غزہ، بارِ دیگر سامراجی و صیہونی نسل پرستانہ جارحیت اور بنیاد پرستانہ دہشت کے پاٹوں میں

تحریر: حمید خان

7 اکتوبر کو حرکت المقاومت الاسلامیہ(حماس) کے سینکڑوں کی تعداد میں جنگجو زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں سے دنیا کو حیران کردینے والے طریقوں سے حملہ کرنے کی غرض سے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان انسانوں کو الگ کرنے والی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ باڑ سے نہ صرف یہ کہ جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے بلکہ وہ اپنے ساتھ ٹریکٹرز اوربلڈوزرز بھی اندر لے گئے۔ اسی حملے کے دوران حماس نے غزہ سے 5000 راکٹ اسرائیلی شہروں پر برسائے۔ اس حملے میں 1000 کے قریب اسرائیلیوں کو قتل کرنے کے بعد حماس کے جنگجو کئی درجن اسرائیلی نوآبادکاروں، انتظامی اہلکاروں اور آفیسران کو اغوا کرکے غزہ لوٹے۔ بنیامین نیتن یاہو نے حماس کے حملے کے جواب میں فوری طور پر جنگی الرٹ کا حکم جاری کیا۔ 360000 ریزرو فوج کو حاضر ہونے، جبکہ170000 باقاعدہ فوج کو زمینی حملے کی تیاری کے احکامات جاری کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ فضائی حملوں کا آغاز کردیا۔ یہ سب کیا اور کیسے ہوا، اس کے ممکنہ نتائج کیا نکل سکتے ہیں زوال پذیر استرداد کے شکار اور تنازعات و بارود سے بھرے نظام زر کے گٹھن زدہ عہد میں مغربی افریقہ اور یوکرین و تائیوان جیسے مسئلوں اور تنازعات کے بیچ میں اس خونی معرکے کے مشرق وسطیٰ، دنیا اور عالمی محنت کش طبقے اور مظلوم و محکوم انسانوں کے شعور پر کیا اثرات مرتب ہونگے یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا انقلابی حکمت عملی کی تشکیل میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔

غزہ سے متصل اسرائیلی سیکیورٹی

غزہ  اور اسرائیل کے بیچ مغربی کنارے تک جدید ٹیکنالوجی سے مزین باڑ  کھڑی کی گئی ہے جس میں شگاف لگانا یا کمند لگا کر پار کرنا ناممکن سمجھا جاتا ہے اس باڑ سے جنوبی اسرائیل کی جانب پورے بارڈر پر کڑی نگرانی کے لیئے اسرائیلی ڈیفنس فورس کی تین بٹالینز کھڑی ہیں۔ مختلف اوقات میں باڑ کو  چھیڑ کر دفاعی نگرانی کی آزمائش کی جاتی ہے۔ باڑ کے ساتھ معمولی سی حرکت بھی ریکارڈ پر آتی ہے۔ غزہ کی پٹی سے کسی عام سرگرمی کی آڑ میں اسرائیل پر کوئی حملہ نہ ہو اس سے حفاظت کی خاطر جنوب میں غزہ کی پٹی پر باڑ کے ساتھ ساتھ  پوری پٹی کے ایک تہائی حصے پر کاشت کاری، تعمیرات اور انسانی حرکت مکمل ممنوع ہے  جبکہ زمین کے دو تہائی حصے پر کام کرنے والے مظلوم کسان بھی اکثر و بیشتر اسرائیلی سنائیپرز کی نشانہ بازی کی مشق کا شکارکرتے ہیں  جس سے ہزاروں فلسطینی کسان ہلاک ہوئے ہیں۔باڑ کی حفاظت پر مامور اسرائیلی فوج کے کیریم شیلوم بٹالین اور اس کے ایک حصے کے سابقہ کمانڈر کی ایک تحریر کے دعوے کے مطابق غزہ کی پٹی سے کوئی لومڑی بھی باڑ پار کرکے اسرائیل کی سمت نہیں آسکتی۔  اوسلو ایکارڈ کے مطابق غزہ کے جنوب میں ساحل سمندر سے 10 کلو میٹر کی حدود میں فلسطینی ماہی گیروں کو مچھلی کے شکار کی اجازت ہے لیکن اسرائیلی بحری فوج نے یہ محدود مضحکہ خیز آزادی بھی 3 کلو میٹر تک محدود رکھی ہے۔یہاں ساحل پر فلسطینی مچھیرے اسرائیلی صیہونی بحری فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ غزہ سے مغربی کنارے کی طرف اسرائیلی ناکہ بندیاں اور فوجی چوکیاں ہیں جہاں سے فلسطینی اپنے ہی ملک میں کسی ضرورت کے تحت  جانے کے لیے کڑے امتحان سے گزرتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جاسوس موجود ہیں جو ہر سرگرمی کی پل پل خبر صیہونی ریاست تک پہنچاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر غزہ کو کرہ ارض پر ایک کھلے چھت والے جیل سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ جہاں 22 لاکھ قیدی رہتے ہیں۔

حماس، پی ایل او کی متبادل ایک اسرائیلی پیداوار

ترقی یافتہ دنیا میں سامراج نے محنت کش مزدوروں کی بغاوتوں اور انقلابی تحریکوں کو یا تو معیشت کی ریاستی کنٹرول میں سوشل ڈیموکریسی کی مراعات کے ذریعے یا پھر مینشویزم کے "سماج کی مرحلہ واریت پر مبنی ترقی” جیسے قاتل خیالات اور ہتھکنڈوں سے زائل کیے۔ جبکہ تیسری دنیا کے مسلم ممالک میں مظلوم محنت کشوں اور قومی آزادی کی ریڈیکل تحریکوں اور انقلابات کو سامراجیت نے پولیٹیکل اسلام، مذہبی بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کی سرپرستی کے ذریعے پسپا کرنے کی کوششیں کیں، بیسویں صدی کے آخر میں کئی عالمی ردانقلابی واقعات رونما ہوئے اورمزدوروں کی اہم تحریکوں کو شکست ہوئی جس کے نتیجے میں عمومی طور پر محنت کشوں کی تحریکیں پسپا ہوکر کمزور ہوئیں۔  مصر سے انڈونیشیا تک ، پاکستان سے افغانستان، ایران، لیبیا، عراق، شام سے افریقہ کے مسلم ممالک تک سرمایہ داری کے خلاف جتنی بغاوتیں اور انقلابات ہوئے تھے امریکی سامراج نے انہیں خون میں نہلایاٗ انقلابیوں کا قتل عام کروایا  اور ان سماجوں میں انقلابی ریڈیکلائزیشن کی جگہ مذہبی بنیاد پرستی کی بنیادیں رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا، اگرچہ ریاست کی سطح پر آل سعود کو وہابیت کے امتزاج کے ساتھ بادشاہت پر براجمان کرنے اور بنیادپرستی کو بڑھاوا دینے کا سہرا امریکی سفیر جان فوسٹر ڈولس کو جاتا ہے جسے جدید بنیادپرستی کا خالق بھی سمجھا جاتا ہے لیکن مصر میں سید قطب کی امریکی یاترا کے وقت اس کی مغربی سرمایہ داری کی ترقی اور نظام زر کی بوسیدگی سے جنم لینے والی ثقافتی بے ہودگی کے ردعمل میں تشکیل پانے والے رجعتی خیالات نے سامراجی سرپرستی اور مقامی حکمرانوں کی ساجھے داری میں مصر اور پوری مسلم دنیا کی مذہبی تنظیموں پر اپنے اثرات ڈالے۔ غیرعرب دنیا میں مذہب کے اس سیاسی تصور نے اپنی مزید مسخ شدہ شکل میں سماجی محرومی کے بطن میں بنیادپرستی کو متشدد انتہاپسندی کے ساتھ جوڑ کر بہت خونریز اور تخریبی صورت اپنائی جو ہمیں اخوان المسلمین سے جماعت اسلامی پھر حزب اسلامی اور القاعدہ اور دیگر متشدد تنظیموں میں ہر سماج کی سماجی پسماندگی کی سطح کے عین مطابق تخریبی پیمانے پر نظرآتی ہیں۔ عام مقامی مذہبی سیاسی پارٹیوں پر بھی اس لہر کے اثرات پڑتے گئے اور مسلم دنیا رجعتیت کی کھائیوں میں گرتی چلی گئی جس سے سامراج اور مقامی ریاستی حکمرانوں نے ترقی پسندی اور انقلابات کے خلاف وسیع پیمانے پر استفادہ کیا۔ حالیہ صدی میں بھی تاریخی عرب بہار کی شاندارعوامی تحریکوں کو سامراج نے مذہبی بنیاد پرستی کی بھینٹ چڑھایا۔ انقلاب کے مرکز مصرمیں جہاں نوجوان قیادت کو این جی اوز کے ذریعے خریدا گیا وہاں اخوان المسلمین کو حکومت دے کر تحریک کو مطمئن کرکے انقلاب کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جلد ہی اخوان کی محمدمرسی حکومت کی عوام دشمن حکومت کی حقارت میں سابقہ صدر حسنی مبارک کے خلاف بننے والی تحریک سے بھی زیادہ تعداد میں عوام سڑکوں پر نکلی۔ بالآخرانقلاب کے خوف سے سامراج اور سعودی عرب نے مصر پرجنرل فتح السیسی کی عوام دشمن جابر آمریت مسلط کردی جو خطے اور عالمی سیاست میں امریکہ اور سعودیوں کی دم چلہ گماشتہ حکومت ہے۔ اسی طرح سامراج نے لیبیا اور شام جیسے عرب انقلاب کی تحریک کو ترکی کی مداخلت کے ساتھ داعش، النصرہ فرنٹ اور قبائلی ملیشیاز کے ذریعے برباد کر ڈالا۔ امریکہ اس وقت شام میں تیل کے کنوؤں پر قابض ہے جبکہ لیبیا میں پوری نیٹو فورسز کے ساتھ  وحشت کی رقص کا تماشا دیکھنے موجود ہے اس تیل کے کنوؤں کے قبضے اور وحشیانہ رقص کو جمہوریت کا نام دے کر سامراج بائیں بازو سے داد تحسین بھی وصول کررہا ہے۔

بیلفورڈیکلریشن 1917 کے آغاز یعنی برطانوی سامراج کی فلسطین میں اسرائیلی نوآبادکاری کی شروعات سے صیہونی ریاست کے 1948 میں ظالمانہ قیام تک اورپھر اس ظالم نسل پرست ریاست کی وسعت کے خلاف فلسطینیوں کی بے مثال مزاحمت کی شاندار نمائندگی ریڈیکل، سیکیولر اور ترقی پسند قومی آزادی کی تنظیمیں کرتی رہی ہیں جن میں یاسر عرفات کی الفتح تنظیم ، جارج حباش کی مارکسسٹ لیننسٹ پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین، ڈیموکریٹک فرنٹ برائے آزادی فلسطین اور کمیونسٹ رولوشنری پارٹی سمیت بائیں بازو کی کئی دوسری تنظیمیں شامل ہیں ان تنظیموں نے ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے کے محاذ پرسامراج اور صیہونی نسل پرست ریاست کے خلاف ڈٹ کے لڑائی لڑی۔ یہ تنظیمیں "فلسطینی تنظیم آزادی” (پی ایل او) کے اتحاد میں اکٹھی تھیں۔ اس اتحاد اور تنظیموں کوسوویت یونین ، شام اور مصر کے ساتھ دیگرعرب ممالک کی عسکری کمک اور سیاسی حمایت حاصل رہی ، جبکہ کئی عرب اور مسلم ممالک ان تنظیموں اور فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک کے مخالف صف میں امریکی سامراج اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے۔ اسی صف سے پی ایل او خصوصاً یاسرعرفات کی تنظیم الفتح کو 1970 میں بہت بڑے اور ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف مصر میں جمال عبد الناصرکی حکومت اور اس کی عرب یک جہتی تحریک کواسرائیل کے ساتھ جنگ میں شکست کا سامنا ہوا جو سامراجی اور داخلی قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ تھا اس پر مصر کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کرنا پڑی جس سے پی ایل او کی پشت پناہی انتہائ کمزور پڑ گئی اور اسی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے امریکی آشیرباد سے اردن کے بادشاہ نے پاکستانی فوج کے بریگیڈیئر ضیاء الحق کے ذریعے اردن ہی میں فلسطینی تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچل ڈالا۔ دو ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کے مطابق 18 ہزار فلسطینی  کیڈرز قتل کردئیے گئے تھے۔ اس واقعے کو آج بھی مظلوم فلسطینی "سیاہ ستمبر” کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ یہی ضیاء الحق بعد میں جنرل اور پھر منتخب حکومت کو ہٹاکر خودساختہ امیر المومنین بنا، اپنے اقتدار کے دور میں مردمومن اور مرد حق  کے طور پر اس پیشہ ور قاتل نے برصغیر اور افغانستان کو آتشدان میں تبدیل کردیا۔ ان واقعات کے تباہ کن اثرات نے فلسطینی قومی آزادی کی تحریک کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ اسی دوران ایران میں محنت کش مزدوروں اور عوامی تحریک کو ایرانی ملاں یرغمال بناکر ایران پر مسلط ہوئے جس نے بعد میں فلسطینی تحریک آزادی کے ترقی پسند ریڈیکل پہلو کو بہت ضرر پہنچایا۔ لیکن مشرق وسطی میں دیگر پرولتاری بوناپارٹسٹ انقلابات انکی انقلابی حکومتیں اور تحریکیں فلسطینی تحریک آزادی کو تقویت ، عالمگیریت اور ریڈیکلائزیشن کا آکسیجن پہنچاتی رہیں مگر سوویٹ یونین کے انہدام نے فلسطینی قومی آزادی کی تحریک کی ترقی پسندی، انقلابی دھار اور سامراج دشمنی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی ۔ سوویت روس کے انہدام اور ٹوٹ پھوٹ کو محنت کش طبقے کی تحریک کی جیت سمجھنے والے اور اسے عالمی سیاست میں آگے کی جانب ایک مثبت قدم قرار دینے اور اس سقوط پر جشن منانے والے یورو سینٹرک پوسٹ ماڈرنسٹ انقلابیوں کے چہرے سے آج کے عالمی تضادات نے نقاب نوچ پھینکے ہیں۔ حالیہ تضادات میں ان کی امریکی سامراجی گماشتگی سے اس بات کا ثبوت ملتاہے کہ ٹراٹسکزم کے لبادے میں یہ مارکسزم لیننزم کی دشمنی چھپائے پھرتے رہے ہیں۔

اس رجعتی معروض کے آغاز کے ساتھ ہی پی ایل او بہ حیثیت مجموعی فلسطینی قومی آزادی کی تحریک کے ہراول دستے کے طور پر نظریاتی گراوٹ کی شکار ہوئی۔ اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ بڑھتا گیا۔ مختلف ایشوز پر پولرائزیشن بڑھتی گئی جس سے سیاسی اور تنظیمی طور پر کمزور ہونا بھی ناگزیر ٹھہرا۔ اوسلو ایکارڈ یعنی فلسطینی اسرائیلی مسئلے کے دو ریاستی حل پر اتفاق رائے اور اسرائیل کو بہ حیثیت ایک ریاست تسلیم کرنے کے وعدوں نے پی ایل او کو منتشر کرکے رکھ دیا۔ اسی زوال کے دوران حماس کی بنیادیں پڑیں۔ 1987 کی پہلی انتفادہ کے  بہت بڑے حجم اور شاندار وسیع تحریک نے پی ایل او قیادت کو ششدر کرکے رکھ دیا تھا۔ قیادت کی کنفیوژن اور انتفادہ کی تاریخی تحریک کے لیے قیادت کے پاس کسی انقلابی حل کے راستے کی عدم موجودگی نے کچھ فلسطینی کیڈرز اور سرگرم کارکنوں کو پی ایل او پر عدم اعتماد کی جانب دھکیلا، ان سرگرم کیڈرز نے حماس (حرکت المقاومت الاسلامیہ جبکہ اس کے مخفف "حماس” کے معنی جرأت کے ہیں) کی بنیاد رکھی۔ حماس کو مصر کے اخوان المسلمین نے فلسطین میں اپنی ایک ذیلی تنظیم کے طور پر ساتھ جوڑ کر سیاسی و نظریاتی تشخص دیا۔  پی ایل اور اور اس میں شامل ریڈیکل ترقی پسند تنظیموں کے سامنے حماس اپنے آغاز میں ایک نہایت چھوٹی تنظیم تھی مگر پی ایل او میں پھوٹ کی وجہ سے فلسطینی ایشوز خاص کر اوسلو سمجھوتے پر یاسر عرفات کی اتفاق رائے کے حصول کے لیے توازن کی کوششوں میں حماس کے وزن میں اضافہ ہوا۔ فلسطین اسرائیلی تنازعے کی دو ریاستوں کے قیام کے حل پر فلسطین میں حماس جبکہ اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں نے اس حل کی شدید ترین مخالفت کی، اسرائیلی صیہونی دایاں بازو فلسطینیوں کو کسی بھی قسم کی چھوٹی سی بھی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے۔ اسرائیلی لیبر پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم اسحاق رابن کو فلسطینیوں کے ساتھ امن کے قیام اور فلسطینی ریاست کی تشکیل کی پاداش میں قتل کردیا گیا جس کے بعد یہودبارک کے علاوہ صیہونی ریاست کا اختیار جنرل ایریل شیرون اور نیتن یاھو جیسے دائیں بازو کے صیہونی درندوں کے پاس ہی رہا ہے ۔ قابض اور جابر قوم کی نام نہاد لیبر پارٹیاں بھی حکمران ریاست کا مکمل حصہ اور اس ریاست کی استحصالی پالیسیوں کی شراکت دار ہوتی ہیں لیکن اپنے سپورٹ بیس کی بنیاد پر دائیں بازو کی حکمران جماعتوں سے ذرا سی مختلف ہوتی ہیں۔

سوویت یونین کے ٹوٹ پھوٹ کے بعد مشرق وسطی کے علاوہ دوسرے خطوں میں بھی نیولبرل معیشت اور پالیسیوں کی ایک اَن دیکھی حالت سامنے آئی۔ امریکی سامراج کی سربراہی میں نیٹو کی عسکری طاقت سامراجی غلبے کے لیے دنیا پر چڑھ دوڑی۔ محنت کش مزدوروں کی ریڈیکل سیاسی تحریکوں میں کمی ، انقلابی نظریات کی پسپائی اور قومی آزادی کی ریڈیکل ترقی پسند تحریکوں کا ماند پڑ جانا یا امریکی سامراج کی گماشتگی اختیار کرنا اس عہد کی عام خصوصیات ٹھہریں۔ سامراجی سرپرستی میں رجعتیت مسلط کی جاتی رہی۔ انہیں مخصوص حالات میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح فلسطین پر بھی رجعتیت حاوی کی جاتی رہی۔  پی ایل او کے زوال سے جو خلاء پیدا ہوا اسے حماس ، اسلامک جہاد سمیت دوسری بنیادپرست تنظیموں نے پر کیا۔ پی ایل او کی جگہ حماس کو خاص کر غزہ میں ایک متبادل طاقت کے طور پر براجمان کرنا کوئی سادہ عمل نہیں تھا بلکہ اسرائیل کے دائیں بازو کے حکمران دھڑے نے نیتن یاھو کی قیادت میں ایک پوری پالیسی تشکیل دی۔ پالیسی کے مطابق اوسلو سمجھوتے کی بنیاد پر اسرائیل میں فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ صرف اس طریقے سے روکا جاسکتا ہے کہ حماس کو پیسہ اور طاقت فراہم کیا جائے۔ اس کے بعد پی ایل او اور فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینیوں کی نمائندگی کا مینڈیٹ نہ رکھنے کا جواب دے کر پی ایل او سے مذاکرات رد کردیئے جائیں اور پی ایل او کے ساتھ ہر قسم کے رابطے منقطع کیے جائیں۔ نیتن یاھو نے اپنے ممبران اسمبلی کنسٹ سے اس پالیسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا جو ریکارڈ پر ہے کہ "جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا جائے تو حماس کو قطرکے ذریعے فنڈز دینا ناگزیر بن جاتا ہے”۔ میجر جنرل گارشن ھیشون جو نیتن یاھو کے خاص شراکت داروں میں سے ہے جنرل گارشن نے 2019 میں کہا تھا کہ "ہمیں سچائی بتانے کی ضرورت ہے۔ نیتن یاھو کی حکمت عملی دوریاستوں کے قیام کو روکنا ہے۔ اس کے لیے وہ حماس کو قریبی ساتھی میں بدلنا چاہتا ہے۔ کھلے عام حماس ایک دشمن ہے جبکہ داخلی طورپر یہ ایک اتحادی "۔ امریکی چینل 13 نے مصر کے سابقہ آمر حسنی مبارک کا حوالہ دیتے ہوئے 2019 میں ٹویٹ کیا کہ حسنی مبارک کے مطابق ” نیتن یاھو کو دو ریاستوں کے قیام کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ 2010 میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنا چاہتا ہے”۔  نیتن یاھو نے اپنے پراجیکٹ کے لیے قطر کو کئی بار حماس کے لیے ڈالرز کی فراہمی کی منظوری دی۔ قطر مشرق وسطی اور مسلم ممالک پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے سعودیوں کے ساتھ بالواسطہ جنگوں میں ملوث رہا ہے۔ سعودی نے جنرل فتح السیسی کے ذریعے قطری حمایت یافتہ اخوان کی حکومت کا تختہ اس وقت الٹا تھا جب اخوانیوں کی حکومت ایک بڑی تحریک کے نتیجے میں اکھاڑ پھینکی جارہی تھی۔ اخوان اور اس کی ذیلی تنظیم حماس کے ساتھ قطری حکمرانوں کے گہرے سٹریٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ اسرائیل پر اکتوبر حملے الاقصی طوفان کے وقت حماس قیادت کی قطر میں موجودگی کوئی اتفاق نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی ملاؤں کی رجعتی حکومت بھی پی ایل او کے خلاف حماس کے ساتھ اپنے قریبی روابط استوار کرنے اور حماس کو اسرائیل کی حد تک اپنا اثاثہ بنانے میں کامیاب رہی جبکہ یہی حماس شام میں داعش اور النصرہ فرنٹ کے ساتھ مل کر ایرانی اتحادی اسد حکومت کے خلاف لڑتی رہی۔ ایرانی ملاں رجیم کی زندگی کی طوالت اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف نعرہ بازی پر مبنی ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی مذہب کی بنیاد پر جب تک حالت جنگ میں رہتے ہیں ایرانی ملاں اپنی حکومت کو محفوظ سمجھتے ہیں اور ایرانی رجعتی رجیم کے خلاف اٹھنے والی ہر مظلوم تحریک کو حکمران ملاں اسے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ تحریک میں کچھ بے ہودہ لبرلز کی مداخلت اس تاثر کو اثرپذیر بنانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ ایران اسرائیل کو اپنے رجعتی اثاثوں کے ذریعے جنوب میں غزہ میں موجود حماس ، مغربی کنارے سے اسلامک جہاد اور شمال کی طرف سے حزب اللہ کی نہ ختم ہونے والی پراکسی کے ذریعے پریشان رکھتا ہے۔ ایرانی ملاں رجیم سمجھتی ہے کہ جب تک فلسطینی تنازعہ قائم رہتا ہےمشرقِ وسطیٰ اور داخلی طور پر ایرانی سماج میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کا جواز رکھتا ہے۔ایرانی ملاں حزب اللہ سمیت حماس کو اسلحے کی سپلائی ، جنگی تربیت اور رقوم کی فراہمی کو بہر صورت جاری رکھتی ہے تاکہ مسلسل غیر ثمرآور اور مذہبی جنگ کی نعرہ بازی سے اس کے وجود کا ایک بڑا جواز قائم رہے۔ حماس کو وہ تمام موافق معروضی حالات، مختلف رجعتی ریاستوں کی کمک ، اسلحے کی فراہمی اور پیسوں کی فراوانی دستیاب رہی جس سے حماس ایک چھوٹے سے گروہ سے ایک طاقتور اور بڑی تنظیم میں ڈھلتا چلا گیا۔

پراجیکٹ "عظیم اسرائیل” اور صیہونیوں کی وسعت پسندی

صیہونیوں کی بین الاقوامی تنظیم کے بانی تھیوڈور ہرستل کے پمفلٹ 1896سے، جس میں صیہونیوں کے لیے مشرقی افریقہ میں ایک صیہونی ریاست کے قیام کو سیاسی سوال کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اسی صیہونی تنظیم کی عالمی کانگریس 1903 میں قراردار کی صورت میں اس تجویز کی منظوری تک وہ بنیاد تھی  جس پر برطانوی سامراج نے 1917 میں مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کے خطے میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کے لیے بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ یہ بیان برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بیلفور کے نام سے ہی بیلفور ڈیکلریشن کہلایا۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے نتیجے میں برطانیہ کی راج میں آنے والے فلسطینیوں کے علاقے جہاں اقلیت میں کچھ یہودی بھی آباد تھے اس ڈیکلریشن میں ان فلسطینی علاقوں میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان تھا جس میں عالمی صیہونیوں کی تنظیم کو مخاطب کرکے اس اعلان سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اس ڈیکلریشن کے بعد یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری شروع ہوئی۔ فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت اور آبادکاری مختلف وقتوں میں جاری رہی خصوصاً یورپی ممالک میں یہودیوں کے خلاف مقامی نفرت اور ریاستی جبر اس ہجرت کی بنیادی وجہ رہی ۔ حالیہ اسرائیل کی 80 فیصد آبادی جرمنی ، زار کے روس، پولینڈ ، ہنگری، سپین اور فرانس وغیرہ کے یورپی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ اسرائیلی صیہونی ریاست نے پوری دنیا سے ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو فی الفور اسرائیلی شہریت دینے کا اصول اپنا رکھا ہے۔ کچھ ایسے بھی یہودی تھے اور رہے ہیں جو فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام، فلسطینیوں پر ظلم و ستم ، نسل کشی اور آبادکاری کے سخت مخالفین اور ناقد رہے ہیں۔ ڈاکٹر لال خان نے اپنی کتاب "لبنان اور اسرائیل جنگ” میں ایک خاتون کا تذکرہ ایک مثال کے طور پر کیا ہےکہ ایک خاتون نے جب ہسپتال میں ایک صحت مند بچے کو جنم دیا اور نرس نے اس بچے کو اٹھا کر کہا تھا کہ یہ تو فوجی جوان بنے گا۔ بچے کو جننے والی ماں نے جب اپنے بچے کو صیہونی ریاست کے فوجی کی شکل میں فلسطینیوں پر ظلم کرتے ہوئے تصور کیا تو اس نے اسرائیلی شہریت ترک کر کے صیہونی ریاست ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔

تھیوڈور ہرستل اور بیلفور کے بعد ڈیوڈ بن گوریان اور نیتن یاھو صیہونی حکمرانوں کی وہ قبیح شخصیات ہیں جس میں بن گوریان نے عظیم تر اسرائیل کا خاکہ پیش کیا، اس کی سرحدیں اور حکمت عملی کا تعین کیا جبکہ نیتن یاھو داخلی تضادات اور بحرانوں اور سیاسی ایشوز کو پس پشت ڈالنے کی خاطر اپنے پرکھوں کے عظیم اسرائیل کی تشکیل کے ادھورے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے راستے میں معصوم نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے تمام حدود پار کررہا ہے۔ ڈیوڈ بن گوریان نے 14 مئی 1948 کو اسرائیلی ریاست کے قیام اور آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس صیہونی ریاست کو امریکہ نے اسی دن ہی تسلیم کرلیا تھا ۔اس سے ایک برس پہلے ربی فچمن نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی صیہونی ریاست کے حدود پر رپورٹ پیش کی تھی جس میں دریائے نیل سے لبنان، شام، اردن، ترکی، عراق اور سعودی تک کے کچھ علاقے شامل ہیں جن کو اسرائیل نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا بلاواسطہ اپنی حدود میں شامل کرنے ہیں۔ صیہونیوں کے عقیدے کے مطابق یہ وہ علاقے ہیں جن پر وہ قبل از تاریخ میں آباد تھے اور ان کے ساتھ اس علاقے سے اخراج کے وقت خدا نے اس سرزمین پر انکے دوبارہ آباد ہونے کا وعدہ کیا تھا۔ قبضے اور وسعت پسندی کا یہ جنونی عقیدہ اسرائیلی صیہونی ریاست کی بنیاد ہے جس  نے اپنے نسلی امتیاز کی بنیاد پر ریاستی قیام کے ساتھ ہی نکبہ کا آغاز کیا تھا یعنی فلسطینیوں کو اپنے گھروں، کاروبار اور زمینوں سے بے دخل کرنے کا آسمانی حق استعمال کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کو انتہائی بے دردی اور بے حسی اور ریاستی بربریت سے قتل اور یا پھر بے دخل کیا اور ان زمینوں پر آبادکاری کی بے حسی کی نفسیات کے پیچھے یہی جنونی عقیدہ کار فرما رہا ہے۔

اسرائیلی ریاست کی تشکیل اور نکبہ کی شروعات کے خلاف اسرائیل کے پہلو میں 5 عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف 1948 میں جنگ کا آغاز کیا لیکن عرب ممالک کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد تین دیگرعرب اسرائیل جنگیں ہوئیں جن میں عرب ممالک کو مجموعی طور پر شکست ہوئی اورعربوں کے کئی علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔ اسرائیل سے کئی عیسائی اور مسلم عرب پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہجرت کرگئے۔ اسرائیلی ریاست ایک طرف داخلی سطح پر شہروں اور دوسری طرف خارجی سطح پر عرب ممالک کے اندر وسیع ہوتی چلی گئی۔ اسرائیل میں صیہونی لیبر پارٹی کی نامیاتی اور تنظیمی و انتخابی شکستوں اور پھوٹ کے عمل نے حکمرانوں کے انتہائی دائیں بازو کی ظالم صیہونی لیکوڈ پارٹی کو اقتدار پر براجمان کیا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مقتدر اداروں میں دائیں بازو کے نسل پرست گروہ کو وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے۔ حماس کے حملے نے نیتن یاھو اور حکمران رجعتی دھڑے کی عظیم اسرائیل کی تکمیل کے منصوبے کو دوام دینے کا جواز فراہم کیا ہے جس کا آغاز وہ غزہ پر قبضے سے کرنا چاہتے ہیں۔

اقصیٰ طوفان کا پس منظر

حماس کا اسرائیل پر 7 اکتوبر کا الاقصیٰ طوفان حملہ متنوع عوامل کا حامل ہے۔ کئی متضاد مقاصد اور محرکات اس حملے کا موجب بنے ہیں۔ ایک طرف داخلی طور پر اسرائیلی اقتصادی حالت یہ ہے کہ خطیر زر مبادلہ کے ذخائر رکھنے کے باوجود اسرائیلی معیشت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اسرائیلی کرنسی شیکیل کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث اسرائیلی معیشت  پر ایک مسلسل دباؤ قائم رہا ہے۔ غزہ پر فضائی حملے کے ساتھ نیتن یاھو نے ملکی زرمبادلہ سے 30 ارب ڈالر اسرائیلی اوپن مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں تاکہ اس بحران کے دوران مسلسل گرتی ہوئی کرنسی کی کسی بڑی گراوٹ کے صدمے سے بچا جاسکے۔ کفایت شعاری کے تحت کٹوتیوں کی وجہ سے نچلے طبقوں میں گہری بے چینی موجود ہے جس نے اپنا اظہار ماضی قریب میں مختلف مظاہروں اور احتجاجوں کی صورت میں کیا تھا۔ لیکن معاشی و اقتصادی حالت سے بڑھ کر کئی عشروں سے اسرائیلی سماج میں جو تضاد پنپ رہا تھا وہ پھٹ کر سامنے آیا ہے۔ پچھلے تین عشروں میں اسرائیلی  دایاں بازو اور اس کی پشت پر سخت گیر صیہونی مذہبی لابی اسرائیل میں مخالفین کو پچھاڑ کر گہرا اثرورسوخ حاصل کرکے طاقتور حکمران بن کر ابھرا ہے۔ نیتن یاھو، لیکوڈ پارٹی، اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی دائیں بازو اور راسخ العقیدہ صیہونی مذہبی پیشواؤں کے حکمران گروہ نے انتخابات میں اگر چہ نشستوں کی تعداد جیتنے کے حوالے سے گزشتہ انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی ہے لیکن حاصل کردہ کل ووٹوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ دائیں بازو کے صیہونیوں کی یہ کامیابی دراصل بائیں بازو کی ٹوٹ پھوٹ، نظریاتی زوال پذیری اور سیاسی گراوٹ کی ہی مرہون منت ہے۔ موجودہ متشدد رجعتی حکومت کی تشکیل کے وقت اگرچہ نیتن یاھو پر کرپشن کے الزامات کا شور تھا لیکن یہ شور اس وقت صیہونی حکمران طبقے میں شدید تضاد اور پولرائزیشن کی حدود کو پہنچا  جب اسرائیل میں کسی دستور کی عدم موجودگی میں نیتن یاھو نے اسرائیلی عدلیہ کو لگام ڈالنے اور راسخ العقیدہ صیہونیوں کی مذہبی بالادستی کو مسلط کرنے کے لیے "اصلاحاتی بل” متعارف کروایا۔ اس بل نے اسرائیلی صیہونیوں اور امریکہ و دیگر ممالک میں رہنے والے یہودیوں کے بیچ ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ غیر اسرائیلی خصوصا امریکی یہودی اسرائیل کو ایک نام نہاد سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیلی صیہونی دھڑا اسرائیل کو صیہونی مذہبی روایات اور سخت مذہبی قوانین مسلط کرکے اپنے اقتدار کومزید تقویت دینا چاہتا ہے۔ حماس کے حملے سے پہلے اس بل پر وسیع پیمانے کے اختلاف، مزاحمت اور دلائل کے لیے فریقین کے بیچ سخت ترین زبان کے استعمال نے نیتن یاھو کی تاریخی جیت کو ایسی شکست میں بدل کے رکھ دیا تھا کہ اس کا اقتدار ہچکولے کھانے لگا تھا۔ حماس کے حملے اور غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری نے عارضی طور پر بل پر بحث کو موخر اور اسرائیلیوں کو نیتن یاھو کے گرد اکٹھا کرنے کا کام کیا ہے۔ لیکن آگے جاکر یہ پولرائزیشن اسرائیلی سماج کو بہت گہرائی تک اور وسیع پیمانے پر کاٹ کے رکھ دے گا۔ مظاہروں اور احتجاج کے ساتھ اسرائیلی معیشت پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے گا۔ یہ حملہ نیتن یاھو اور اس کی حکومت کے لیے رحمت بن کر برسا۔

 الاقصی طوفان یعنی 7 اکتوبر کو اسرائیلی یہودیوں کا تہوار "سکوت” کا دن تھا اس دن یہودی جوان کسی میلے کی صورت میں اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو روایتی خوراک وغیرہ کھلاتے، موسیقی سے محظوظ اور رقص کرتے ہیں۔ نیتن یاھو نے یہ تہوار سکوت مغربی کنارے کے ساتھ متصل اسرائیلی علاقے میں منانے کی منظوری دی۔ نیتن یاھو نے غزہ کی پٹی کے خاردار تار اور بارڈر پر متعین تین بٹالینز فوج میں سے دو بٹالینز نوجوانوں کے اس میلے کی طرف حفاظت کی خاطر منتقل کیے اور 45 کلومیٹر لمبی تار اور بارڈر کی حفاظت کے تین شفٹوں کے لیے 800 اہلکار چھوڑے۔ حماس کے حملے کے وقت نہ تو بارڈر پر کسی قسم کی مزاحمت دیکھنے کو ملی اور نہ ہی نوجوانوں کی حفاظت کی جاسکی۔ نیتن یاھو نے اس حملے کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے جیسا اسرائیلی گیارہ ستمبر قرار دیا۔ نیتن یاھو نے بالکل درست کہا کہ 7 اکتوبر دراصل 11 ستمبر کا چربہ ہی تھا کیونکہ اب پوری دنیا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ جان گئی ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 11 ستمبر کا واقعہ سی آئ اے اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے ہونے دیا گیا تھا تاکہ عراق، افغانستان اور دیگر تیل و معدنیات کے ذخائر سے بھرے ممالک پر چڑھائی کا جواز مل سکے۔ جس طرح 11 ستمبر کے حادثے کی نہ تو کوئی تفتیش ہوئی اور نا ہی کسی ادارے یا شخص پر ذمہ داری کا تعین کیا گیا ، یہی رویہ نیتن یاھو حکومت  کی جانب سے 7اکتوبر کے حادثے کے متعلق رکھا جائے گا ۔ نیتن یاھو کی جابر نسل پرست صیہونی حکومت حماس کے حملے کو اپنے داخلی مسائل اور تضادات کو دبانے، مسائل و تضادات سے اسرائیلیوں کی توجہ ہٹانے اور عظیم تر اسرائیل کے خواب کو حاصل کرنے کے مذموم مقاصد کے لیے جواز کے طور پر پیش کررہا ہے۔

ایرانی مداخلت

لبنان میں ایرانی فوجی آفیسروں، اہلکاروں اور سفارتکاروں کی حزب اللہ اور حماس کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں و اجلاسوں کی خبروں کو غیر مصدقہ قرار دے کر صرف نظر بھی کردیا جائے تو ایرانی ملاؤںکی مشرق وسطی میں اپنی رجعتی رجیم کے ریاستی مفادات کے تحفظ کی خاطر حزب اللہ، حماس اور اسلامک جہاد وغیرہ کے لیے رقوم کی سپلائی سے ہر قسم کے اسلحے کی ترسیل تک تاریخ کا ایک کھلا باب ہے۔ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودیوں کے بیچ سمجھوتے کے ساتھ ہی سعودی نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھاتے ہوئے مشرقی یا جنوبی بلاک "برکس” کا حصہ بننے کی درخواست کی تھی۔ سعودیوں اور ایرانی وزرائے خارجہ اور سفارتکاروں کی نشستیں ہوئیں۔ سعودی متوازی طور پر اپنے عرب گماشتہ ریاستوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھاتا رہا ۔عرب امارات کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرواکر سعودی دراصل عرب دنیا کے رد عمل کو بھی ناپ چکا تھا۔ جی 20 کے بھارت میں منعقدہ اجلاس میں نیو سپائس روٹ یعنی  "جدید شاہراہ مصالحہ جات” کے نام سے چین کے شاہراہ ریشم کے متبادل پراجیکٹ کا اعلان ہوا۔ سپائس روٹ دراصل مصالحہ جات کی تجارت کے نام پر برطانوی سامراج کی وہ شاہراہ تھی جس کےذریعے متحدہ ہندوستان سے دولت اور خام مال لوٹنے جبکہ اپنی اجناس کی ہندوستان کی منڈی میں کھپت کی ترسیل کی جاتی تھی۔ یہ شاہراہ جو جاپان انڈونیشیاء اور ملائشیاء وغیرہ سے ہوتے ہوئے بھارت تک آتی ہے جبکہ بھارت سمیت کئی مقامات پر یہ شاہراہ سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے کویت ، سعودی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے ہوتے ہوئے اسرائیل پہنچتی ہے۔ اسرائیل وہ مقام اتصال ہے  جہاں سے اسرائیل دو براعظموں یورپ اور افریقہ کو ایشیاء کے ساتھ منسلک کرے گا۔ بڑے عالمی سیاسی افق پر ایران کی مشرق وسطی میں پہلے سے موجود مداخلت اور ایرانی ریاست کے مجموعی ریاستی مفادات اس بڑے سامراجی منصوبے کی مخالفت کو ناگزیر بناتی ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے فوراً بعد اسرائیل کے وحشیانہ ردعمل یعنی فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام اور جنگ کے اعلان نے مشرق وسطی کو غیر یقینی  اور عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے۔ عوامی غیض وغضب میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خطے کے عوام بڑی سرعت کے ساتھ سامراج اور اسرائیلی مظالم کے خلاف یکجا ہوکرمظاہروں اور مسلح احتجاجوں کی شکل میں عرب حکمرانوں پر کسی ردعمل کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس شدید عوامی دباؤ پرعرب ممالک خصوصا سعودیوں کی اسرائیل سے قربتیں اس کے الٹ گہرے فاصلوں میں بدل گئیں۔ رپورٹس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ امریکی سیکریٹری خارجہ اینتھونی بلنکن کو ولی عہد سلمان سے ملاقات کے لیے ایک دن تک شرمناک انتظار کروایا گیا اور انتہائی مختصر ملاقات میں بلنکن سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی بندش کا مطالبہ کرکے اسے چلتا کردیا گیا تھا۔ ایران اپنے داخلی مسائل اور عوام کی توجہ کو کس طرح اسرائیل کے ساتھ اپنی پراکسیز کے توسط سے جنگ کے ذریعے ہٹاتا اور ملاں رجیم اپنی حکمرانی کو طوالت دیتی ہے اس کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے۔

نتیجہ گیری

اینگلز نے ایک بار کہا تھا کہ ” کبھی عشرے گزر جاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا اور کبھی ہفتوں میں عشروں کے واقعات رونما ہوتے ہیں” ، یہی حالت آج کے عہد کی ہے  جب عالمی سرمایہ داری اپنے عروج میں سامراجیت میں ڈھلنے کے بعد سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے مختلف چورلیکن انتہائی تخریبی راستے ڈھونڈتی ان پر چلتی ہوئی عصر حاضر میں اپنے ہمہ جہت معاشی، اقتصادی ،مالی ، سیاسی سفارتی اور ثقافتی زوال کی گہری کھائی کی گہرائی میں لڑھکتی جارہی ہے۔ سرمایہ داری اپنے ساتھ انسانی قوت ِمحنت سے پیدا کردہ سب کچھ برباد کرتی جارہی ہے ۔ دو عظیم جنگیں لڑتے ہوئے کروڑوں انسانوں،ذرائع پیداوار ، فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر کو نظام زر کا یہ خوفناک دیو پاؤں تلے  روندتا رہا ۔ نام نہاد امن کے زمانے میں بھی سرمایہ داری اور سامراج نے مظلوم محنت کش مزدوروں ، محکوم عوام کو مختلف جنگوں ، ظالم و جابرآمروں اور بہ حیثیت مجموعی جنوبی کرہ کو براہ راست اور بالواسطہ مختلف پراکسی جنگوں میں اپنی ہلاکت خیزی کا مرکز بنائے رکھا۔ مغربی یورپ اور امریکہ کی سامراجی دنیا کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں رہا جو سامراج کے ظالمانہ خونی پنجوں میں جکڑ کر برباد نہ ہوا ہو، یوگوسلاویہ سے افغانستان عراق، شام ، لیبیا اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک تک خوفناک تباہی نہ پھیلی ہو۔

 ان بالواسطہ اور بلاواسطہ قاتل جنگوں کے علاوہ سرمایہ داری کے نیولبرل معیشت اور اس کی ظالمانہ پالیسیوں ڈی ریگولیشن، پرائیویٹائزیشن اور مالیاتی سرمائے کی طاقت کےذریعے تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتوں کو قابو کرنے اور دولت کی لوٹ نے کرہ ارض کے اوپر انسانوں کو بے روزگاری، مہنگائی اور مفلسی کا شکار کرکے کچل دیا ہے امریکی سامراج اور یورپی حکمران گرتی ہوئی معیشت سے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ایسے اقدامات کررہے ہیں جہاں ایک طرف کرہ ارض ماحولیاتی حوالے سے ناقابل رہائش بنا دی گئی ہے تو دوسری طرف انتہائی مہلک اور تباہ کن ہتھیاروں کے ذریعے انسانیت کو فنا کردینے والی حالت کے دہانے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ سرمایہ داری کی اپنی داخلی لڑائی میں امریکی و یورپی سامراجی ممالک کی اجارہ داری اور بالا دستی کو چین اور روس جیسی طاقتور ریاستوں کی سرکردگی میں جنوب کے ترقی پذیر و غریب ممالک نے برکس اتحاد کی شکل میں چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ عالمی تجارت میں ڈالر کی اجارہ داری کو مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کے ذریعے چیلنج  کا سامنا ہے۔ امریکہ نے بحیثیت سامراجی طاقت کے پچھلے عشروں میں پیداوار ترک کر کے صرف ڈالرز ہی چھاپے ہیں جس سے پوری دنیا میں ڈالرز کی اتنی مقدار اکٹھی ہوگئی ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مہنگائی کے علاؤہ ڈالر کی صورت میں مصنوعی دولت کا ایک دیو ہیکل اجتماع ہوا ہے ۔جب کبھی ان ڈالرز نے امریکہ کی طرف واپسی کا راستہ اختیارکیا تو امریکی معیشت، سماج اور ریاست تاریخ میں اَن دیکھے بحران اور بدنظمی کا شکار ہوگا لیکن برکس میں شامل ممالک اور حکمران کسی بھی صورت میں امریکہ اور یورپی حکمرانوں سے کم وحشی اور کم استحصالی خصلت نہیں رکھتے۔ انقلابیوں کو برکس کی نعرہ بازی سے کسی دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے البتہ عالمی سرمایہ دار حکمرانوں کے بیچ لڑائی محنت کشوں اور ان کے ہراول دستے کو وہ سپیس، جگہ اور موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ انقلاب کی جانب اپنی رفتار تیز کردیں۔انہی سامراجی اور طاقتور ریاستوں کے بیچ ریاستی تزویراتی ، معاشی اور مالیاتی مفادات کے بیچ دنیا تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ مختلف تنازعات خونی شکل دھار رہے ہیں۔ آج روئے زمین پر کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں  جو اپنے جوہر اور شکل میں عالمگیریت اور عالمی سیاست کے حوالے سے اہم نہ ہو، جس کے عالمی حکمران طبقے کی حکمرانی اور محنت کشوں کے شعور پر اثرات مرتب نہ ہوتے ہوں۔ یوکرین کی جنگ جہاں نیٹو کی امریکی سامراج کی سربراہی میں سامراجیت کی وسعت پسندی کی سامراجی جنگ ہے جس میں زیلینسکی اور یوکرینی فاشسٹ قوم پرست ایک پراکسی کے طور پر سامراجی گماشتگی اور کٹھ پُتلی کا کردار ادا کررہے ہیں تو وہاں روس کی طاقتور ریاست زار روس کی طرز پر کمزور ممالک کو اپنی ریاست کا بزور جبر حصہ بنانا چاہتی ہے۔ مغربی افریقہ میں برکینا فاسو ، مالی ، گبون اور نائجیر میں فوجی مداخلتوں نے براہ راست فرانسیسی سامراجی تسلط کو چیلنج کیا ہے ۔فوجی جنتا ریڈیکل نعروں کے ذریعے عوامی حمایت جیتنے میں قدرے کامیاب رہی ہیں۔ افریقہ میں محنت کش طبقے کی حجم کے لحاظ سے نحیف حالت، مارکسی تنظیموں خصوصا یورو سینٹرک ٹراٹسکائیٹس کی ان قومی آزادی کی تحریکوں کی جانب پراگندگی پر مبنی نظریاتی و سیاسی پوزیشن، بائیں بازو کا افریقہ کی سماجی و ریاستی ساخت میں ان فوجی مداخلتوں کی روایات سے بے خبری انہیں  اس پورے مظہر سے دورکرتی ہے جو دراصل فوجی جنتا کو کھلی چھوٹ دینے کے برابر ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر فرانس سے دوری کے بعد امریکی سامراج کی گود میں بیٹھ جائیں۔ مغربی افریقی عوام  کی قومی حق خودارادیت اور قومی آزادی کے حق کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں انقلابی پروگرام اور مطالبات کے گرد ریڈیکلائز کرتے ہوئے فوجی جنتا پر انقلابی اقدامات کے لیے مسلسل دباؤ قائم رکھنا انقلابی کیڈرز کا فریضہ ہے جس کا یورو سینٹرک انقلابی کبھی بھی ادراک نہیں کرسکتے۔ اسی بنیاد پر افریقہ میں تمام بڑے ریڈیکل سیاسیی کیڈرز یورو سینٹرک مارکسی تنظیموں کے سخت ناقد ہیں۔

فلسطین اسرائیلی تاریخی تنازعے کی موجودہ حالت نے موجودہ عالمی پولرائزیشن کے دور میں کسی بھی وقت سے زیادہ خونریز شکل اختیار کی ہے اوریہ تصادم ممکنہ طور پر انتہائی تباہ کن نتائج کی عامل ہوسکتی ہے۔  پوری دنیا میں عوام اور محنت کش طبقے کے شعور پر اس ہنگامہ خیزی کے گہرے سیاسی اثرات پڑے ہیں اور جوں جوں تصادم طول پکڑتا جائے گا اس کے ساتھ محنت کش عوام کے شعور پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرتا جائے گا۔ اسرائیل فلسطین تنازعے کے پرامن حل کے خواہش مند انسانی احساس اور ہمدردی کے جذبات تلے ہی امن کی سادہ سی خواہش رکھتے ہیں وہ سامراج اور حکمران طبقات کی دولت کے لوٹ اور بالادستی کی جنونی نفسیات اور سامراجی سرمائے کے تسلط کےتخریبی اور جنگجویانہ کردار سے ناواقف ہیں اس تنازعے میں شامل فریقین کے خیالات ،تصورات اور نفسیاتی کیفیت سے بے خبر ہیں کہ اسرائیل کا پچھلے دو عشروں میں دائیں بازو کا نیتن یاھو کی سربراہی میں ابھرنے والا حکمران طبقہ انسانی حواس سے کتنا عاری ہے۔ صیہونیوں کے سخت گیر مذہبی پیشوا، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آفیسران سمیت صیہونیوں کے غنڈہ عناصر جوحکمرانوں کے اس دھڑے کی تشکیل کرتے ہیں ان کی حکمرانی اور بقاء فلسطینیوں پر ظلم وستم ڈھانے، ان کو قتل کرنے اور ان کی زمینوں و مکانات پر زبردستی قبضہ کرنے کے تسلسل میں ہے۔  یہ دھڑا  فلسطینیوں کو نہ ہونے کے برابر نام نہاد مراعات کے خلاف ابھرنے والا دھڑا ہے، فلسطینیوں کے ساتھ روابط بڑھانے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو قتل کرنے والا شدت پسند گروہ ہے۔ ان کے اقتدار تک رسائی کا راستہ عربوں کے خلاف نفرت اور حقارت کا تخریبی راستہ ہے۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے اس گروہ نے اسرائیلی بائیں بازو اور صیہونی لیبر پارٹی کو کنارے لگایا۔ دوسری طرف حماس ہے ،جس کے بننے ابھرنے اور طاقت حاصل کرنے کے پیچھے محرکات کا اوپر تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا، دراصل وہ فریق ہے  جسے فلسطینی عوام سے بڑھ کر ایرانی ملاں رجیم کے ریاستی مفادات عزیز ہیں جسے مشرق وسطی میں کسی کرائے کے جنگجووں کے طور پر خریدا جا سکتا ہے جس کی قیادت فلسطینی نوجوانوں کے جذبات کا استحصال ان کو حماس میں بھرتی کرکے کرتی ہے۔ ایک مرتب شدہ ریکارڈ کے مطابق حماس سمیت فلسطینی بنیادپرست جنگجووں نے پچھلے 23 سال میں اسرائیل پر چھتیس ہزار راکٹ اور مارٹر گولے برسائے ہیں جس میں 69 اسرائیلی عرب اور یہودی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل کی طرف سے ہسپتال پر صرف ایک راکٹ داغنے کے نتیجے میں 500 سے زیادہ غزہ کے مظلوم فلسطینی ایک لمحے میں لقمہ اجل بنے۔ غزہ کے نہتے لاچار و بے بس عوام اسرائیلی صیہونی نسل پرست ریاست اور حماس کی بنیاد پرستانہ وحشت کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں۔ غزہ جو بغیر چھت کے ایک بہت بڑا زندان ہے جس پر دن رات بمباری جاری ہے جبکہ اس کے باسیوں کے گرد چاروں طرف باڑ ، سمندر یا اسرائیلی فوجی چوکیاں ہیں اور ان سب کے پیچھے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں وحشت ناک موت کا رقص رقصاں ہے۔حماس کے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد نیتن یاھو کی اسرائیل حکومت یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اسے غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں پر جارحیت کرنے کا پورا جواز ملا ہے۔ اسی کے ساتھ لاکھوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر یا انہیں مصر اور دیگر عرب ممالک میں دھکیل کر ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے عظیم تر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کا سنہری موقع میسر آیا ہے۔اسرائیلی اس وجہ سے بھی فلسطینی علاقوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقوں میں فلسطین اور اسرائیل میں موجود پانی کا 80 فیصد حصہ فلسطینیوں کے پاس ہے جبکہ صرف 20 فیصد اسرائیل کی ملکیت ہے۔ اسی طرح غزہ کے ساحل پر گیس کے ذخائر نیتن یاھو کی درندگی کی ایک اور وجہ ہے۔ ظلم کے ان حالات میں مشرق وسطی کے سامراجی گماشتہ اور خصی عرب حکمران خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک آدھ بیان اسرائیل سے شکایت کے طور پر سامنے آیا کہ اسرائیلی جارحانہ اقدامات سے ان کے اوپر عوامی دباؤ بڑھا ہے، وہ درست کہتے ہیں کیونکہ سماجی بے چینی اور اضطراب جو پہلے سے مشرق وسطی کے محنت کش عوام میں موجود ہے عراق، شام، یمن اور لیبیا پر امریکی جارحیت نے ان جذبات کو مہمیز دی تھی ۔اب صیہونی اسرائیلی ریاست کی فلسطینیوں پر درندگی پر مبنی حملے انہیں اپنے حکمرانوں کے خلاف نفرت اور حقارت کے اس درجے پر لے آئے ہیں کہ عرب ممالک میں کسی نئی تحریک اور بغاوتوں کا آغاز ہوسکتا ہے۔اس تحریک اور بغاوت کے وقت اور حالات کا تعین ایک طرف اسرائیلی جارحیت کا پیمانہ اور جنگ کے نتائج کرے گی تو دوسری طرف پوری دنیا میں مظاہرے اور احتجاج اس کی ریڈیکلائزیشن اور رجائیت کا تعین کرے گی۔ عرب اور مسلم حکمرانوں کی منافقت کا اندازہ اردوگان کی اس تنازعہ پر بدلتی ہوئی پوزیشنوں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ الاقصیٰ طوفان کے واقعے سے قبل اقوام متحدہ میں اردگان اور نیتن یاھو کے ملاقات میں یہ قاتل ایک دوسرے کو انقرہ اور تل ابیب کے دورے کی گرم گرم دعوتیں دے رہے تھے۔ 7 اکتوبر کے بعد اردوگان نے تنازعے کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پیشکش کو ترکی کے بائیں بازو کی اپوزیشن جماعتوں اور اردگان کے قریبی اتحادیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شدید دباؤ کے نتیجے میں اردگان کے وزراء اب اسرائیل کی جانب تنقیدی نعرہ بازی کرنے لگے ہیں۔ وہ دن دور نہیں  جب اردگان پاپولسٹ پوزیشن لیتے ہوئے لفاظیت پر مبنی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرکے بونگیاں مارے گا۔  نیتن یاھو، امریکی سامراج اور یورپی حکمرانوں کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ پوری دنیا خصوصا یورپ اور امریکہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اتنے شاندار اور پرہجوم مظاہرے ہونگے  جس میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اور محنت کش عوام سڑکوں پر امڈ آئیں گے۔ انقلابات کے ملک فرانس میں حکومت کو مظاہروں کے خوف سے اس پر پابندی لگانی پڑی جس کے ردعمل میں پہلے سے زیادہ تعداد میں عوام سڑکوں اور چوک چوراہوں پر نکلی جس سے میکرون کو مظاہروں پر سے پابندی اٹھانی پڑی ۔ شکاگو ، نیو یارک پیرس ، لندن ، بار سلونا ، پورے مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ، ایشیاء اور مشرقی و مغربی یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں شاندار مظاہرے جاری ہیں۔ مغرب کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں جنہیں حکمران طبقے کے تعلیمی ادارے گردانا جاتا ہے وہاں بھی طلباء نے بڑے مظاہرے اور احتجاج منظم کیے۔ عالمی سرمایہ دار حکمرانوں کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے حماس کے حملے کو بہت پراجیکٹ کرنے اور دنیابھر میں ہونے والے مظاہروں کی تصغیر اور ان سے صرف نظر کی کوشش کی ۔ان مظاہروں کو حماس کے حق میں ہونے والے مظاہرے قرار دے کر وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتاتھا لیکن سامراجی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اس میں مکمل طور پر ناکام رہا، مظاہرین نے واشگاف الفاظ اور پوسٹرز کے ذریعے برملا اس بات کو واضح کیا کہ وہ ان مظاہروں میں کسی بنیادپرست جنگجو تنظیم کی حمایت کے لیے نہیں بلکہ وہ نہتے مظلوم فلسطینیوں کی اسرائیلی صیہونی ریاست کے ہاتھوں نسل کشی کے خلاف نکلے ہیں۔ حالانکہ جارج حباش اور یاسر عرفات کے وقت میں ہونے والے عالمی مظاہروں میں نوجوان اور عوام مزاحمت کی علامت معروف انقلابیوں کے علاؤہ جارج حباش اور یاسر عرفات کی تصاویر اٹھاتے تھے اور فلسطینی چادر کندھوں پر رکھ کر فلسطینی تحریک کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی بھی کرتے تھے۔

عالمی سطح پر ان مظاہروں نے سامراج اور ان کے گماشتہ حکمرانوں کو شدید پریشان کردیا ہے کیونکہ حکمران جانتے ہیں کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد کا مظاہروں میں امڈ آنا دراصل پورے نظام کے خلاف نفرت اور استرداد کا اظہار ہے۔ اسرائیل اور اس کی جارحیت بھی اسی سامراجی نظام کا ہی شاخسانہ ہے۔ امریکہ، جرمنی اور چند مغربی یورپی ممالک کے علاوہ دیگر تمام ممالک اسرائیل کو کسی بڑے حملے اور قتل عام سے اجتناب کا مشورہ دے رہے ہیں جو دراصل ان کی اپنی حکمرانی کے لیے خطرات کے پیدا ہونے اور عالمی سطح پر عوامی بے چینی کی عکاس ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ بےحس درندے نیتن یاھو نے اپنی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دفاعی اداروں کی سبکی کی قیمت پر 7 اکتوبر کو جو حملہ (واقعاتی اور تاریخی شہادتوں کی توثیق کی بنیاد پر) ہونے دیاتھا اس کی قیمت کم از کم غزہ یا اس کے ایک حصے پر قبضے کرنے کی صورت میں وصول کیے بنا شاید ہی پیچھے ہٹ جائے۔ نیتن یاھو کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پیچھے ہٹنے کی صورت میں اسرائیل کے اندرونی تضادات پھر سے سر اٹھائیں گے جو ناگزیر طور پر اس کی نشستوں کے حوالے سے بظاہر مضبوط حکومت کو مہینوں کے اندر ختم کردے گی۔ نیتن یاھو اپنی حکومت کے تسلسل اور دائیں بازو کے صیہونیوں کی خونخوار پیاس کو نہتے فلسطینیوں کے قتل اور غزہ پر قبضے سے بجھانا چاہتا ہے۔ نیتن یاھو کی مہم جوئی اور اقتدار کا یہ قاتلانہ قبیح کھیل اگر وہ کھیلنے کے لیے میدان میں پوری طرح اترتا ہے تو اس حرکت سے وہ دنیا کو یوکرین سے بھی بڑھ کر کئی ممالک کے کسی بڑے جنگ کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔ امریکی سامراج نے دو بحری بیڑے جو سینکڑوں جنگی جہازوں سے لیس ہیں بحرہ روم پہنچا دیئے ہیں۔ 2000 فوجیوں کو اسرائیلی فوجیوں کے دفاع میں میدان میں اتارنے کے لیے تیار رہنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ  حماس کی قیادت کی جائے مسکن یعنی قطر میں 30000 امریکی فوجی موجود ہیں اور اس کے ساتھ جنگی ہوائی جہازوں کا بھی بہت بڑا اجتماع قطر میں پہلے سے موجود ہے۔ اسرائیل اور امریکہ ایسا تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بہت بڑے دشمن کے خلاف محاذ جنگ کھولنے جارہے ہیں جبکہ درحقیقت یہ ننگی جارحیت غزہ کے زندان کے بائیس لاکھ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ہے جو حماس کے 15000 جنگجووں کے نرغے میں ہیں۔ ۔جنوب میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی زمینی حملے کے ساتھ ہی ایران حزب اللہ کے ذریعے شمال میں اسرائیل کو پریشان رکھنے اور توجہ منقسم رکھنے کے لیے حملہ کرواسکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکی سامراج اپنے فوجی طاقت کے غرور اور رعونت میں غزہ کی محدود پٹی کو اجتماعی سزا کے طور پر فلسطینیوں کی مقتل گاہ تو بنا سکتا ہے جہاں چھپنے اور گوریلا جنگ کے لیے جغرافیائی حالات دستیاب نہیں ہیں جبکہ دوسرے محاذوں پر یہ جنگ سامراج اور اسرائیلی صیہونی فوج کے لیے مقتل بنیں گے۔ اسرائیل کے لیے جنگ کے دوران کسی بھی غیر متوقع جنگی واقعات اور حادثات  جو اسرائیل کے لیے کاری ضرب جیسے ہوں پیش آنے کی صورت میں نیتن یاھو یا پینٹاگون جولمبے عرصے سے ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ایران پر میزائل یا باقاعدہ جنگی جہازوں کے ذریعے حملے کی حماقت کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایران اپنا رد عمل مختلف صورتوں میں دینے کے لیے مجبور ہوگا جس سے یہ جنگ غزہ سے ہٹ کر لبنان، شام اور بالواسطہ ایران کے اتحاد کی شکل میں وسعت اختیار کرسکتی ہے۔ جنگی جہازوں سے لیس امریکی بحری بیڑے مشرق وسطی میں عوامی بے چینی کے کسی بڑے انقلابی تحریک کی صورت میں پھٹ جانے کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ایران کو حد میں رہنے کا عندیہ بھی ہے۔ طاقت کا یہ سامراجی اجتماع امریکی سامراج کی ان مسلسل شکست خوردگی کی نفسیات کا اظہار ہے جو سامراج کو مختلف ممالک خصوصاً افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہوئی ۔ چین اگرچہ حماس کے خلاف اسرائیلی دفاع کی حمایت کرتا ہے لیکن اس نے اسرائیلی جارحیت کو دفاع سے بہت آگے کے اقدامات قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے لیکن چین مشرق وسطی میں امریکی مداخلت اور اس کی پالیسیوں کی ناکامی پر تنقید سے پہلو تہی کررہا ہے جبکہ روس نے اس کے برعکس فلسطین اور اسرائیلی تنازعے کو دونوں فریقین کے ساتھ روس کے تعلقات کی بنیاد پر حل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ روس مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کو خونریزی کی وجہ قرار دے کر امریکہ پر سخت تنقید کررہا ہے لیکن مجموعی طور پر چین اور روس اس جنگ میں سیاسی یا سفارتی سطح پر کھل کر کسی بھی جانب داری سے کترا رہے ہیں۔ برکس بلاک کا صرف تجارتی و ریاستی مفادات تک محدود ہونا اور تنازعات میں اس کا خصی پن مشرق وسطی میں واضح ہوکر سامنے آیا ہے۔ فلسطینی قومی آزادی اور اسرائیلی غیرفطری صیہونی ریاست جسے عالمی سامراجی طاقتوں کی بھرپور عسکری کمک اور حمایت حاصل ہے کے ساتھ تنازعے کا حل سرمایہ داری کے اندر ایک سراب ثابت ہوا ہے۔ اوسلو ایکارڈ جس میں فلسطینیوں کے لیے برائے نام مراعات کا وعدہ تھا وہ بھی شرمندہ تعبیر ہونہ سکا۔ فلسطینیوں کی قومی آزادی اور اسرائیل کے پرامن شہریوں کی سماجی آزادی صیہونی نسل پرست ریاست کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے فلسطینی تحریک آزادی کا نا صرف اسرائیلی محنت کشوں اور عام عوام کے ساتھ جڑنا ضروری ہے بلکہ مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی سیاسی سماجی و معاشی آزادی کی تحریکوں کو آپس میں انقلابی نظریات اور پروگرام کے گرد متحد و منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطیٰ پچھلے عشرے سے تاریخی شاندار اور ریڈیکل تحریکوں کی زد میں رہا ہے۔ لبنان سے عراق اور ایران سے ایشیاء کوچک تک ہر ملک میں شاندار تحریکیں اٹھیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں انقلابات اور سماجی آزادی کی تحریکوں نے محنت کش عوام کے ذھنوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انقلابی تحریکوں کی یہ روایت رجعت کے گہرے سایوں میں روشنی کی کرن کے طور پر یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں ابھرتے رہے ہیں۔ امریکی سامراج ان تحریکوں کی قیادت کو این جی اوز کی مراعات، امریکی شہریت اور ڈالرز کے عوض خریدنے میں تو کامیاب رہا ہے لیکن سماج میں عوام اور نوجوانوں کی بے چینی اور نظام زر کے ظلم اور بازاری معیشت کی جانب ان کی نفرت حقارت اور قہر کو آمریتوں کےذریعے دبانے اور انہیں خوفزدہ کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ کچھ لوگ انقلابی نظریات اور اپنے وجدان کی ڈالرز میں قیمت تو لگا سکتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ سماج کی انقلاب کی جانب حرکت کو کبھی روکا نہیں جاسکتاکیونکہ پوری فطرت اور سماج کے قوانین اور تضادات انقلاب کے ہراول دستے کی تعمیر اور انقلاب کی شرائط تعمیر کرتے جاتے ہیں اور انقلاب کی جانب اجتماعی سفر کو کبھی نہیں روکا جاسکتا۔ عالمی سطح پر رجعتی حالات کے بطن میں سرمایہ داری اور سامراج مخالف تحریکیں نحیف سی شکل میں ہی سہی لیکن ہر خطے میں انکا بلبلوں کی صورت میں ابھرتے اور واپس لوٹنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ یہ بلبلے مختلف سماجوں میں نظام زر کی سخت استحصالی پالیسیوں سے جنم لینے والی مہنگائی، مفلسی ، غربت تنگدستی اور بربریت میں بستی جہنم جیسی زندگی کے خلاف نفرت اور غم و غصّے کی تپش کا اظہار ہیں۔ عالمی سطح پر پوری دنیا ابلنے کی کیفیت میں ہے ۔سوال سرمایہ داری کی جگہ متبادل نظام کا ہے۔ یہ فریضہ خودرو طریقے سے عوام اور محنت کش طبقہ کبھی پورا نہیں کرسکتا۔ اس کا حل نوجوانوں محنت کش مزدوروں اور افتادگانِ خاک کی ایسی سیاسی انقلابی قوت کی تعمیر میں ہے جو سامراج اور اس کے مقامی گماشتہ حکمرانوں کے استحصالی نظام اور اس کی ظالمانہ پالیسیوں اور واقعات کی عوام کو وضاحت دے سکے ،انہیں مارکسزم کے انقلابی نظریات سے مسلح کرتے ہوئے حکمران ریاست اور سامراج سے ٹکرا سکے۔ آج کی دنیا میں کسی بھی انقلابی تحریک کو اکیلا اور تنہا کرنا سامراج کے بس میں نہیں۔ اس کرہ ارض پر کسی جرأت مند اجتماعی قیادت کو ابھارنے اور چنگاری کا کام کرتے ہوئے اس بوسیدہ نظام کو سوشلسٹ انقلاب کی آگ میں بھسم کرنے کا فریضہ پورا کرنا باقی ہے۔ یہ انقلابی کیڈرز کا ایسا اہم امتحان ہے  جس کے ساتھ اربوں انسانوں کی زیست کا سوال جڑا ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے