اور اسی طرح کی انتشاری اور تخریبی سرگرمیوں کی پاداش میں اس ٹولے کو ”طبقاتی جدوجہد“ سے بے دخل کردیا گیاتھا۔ پاکستان کی بائیں بازو میں مورینو اسٹ رجحان نے شاید پہلی بار سرائیت کی ہے۔ اس سے پہلے شاید ہی بائیں بازو میں اس طرح کی رد انقلابی اصلاح پسندی، سامراجی گماشتگی اور ریاستی دلالی دیکھنے میں آئی ہو۔نظریاتی اور سیاسی طور پر بانجھ یہ سیکشن آئی ایس ایل میں شامل ہونے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ماضی میں وینزویلا سے متعلق اُن کی پوزیشن ’لاعلمی‘ کی وجہ سے غلط تھی‘ اب چونکہ ونیزویلا میں آئی ایس ایل کا ایک سیکشن ہے‘ اُن کی معلومات کے مطابق صورت حال ویسی ہے نہیں جیساکہ ہمیں پہلے بتایا گیا‘ اس لیے ونیزویلا پر ہمیں اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ دراصل مورینو اسٹ نظریات کی حامل تمام ٹراٹسکسٹ تنظیمیں اپنی’ فنی خرابی‘ کی وجہ سے امریکی سامراج کی پوزیشن پر چلتے ہوئے دنیا میں تمام تر تنازعوں کو جمہوریت اور آمریت کے درمیان جنگ کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ ونیزویلا میں نکولاس مادورو کی سامراج مخالف حکومت کو آمریت جبکہ سی آئی اے کی تخلیق کردہ اپوزیشن لیڈر گوائیڈو کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتی ہے۔

یوکرائن جنگ کے مسئلے پر ان کی پاکستانی قیادت کھل کر نام نہاد ”یوکرائنی مزاحمت“ کی حمایت کرتی ہے اس حقیقت کو کو خاطر میں لائے بغیر کہ یہ نام نہاد مزاحمت کون کر رہا ہے اور کیا واقعی یہ یوکرائن کی دفاعی جنگ ہے؟ اس پاکستانی قیادت کی سیاسی اور نظریاتی کھوکھلے پن کی حالت ان کے اس جملے سے واضح ہوتی ہے، ”یوکرائن کے نیٹو کی طرف جھکاﺅ سے روسی جارحیت کا جواز نکالنے والی پوزیشن وہی ہے جو طالبان کی دہشت گردی کو امریکی جارحیت کا جواز بتاتی ہے“۔ کسی بھی قسم کے سنجیدہ سیاسی تجزیے اور آزادانہ موقف اپنانے کی اہلیت سے محروم یہ قیادت طوطے کی طرح انہی جملوں کو بار بار رٹتی رہتی ہے جو آئی ایس ایل کے موقع پرست لیڈر الاندرو نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔ایک حالیہ میٹنگ میں آئی ایس ایل کی پاکستانی قیادت نے ان الفاظ میں نام نہاد ’یوکرائنی مزاحمت‘ کا دفاع کیا، ”ایک ظالم ملک (روس) نے ایک مظلوم ملک (یوکرائن) پر حملہ کیا ہے۔ بحیثیت ’مارکسسٹ‘ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم مظلوم کا ساتھ دیں“۔اس کے ساتھ ہی اس نے جنگ کے اوپر لینن کی ڈیفیٹسٹ پوزیشن کا بھی مذاق اڑایا حالانکہ اس طرح کی پراکسی جنگ میں لینن کی یہ حکمت عملی پہلے سے زیادہ قابل عمل ہے۔ پیچیدہ عالمی منظر نامے کو اتنی سادگی اور سرسری انداز میں دیکھنا بھی مورینو اسٹ رجحانات کا اعزاز رہا ہے۔ مارکس کے بقول اگر چیزوں کی ظاہری اور باطنی کیفیت میں کوئی فرق نہ ہوتا تو سائنس کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

یوکرائن میں امریکی سامراج نے روس کے خلاف جہاں پورے یورپ سے سفید فام نسل پرستوں کے مسلح دستوں کو اکٹھا کیا ہے وہیں شام اور عراق سے داعش اور النصر ہ فرنٹ کے انتہاپسندوں کو بھی فرنٹ لائن پر روس کے خلاف بھیجا جا رہا ہے۔ تمام اقسام کے اسلامی بنیاد پرستوں کا خالق بہرحال امریکہ اور سی آئی اے ہے۔ ان تنظیموں کی امریکہ کے ساتھ مختلف علاقائی معاملات کے حوالے سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن یہ گروہ اپنی معاشی لائف لائن یعنی منشیات کی عالمی ترسیل کے لیے پھر امریکہ اور سی آئی اے کی عالمی نیٹ ورک کے دست نگر ہیں۔ اس لیے آخری تجزیے میں ان ساری بنیاد پرست تنظیموں کو امریکہ کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ ، جو ان تمام تنظیموں کو اپنے اسٹریٹجک اثاثے مانتی ہے اور ان کی تمام تر کالی معیشت کا ضامن ہے، یوکرائن کی اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے ان تنظیموں کو یوکرائن کی جنگ میں بھیجنے کے لیے راستے دیئے جا رہے ہیں اور ان تمام بنیاد پرست گروپوں کو یوکرائن میں امریکہ کی نمک حلالی کا موقع دیا جا رہا ہے۔

ایسے میں آئی ایس ایل کے پاکستانی سیکشن کا کھل کر یوکرائن کی نام نہاد مزاحمت کا دفاع کرنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جہاں عالمی سطح پر مورینو اسٹ رجحانات ہمیشہ امریکی سامراج کی بی ٹیم رہی ہیں‘ وہیں پاکستانی مورینو اسٹ اس جنگ کے پس منظر میں مزید گر کر پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ اور ان کی بغل بچہ تنظیموں لشکر جھنگوی، طالبان اور ان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے