بیتھوون: انقلاب کا موسیقار

مائیکل رابرٹس

تلخیص و ترجمہ: سعید خاصخیلی

اس سال بیتھوون کا دو سو پچاسواں جنم دن منایا جا رہا ہے۔ وہ غالباً 1770ء میں دسمبر کی سولہویں یا پھر سترہویں تاریخ کو پیدا ہوا تھا۔ بشمول بیتھوون کے کوئی بھی اس کی جنم کی تاریخ کے بارے میں یقین سے نہیں بتا سکتا۔ بیتھوون کو کلاسیکل موسیقی کا سب سے بڑا انقلابی موسیقار مانا جاتا ہے اور میرے خیال میں یہ تاریخ کا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ کیونکہ بیتھوون اس عہد کی ہی پیداوار تھا۔

بیتھوون ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا جسے یورپ میں روشن خیالی کا عہد کہا جاتا ہے۔ جب یورپی فلسفے نے مذہبی تصورات اور بادشاہت سے اپنے تعلقات جھٹکتے ہوئے آزادانہ سوچ، سائنس اور جمہوریت سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ اس وقت آزادانہ تجارت اور مقابلہ بازی پر مبنی نئے معاشی نظام کے دھندلے آثار نمودار ہونا شروع ہوچکے تھے۔ جب آدم سمتھ کی کتاب ”قوموں کی دولت“ شائع ہوئی تھی اس وقت بیتھوون چھ برس کا تھا۔ امریکہ میں آزادی کی جنگ شروع ہوچکی تھی جس میں برطانوی نوآبادکاروں نے برطانوی بادشاہت کے خلاف بغاوت کر دی اور فرانس سے مالی و عسکری امداد حاصل کر کے ووٹ کے حق کے ساتھ عوامی جمہوریہ کا قیام عمل میں لائے۔

میرے خیال میں بیتھوون کی موسیقی کی تخلیق کے سفر میں جو نشیب و فراز آئے وہ اسی انقلابی عہد کی کبھی تیز ہوتی ہوئی ہلچل اور کبھی پسپائی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اور یہ سلسلہ اس کی زندگی کے آخری دن تک جاری رہا۔ خاص طور پر فرانسیسی انقلاب کی پیش قدمی اور پسپائی نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہی انقلاب جس نے بادشاہت اور جاگیرداری کا خاتمہ کر کے تمام لوگوں کی برابری، آزادی اور بھائی چارے کا اعلان کیا تھا۔ نوعمری سے ہی یورپ کے دوسرے عام نوجوانوں کی طرح بیتھوون فرانسیسی انقلاب کا بہت بڑا حمایتی رہا تھا۔

بیتھوون ایک فلیمش خاندان کے موسیقار کا بیٹاتھا۔ اس کا باپ جوہان جرمنی کے شہر بون میں آرچ بشپ الیکٹر کے دربار میں ملازم تھا۔ بیتھوون نے پہلی بار محض سات سال کی عمر میں عوامی اجتماع میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ جس کے بعد 1792ء میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے ویانا بھیجا گیا۔ جہاں جوزف ہیڈن جیسے استاد، جس نے موزارٹ (جو ایک سال پہلے ہی پینتیس سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا) کے ساتھ مل کر اس شہر کی موسیقی کی روایات کو جدید بنایا اور نئے رجحانات متعارف کروائے تھے، نے اس کی تربیت کی۔

ویانا اس وقت ہیپس برگ کی مطلق العنان بادشاہت کے ماتحت تھا۔ لیکن بیتھوون کو نیپولین کے آزادی کے تصورات نے جکڑ ا ہوا تھا۔ وہ عوامی راج کا ایک سخت گیر حمایتی بن چکا تھا۔ اپنے خطوط اور بحث مباحثوں میں وہ تسلسل کے ساتھ آزادی کی اہمیت پر زور دیتا رہتا تھا۔ اس کے آگے بادشاہت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اپنے پہلے سرپرستوں میں شامل پرنس کارل لکنووسکی کے بارے بیتھوون نے لکھا: ”پرنس، تم جو کچھ ہو اپنی پیدائش کے اتفاق کی وجہ سے ہو۔ اور میں جو کچھ ہوں اپنی محنت سے بنا ہوں۔“ آسٹریا کے بادشاہ فرانز دوئم نے بیتھوون سے اس بنیاد پر قطع تعلقی کا اظہارکیا تھا کہ ”اس کی موسیقی میں انقلاب رچا بسا ہوا ہے۔“ اور 1812ء میں جرمنی کے عظیم مصنف گوئٹے سے بیتھوون کی دوستی اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب وہ دونوں ایک پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے اور ان کا سامنا آسٹریا کی رانی سے ہوا۔ گوئٹے نے رانی کی تعظیم میں اپنا سر جھکا لیا جبکہ بیتھوون نے حقارت سے منہ موڑ لیا۔

یہی انقلابی جوش ہمیں بیتھوون کی تخلیق میں بھی نظر آتا ہے۔ اس نے اپنی موسیقی کو بھی اس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ اس نے جرمنی کی ادبی منظرنگاری کی شاعرانہ طاقت کو فرانس کے انقلابی گیتوں اور ترانوں کے ساتھ جوڑا۔ جس کو پہلے موسیقی سمجھا جاتا تھا بیتھوون نے اس کی روح کو ہی بدل دیا۔ ”بیتھوون فرانسیسی انقلاب کا دوست اور اس کا ہم عصر ہے۔ وہ اس کے ساتھ تب بھی وفادار رہا ہے جب جیکوبن آمریت کے دوران شلر جیسے کمزور اعصاب کے حامل انسانیت پسند لوگ اس سے الگ ہوگئے تھے اور تھیٹر کے اسٹیج پر گتے کی تلواروں سے جابروں کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ بیتھوون، وہ عوامی جینئس، جس نے فخر سے بادشاہوں، شہزادوں اور امرا سے منہ پھیر لیا۔ یہ بیتھوون ہے جس سے ہم اس کی ناقابل تسخیر امید، پرزور افسردگی، پرجوش جدوجہد اور اس فولادی ارادے کی وجہ سے محبت کرتے ہیں جو اسے مقدر کو گلے سے دبوچنے کے قابل بناتا ہے“ (ایگور اسٹراونسکی)۔ بیتھوون نے وہ اصول تبدیل کر دیے جن کی بنیاد پر موسیقی تخلیق کی جاتی تھی اور سنی جاتی تھی۔ اس کی موسیقی سکون نہیں دیتی بلکہ لرزا دیتی ہے، بے چین کر دیتی ہے۔

میری رائے کے مطابق بیتھوون کی موسیقی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جو اس کی زندگی میں ہونے والی معاشی اور سماجی ہلچل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کا عہد تین عظیم بورژوا انقلابات کا عہد تھا: برطانیہ میں صنعتی انقلاب، فرانس میں سیاسی انقلاب اور جرمنی میں فلسفے کا انقلاب۔ اس کی زندگی کا پہلا دور، جب وہ نوعمر تھا اور پھر جوان ہوا، یورپ میں انقلاب کے ابھار کا دور تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سرمایہ دارانہ ترقی اور نئے معاشی ابھار کا بھی عہد تھا۔ فرانس کا انقلاب جب بامِ عروج کو پہنچا ہوا تھا اور انقلابی جیکوبنوں نے 1792ء میں ریاستی انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ اس وقت بیتھوون کی عمر بائیس برس تھی۔

1792ء سے 1815ء تک اس کی زندگی کا دوسرا دور درحقیقت فرانسیسی انقلاب کی پسپائی کا دور تھا۔ جیکوبنوں کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ انقلابی حکومت کی دفاعی فوج کے ہیرو نیپولین بوناپارٹ نے خود کوآمر نامزد کر دیا تھا۔ لیکن نیپولین کی افواج نے فرانسیسی انقلاب کے نتیجے میں بننے والے قوانین اور خیالات کو پورے یورپ میں متعارف بھی کروایا۔ اٹلی، اسپین، آسٹریا اور پروشیا کی نیم جاگیردارانہ بادشاہتوں کا خاتمہ کیا گیا۔ نیپولین کی فتوحات نے بیتھوون کی نظر میں اس کو دیوتا بنا ڈالا تھا۔

یہی وہ دور تھا جب فنی بلوغت کو پہنچنے ہوئے بیتھوون نے اپنی کچھ شاہکار دھنیں تخلیق کیں۔ اس کی سب سے خاص پانچویں سمفونی (سمفونی مغربی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم صنف ہے: مترجم) انقلابی موسیقی سے سرشار ہے۔ اس سمفونی کی تخلیق کے بارے میں بیتھوون نے کہا تھا کہ یہ ان الفاظ کا اظہار کرتی ہے جو ایک شہید فرانسیسی انقلابی رہنما جین پال مراہ کے لیے لکھے گئے تھے۔ ”ہم وَچن دیتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لیے ہم عوامی جمہوریہ اور انسانی حقوق کے لیے لڑتے ہوئے مریں گے۔“ اس کا واحد اوپرا (یہ بھی موسیقی کی صنف ہے: مترجم) ’فیڈیلیو‘ ایک عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو سپین کی ایک جیل سے اپنے شوہر کو آزاد کروانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ (فرانس کی جگہ سپین کا نام سیاسی وجوہات کی بنا پر دیا گیا تھا۔ ایک سبب بیتھوون کا سپین کی حکومت سے شدید نفرت کا بھی تھا)۔

پانچویں سمفونی کی ہر بار میں ہمیں انقلابی جوش نظر آتا ہے۔ خاص طور پر سمفونی کے ابتدائی باروں جیسا حیران کن آغاز موسیقی کی تاریخ میں کسی بھی دوسری سمفونی میں نظر نہیں آتا۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ سمفونی کے یہ بار‘ ٹیلی گرام کے مورس کوڈ کے ”V“ سگنل سے مطابقت رکھتے ہیں جس کے معنی فتح کے ہیں۔ اسے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے خلاف جدوجہد میں فرانسیسی عوام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ”یہ کوئی موسیقی نہیں ہے، یہ ایک سیاسی مزاحمت ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں وہ جینے کے قابل نہیں ہے۔ آؤ اسے تبدیل کریں۔ آؤ ساتھ چلیں!“ (نکولس ہارنن کوٹ، ایک موسیقار کا پانچویں سمفونی کے بارے اظہار خیال)۔

ایک اور موسیقی کے ماہر اور ارکسٹرا کنڈکٹر جان ایلیٹ گارڈنر نے تحقیق کی ہے کہ بیتھوون کی تمام اہم سمفونیوں کے موضوعات فرانس کے انقلابی ترانوں سے لیے گئے ہیں۔

لیکن وہ عظیم موسیقی کی حرارت کا دور بیتھوون کی بھیانک اور تیزی سے پیچیدہ ہوتی ہوئی بیماری کی وجہ سے ماند پڑ گیا۔ دھیرے دھیرے ختم ہوتی ہوئی قوت سماعت نے اس کے سننے کی صلاحیت کو متاثر کیا۔ یہ تب ہوا جب وہ 28 سال کا تھا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکا تھا۔ اپنی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت زیادہ غیر متوقع، افسردہ، حتیٰ کہ خود کشی کی طرف مائل ہو چکی تھی۔

1805ء سے یورپ کی معیشت بھی بگڑنے لگی تھی۔ جس کی شروعات برطانوی بحری فوج کی جانب سے فرانسیسی فتوحات کی ناکہ بندیوں سے ہوئی۔ برطانوی فوج نے ٹرافلگار کے قریب فتح حاصل کی جس سے اشیائے صرف اور خوراک کی قلت پیدا ہوگئی۔ ان سیاسی واقعات نے بیتھوون کو کافی مایوس کر دیا۔ اس نے اپنی تیسری سمفونی نیپولین کے نام کی تھی لیکن 1802ء کے بعد نیپولین کے بارے اس کی رائے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ اسی سال اپنے ایک دوست کو لکھے گئے خط میں اس نے حقارت سے لکھا:”نیپولین اور پوپ کے درمیان معاہدے کے بعد ہر چیز کا رُخ پرانی، گھسی پٹی اور فرسودہ روایات کی طرف ہو گیا ہے…“ بیتھوون کی نیپولین کے لیے تعریف بالآخر غصے اور ناراضگی میں تبدیل ہوئی جب 1804ء میں نیپولین نے خود کو بادشاہ کا لقب دے دیا۔ جب بیتھوون کو ان واقعات کا پتا چلا تو اس نے غصے میں نیپولین کے نام کی ہوئی سمفونی سے اس کا نام مٹا دیا۔ وہ مسودہ ابھی تک موجود ہے اور ہم اس صفحے کو دیکھ سکتے ہیں جس پر اتنے زور سے قلم پھیرا گیا تھا کہ وہ پھٹ گیا۔ اس کے بعد وہ سمفونی انقلاب کے ایک گمنام ہیرو کے نام کر دی گئی اور آج ایروکا سمفونی کے نام سے مشہور ہے۔

بیتھوون کی فنی زندگی کا تیسرا دور یورپ میں اس عہد کی معاشی گراوٹ اور رد انقلابی کیفیت سے مطابقت رکھتا ہے۔ 1815ء میں نیپولین کی شکست اور یورپ کی پرانی بادشاہتوں کی بحالی نے بیتھوون کو دکھی کر دیا۔ اس دور میں اس نے بہت کم موسیقی تخلیق کی۔ ہر جگہ ترقی پسند سوچ پسپائی کا شکار تھی: رومانوی رجحان کے عظیم شعرا شیلے اور بائرن کو فاتح برطانیہ سے جلاوطن کیا گیا تھا۔ میری شیلے نے اس وقت فرنکسٹائن ناول لکھا جس میں اس عہد میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، نسل پرستی، تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سائنسی صنعتکاری اور ابھرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشت سے نفرت کی روداد بیان کی گئی ہے۔ یہ رومانویت اور انقلابی عہد کا اختتام تھا۔ یہ ریکارڈو جیسے لوگوں کا عہد تھا جو لگ بھگ بیتھوون کا ہم عمر تھا۔ جس نے 1817ء میں سیاسی معیشت اور محصولات کے اصول کے نام سے کتاب لکھی۔ جو بورژوا معیشت اور سرمایہ داری کے حوالے سے اہم کام تھا۔

1816ء تا 1819ء کے سال یورپی عوام کے لیے بھیانک ترین سال رہے۔ اگرکہا جائے تو یہ کورونا وبا کے 2020ء کے سال سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ یورپی معیشت نہ صرف لغوی معنوں میں بلکہ معاشی طور پر بھی مکمل طور پر ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ 1816ء کا سال ”موسم گرما کے بغیر سال“ کے نام سے جانا جاتا ہے (اور ’غربت کے سال‘ کے نام سے بھی)۔ غیر معمولی ماحولیاتی کیفیات کی وجہ سے یورپ میں درجہ حرارت ریکارڈ سطح تک گِر گیا تھا۔ کاشتکاری بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ نتیجتاً خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔ خاص طور پر جرمنی میں بحران شدت اختیار کر گیا۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں پورے یورپ میں تیزی سے بڑھنے لگیں۔ بھوک کے دور میں ہنگامے ایک معمول بن چکے تھے۔ 1816ء اور 1817ء کے پر تشدد ہنگامے فرانسیسی انقلاب کے بعد ہونے والے شدید ترین احتجاج تھے۔ انیسویں صدی میں یورپ کی سرزمین کا یہ بھیانک قحط تھا۔

ویانا کے گھٹن زدہ اور ردانقلابی ماحول اور کچھ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے مایوس بیتھوون نے لکھا:”جب تک آسٹریا والوں کو بیئر اور تھوڑی سی بھی ساسیج میسر ہوگی وہ کبھی بغاوت نہیں کریں گے۔“

بہرحال 1820ء کے بعد بیتھوون کی زندگی کی آخری دہائی میں یورپی معیشت بحال ہونا شروع ہوگئی۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پھیلنے لگا۔ صنعتکاری خاص کر جرمنی اور آسٹریا کی دیہی زندگی کی جگہ لینے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا سرمایہ دارانہ معاشی بحران 1825ء میں آیا لیکن اس کے بعد پہلی پرولتاری جدوجہد کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے جس نے دوبارہ بحال ہونے والی بوربان بادشاہت کا 1830ء میں خاتمہ کیا اور برطانیہ میں 1832ء میں اصلاحات کے قوانین پاس کروائے جن سے پہلی مرتبہ متمول بالغ مردوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا۔

1827ء میں اپنی موت سے پہلے 1824ء بیتھوون نے اپنا آخری شاہکار پیش کیا۔ ایک لمبے عرصے سے بیتھوون کورل سمفونی (کورل سمفونی میں موسیقی کے ساتھ کورس میں گایا جاتا ہے: مترجم) لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے اپنی اس سمفونی کے لیے جرمن شاعر شلر کے ”اوڈ ٹو جوائے“ یعنی ’خوشی کا نغمہ‘سے اشعار لیے۔ اس گیت سے وہ 1792ء سے واقف تھا۔ پہلی مرتبہ یہ گیت 1785ء شائع ہوا تھا جو جرمن جمہوریت پسندوں کے مے نوشی کے گانے سے لیا گیا تھا۔ دراصل شلر اس گیت کا عنوان ”آزادی کا نغمہ“ رکھنا چاہتا تھا لیکن رد انقلابی قوتوں کی جانب سے شدید ردعمل کے باعث اس نے اسے خوشی کے نغمے کا عنوان دیا۔ شلر کے گیت کے وہ الفاظ نوویں سمفونی کا کلیدی حصہ بنے (جسے آج یورپی یونین اپنے ترانے کے طور پر استعمال کرتی ہے)۔

نوویں سمفونی کو انسانیت کا انقلابی ترانہ سمجھا جاتا ہے۔بیتھوون انقلابی امید کی آواز کو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ یہ اس انسان کی آواز ہے جو شکست کو قبول نہیں کرتا۔ جس کا سر افتاد کے سامنے جھک نہیں سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے