ہم نے انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (ISL) کیوں چھوڑا؟

ترجمہ:سجاد جمالی

درج ذیل اسٹیٹمنٹ ترکی کی سوشلسٹ لیبر پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے نومبر 2022ء میں جاری کی گئی تھی۔ ترک سوشلسٹ لیبر پارٹی دراصل انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کا سیکشن تھا۔ یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد آئی ایس ایل کی مرکزی [ارجنٹائنی ] قیادت کی جانب سے اس جنگ کے معاملے میں سامراج اور نیٹو نواز موقف اختیار کرنے پر اختلاف پیدا ہوا اور ترک سوشلسٹ لیبر پارٹی نے سامراجی گماشتہ انٹرنیشنل سے علیحدگی اختیار کی۔ اس اسٹیٹمنٹ کا انگریزی ورژن اس لنک پر دستیاب ہے۔

کامریڈز!

جیسا کہ آپ جانتے ہیں سوشلسٹ لیبر پارٹی (SEP) اور آئی ایس ایل کی ایگزیکٹو کمیٹی (IEC) کے درمیان یوکرائن جنگ کے مسئلے پر اہم اختلافات پیدا ہوئے۔ یوکرائن پر روسی حملے کے پہلے مہینوں میں آئی ایس ایل کی جانب سے شائع ہونے والے اعلامیوں میں اختلافات کو شامل کرکے ایک متوازن موقف تھا۔ ایک طرف اعلامیے میں روسی حملے کی مخالفت کی گئی تھی، دوسری طرف، نیٹو(NATO) کے حمایتی نقطہ نظر اور ہمارے نقطہ نظر کے درمیان ایک واضح اور حقیقی فرق تھا۔ تاہم، بعد کے چند مہینوں میں ایم ایس ٹی(MST آئی ایس ایل کا ارجنٹائن سیکشن) کے کامریڈوں نے یکطرفہ طور پر آئی ایس ایل کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک سطر پر مشتمل نعرہ دیا،”روس کی شکست کے لیے جدوجہد“۔ چونکہ یہ حکمت عملی نیٹو کی بھی حکمت عملی تھی اور ہے، اس لیے ہم (SEP) آئی ایس ایل کی پالیسی میں تبدیلی سے بہت تشویش میں پڑ گئے۔ اس سلسلے میں یوکرائنی پالیسی اور یوکرائنی سیکشن دونوں کے حوالے سے ہماری سنجیدہ تحفظات کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔ بعد میں ویب سائٹ میں شامل کیے گئے نئے مضامین اور ویڈیو کانفرنسز نے ہمارے لیے پالیسی میں تبدیلی کو اور بھی واضح کر دیا۔ تنبیہات کو نظر انداز کرنے والے اس یک طرفہ رویے کے پیش نظر، ہمیں آئی ایس ایل کی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کرنا پڑا جس میں انقلابی دوستانہ رویے کی حدود میں رہ کر موجودہ نئی پالیسی پر تنقید کی گئی۔ ایم ایس ٹی نے نہ صرف ہمارے مضمون کو فوراًوبسائٹ سے ہٹا دیا بلکہ ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈز کو تبدیل کرکے، یعنی SEP کو غیر فعال کرکے، ایک لحاظ سے آئی ایس ایل کے اندر کُو کر دیا۔ اپنی اس واردات کا جواز پیش کرنے کے لیے ایم ایس ٹی نے ہم پر آئی ایس ایل کے قانون اور اصولوں کی نافرمانی کے الزامات لگائے۔ ایم ایس ٹی نے یکطرفہ طور پر آئی ایس ایل کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اسے دوسری انتہا پر لے گیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس انتہائی اہم مسئلے پر ہمارے اختلافات ہیں۔ بحث و مباحثے کو حتمی شکل دیئے بغیر اور ہم آہنگی پیدا کیے بغیر پالیسی کی تبدیلی بذات خود ایک غیرجمہوری رویہ ہے جو کسی بھی تنظیمی اصول کے خلاف ہے اور ہمارے مضمون کو بھی تنظیمی اصولوں کی حساسیت کی وجہ سے نہیں ہٹایا گیا یا آئی ایس ایل کے اکاﺅنٹس تک ہماری رسائی کو اس لیے ختم نہیں کیا گیا کہ ہم نے کوئی حساس موضوع چھیڑ دیا ہو یا قانون کی خلاف ورزی کی ہو بلکہ جو حقیقی بحث تھی اس کو روکنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ آپ سب نے آئی ایس ایل”ڈسکشن بلیٹن“ نامی دستاویز پڑھی ہوگی۔ دستاویز میں SEP کا مضمون ہماراہی مضمون تھا جسے ایم ایس ٹی نے آئی ایس ایل کی ویبسائٹ سے ہٹا دیا اور یہ مضمون ”ڈسکشن بلیٹن“ کے لیے نہیں لکھا گیا تھا۔اس مضمون کے جواب میں چار مضامین لکھے گئے۔ اس حوالے سے ہمیں جواب دینے کا کم از کم ایک اور موقع ملنا چاہیے تھا لیکن نہیں ملا۔ ہمارے مضمون کو ویبسائٹ سے ہٹانے اور پاس ورڈز کی تبدیلی کے بعد ہمارے لیے یہ بات واضح ہو گئی کہ موجودہ IEC (انٹرنیشنل ایگزیکٹو کمیٹی) کے ساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ مضمون جو آپ پڑھیں گے اس کا مقصد SEP کی آئی ایس ایل سے علیحدگی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ”ڈسکشن بلیٹن“ پر رد عمل کی وضاحت کرنا بھی ہے۔ کچھ ساتھی پوچھیں گے: کیا ہم آئی ایس ایل میں رہ کر ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے نہیں لڑ سکتے؟ سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ جن بنیادوں پر یہ بات چیت کھلے عام منعقد کی جا سکتی تھی انہیں ایم ایس ٹی نے پہلے ہی ڈھا دی ہیں۔۔
بحث کو شروع کرنے کے حوالے سے’ پہلے آئی ایس ایل کی غیر معمولی کانگریس کی تجویز پیش کی گئی اور پھر اسے فوراً ترک کر دیا گیا۔ اس کے بجائے، IEC کا ایک توسیعی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام سیکشنز کی قیادت کو شرکت کرنی تھی پھر اس فیصلے پر بھی عمل نہیں ہوا۔ جب ہم نے پاکستانی سیکشن سے پوچھا کہ کیا اس معاملے پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو انہوں نے ہمیں کوئی بھی جواب نہیں دیا۔ پاکستانی سیکشن نے یوکرین جنگ کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرنے سے بھی گریز کیا اور بدقسمتی سے خود کو مکمل طور پر ایم ایس ٹی کے موقف کے تابع کرلیا۔ ہم نے جتنی بھی شدید تنقید اور معلومات ان کے سامنے رکھیں اس کے باوجود، IEC کے دیگر اراکین کی ایک دوسرے کے ساتھ سو فیصد اتفاق رائے اور حقیقی بحث کی روک تھام نے ثابت کیا کہ جو وہ خود کو دکھانا چاہتے تھے وہ حقیقت میں ویسی ہے نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔ اصل میں آئی ایس ایل ایک قیادت کے شکنجے میں پھنسی ہوئی تنظیم ہے۔ آئی ایس ایل کی آئی اِی سی (IEC) زیادہ تر ارجنٹائنیوں پر مشتمل ہے سوائے پاکستان کے۔ چلی کا ایک نیا چھوٹا سیکشن اور یوکرائن کا سیکشن ہے(جس کے ہم شدید نقاد ہیں)۔ایم ایس ٹی کے احکامات پر بغیر کسی سوال کے عمل کیا جاتا ہے۔ اسی انا پرستی اور خودسرانہ رویے نے فرانسیسی سیکشن ”لا کمیون“ کو ختم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
انٹرنیشنل کی تعمیر کے بنیادی تنظیمی مسائل کے علاوہ، ایم ایس ٹی نے یوکرین کے بارے میں جس سیاسی رجحان کا مسلسل دفاع کیا ہے، اس میں بڑی کوتاہیاں ہیں۔یہ حقیقت کہ مورینسٹ فیملی (UIT، LIT، وغیرہ) بشمول ایم ایس ٹی نے یوکرین جنگ اور دیگر اہم بین الاقوامی واقعات (شام، لیبیا، وینزویلا، وغیرہ) میں بالکل اسی طرح کے غلط رویے اختیار کیے، یقینا کوئی اتفاق نہیں بلکہ اس مسئلے کی گہری نظریاتی جڑیں ہیں۔ سامراجی جنگیں پوری تاریخ میں سوشلسٹوں کے لیے لٹمس ٹیسٹ(Litmus Test) کا کام کرتی رہی ہیں۔ یہ ہمیشہ سے ایک ضرورت رہی ہے کہ ان لوگوں سے دور رہا جائے جو امتحان پاس نہیں کر پاتے۔ آج ہمیں ایک ایسے ہی دوراہے کا سامنا ہے۔اگرچہ ہم انقلابی مارکسی تنظیموں کے اندر پھیلی ہوئی تقسیم اور فرقہ پرستی سے نفرت کرتے ہیں لیکن ہم ان ضابطوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جو انقلابیوں کے پاس ہونے چاہئیں۔ جزوی اختلافات کی حامل عالمی تنظیم کا خیال آج بھی کارآمد ہے لیکن سامراجی جنگ کی طرف رویے کا معاملہ ”جزوی اختلاف“ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہ اختلافات اُس وقت اور بھی اہم ہو جاتے ہیں جب سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ سامراجی جنگیں بھی پھیل رہی ہوں۔ مختصر یہ کہ جنگ اور انقلاب جیسے نازک مسائل پر علیحدگی بالکل بھی غیر ضروری نہیں ہے، یہ انقلابی جدوجہد کی ترقی کے لیے زیادہ ضروری ہے۔ اس تناظر میں، ایم ایس ٹی (جو آئی ایس ایل کو چلا رہی ہے) اور SEP کی موجودہ پوزیشن کے درمیان اصول اور طریقہ کار پر اختلاف ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اب سے، SEP ترکی کے علاوہ کردستان، آذربائیجان، ایران، افغانستان اور جرمنی میں کامریڈز کے ساتھ ایک بین الاقوامی تنظیم کی تشکیل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
اس سلسلے میں ہمارے کام اور موجودہ مسائل پر نقطہ نظر socialistmiddleeast.com پر شائع کیا جائے گا۔ دوسری طرف ہم مختلف روایات سے تعلق رکھنے والی دوسری انقلابی مارکسی تنظیموں کے ساتھ اپنی قوتوں کو متحد کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہیں گے۔
ہم مندرجہ ذیل موضوعات کے تحت یوکرین جنگ پر آئی ایس ایل کی مسلسل غلطیوں کا جائزہ لیں گے۔
٭ جنگ کے کردار کی غلط تشخیص کی گئی۔ جنگ شروع کرنے اور اس کی قیادت کرنے میں نیٹو کا جو کردار تھا اس سے انکار کیا گیا۔ اس طرح روس کے حملے کی مخالفت کرتے ہوئے آزادانہ موقف وضع نہیں کیا جا سکتا۔
٭ مغربی محنت کش طبقے کو مشورہ دیا گیا کہ وہ عملی طور پر وہی پوزیشن اختیار کریں جو ان کی سامراجی ریاستیں اختیار کرتی ہیں کہ ”روس کی شکست کی جدوجہد“
٭ یہ دعویٰ کہ روس کی شکست ترقی پسند نتائج کا باعث بنے گی، موجودہ پالیسی کی بنیاد بن گئی۔
٭ یوکرین کو فلسطین یا مقبوضہ عراق کے طور پر پیش کیا گیا، نہ کہ ایک ایسے ملک کے طور پر جو نیٹو سے تقریباً لامحدود ہتھیار اور مالی امداد حاصل کرتا ہے۔
٭ سامراجیت کے ڈھانچے کی نوعیت اور امریکہ، جو ابھی تک عالمی سامراجیت کا سپر پاور ہے، کی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اسے مستحکم کرنے کی حکمت عملی کو سمجھ نہیں سکے۔
٭ مورینسٹ رجحان، جو آمریت کی حامل ممالک میں جمہوری انقلابات کا دفاع کرتی ہے، عملی طور پر یہ حکمت عملی امریکہ کی طرف سے استعمال کردہ”جمہوریت بمقابلہ آمریت“ کے جھوٹے تضاد سے مشابہت رکھتی ہے۔ فطری طور پر جمہوری مرحلہ واریت اپنے ساتھ بورژوا قوتوں کے ساتھ تعاون کا رجحان لاتی ہے۔
٭ اس چیز کو نظر انداز کیا گیا کہ 2014 میں میڈن بغاوت کے بعد یوکرین میں حکومت انتہائی دائیں بازو کی خصوصیات رکھتی ہے اور مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ کچھ بنیادی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا، جیسا کہ یہ حقیقت کہ کیف میں پارلیمنٹ نے نسل کشی کرنے والے سٹیپن بنڈیرا کی سالگرہ کو قومی دن قرار دیا۔
٭ ایم ایس ٹی اس قدر ڈھیلی ڈھالی اور لاپرواہ ہے کہ وہ ”یوکرائن کی عظمت “ کے نعرے کے ساتھ ایک احتجاج منظم کرتی ہے۔ یہ نعرہ دہائیوں سے انتہائی دائیں بازو کی علامت رہی ہے۔ یعنی جو چیز بظاہر مقبول ہے اسے اپنایا جائے۔
٭ اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ یوکرائنی سیکشن جو ماضی سے لے کر آج تک، ایسا قوم پرست نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ یوکرائنی قوم پرستی کی انتہائی دائیں بازو کی شکلوں کا بھی اظہار کر جاتا ہے۔
ان نکات کی مختصر وضاحت:
جنگ کا کردار اور روس کی شکست کا پروپیگنڈا
اختلاف کا مرکزی نکتہ آئی ایس ایل کی جانب سے ”روس کی شکست“ کے نعرے کو اپنا مرکزی موقف بنانا ہے حالانکہ یہی نعرہ نیٹو کی بھی مرکزی حکمت عملی ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار کرنے والوں کو سنجیدہ نہیں لے سکتے۔ جنگ کو محض پیوٹن کی توسیع پسندی کے طور پر پیش کرنا اور امریکی توسیع پسندی سے ہم آہنگ موقف اختیار کرنا حالیہ تاریخ میں سب سے افسوسناک عمل ہے۔ اس طرح کی ہم آہنگی کو معمول کے طور پر دیکھنا بھی خطرناک ہے۔ علامتی طور پر بولی جانے والی نیٹو مخالف باتیں اس ہم آہنگی کو دھندلا نہیں سکتیں۔ حالیہ واقعات سے واضح ہوگیا ہے کہ غلط رویے کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مشرقی یورپ کے علاوہ امریکہ/نیٹو نے مشرق بعید تک بھی چین کے خلاف گھیراؤ کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی حوالے سے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اس توسیع پسندانہ حکمت عملی کے طور پر، امریکی سامراج تائیوان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ یہ سب ہم یوکرائن میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔
جب ہم سربیا-کوسوو، آرمینیا-آذربائیجان اور ایران-سعودی عرب، جو جنگ کے بہت قریب ہیں، کو مدنظر رکھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سامراجی جنگوں کے پھیلنے کا امکان انہی خطوط پر ہی بڑھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوکرین پر روسی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی موقف کی طرف مڑ جانا سنگین غلطیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ہم امریکہ، جو ابھی تک سامراجی طاقتوں کا سرخیل ہے، کی جارحانہ گھیراؤکی پالیسیوں کے بارے میں محتاط نہیں رہے تو ہم خود کو امریکہ/نیٹو کی حکمت عملی کے حمایتیوں میں پائیں گے۔ تمام تر مسئلہ جنگ کے کردار کی غلط تشخیص کے گرد گھومتی ہے۔
اگرچہ ایم ایس ٹی کے کامریڈ جنگ کے دہرے کردار کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں آئی ایس ایل کی پالیسی یک طرفہ ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ یوکرین پر قبضے کی وجہ سے جنگ کا کردار ایک طرف قومی ہے اور دوسری طرف روس کے خلاف نیٹو کی پراکسی وار کی وجہ سے یہ بین الاقوامی بھی ہے۔ تاہم آئی ایس ایل کی موجودہ پالیسی، اس دہرے پن کے برعکس، یوکرین کی جنگ کو سامراجی روس کے نوآبادیاتی یوکرین پر حملے سے تعبیر کرتی ہے اور انہی خطوط پر”روس کی شکست“ کی پالیسی کو اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس طرح اس رجعتی پراکسی جنگ کو ”جائز جنگ“ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر، نیٹو سے اپنی ہم آہنگی کو چھپانے کے لیے، یوکرین میں حکومت کے لیے ”فوجی، نہ کہ سیاسی حمایت“ کا ذکر کیا گیا ہے۔گویا سیاسی اور عسکری حمایت الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس طرح کے فرق کی بات کرنا سامراج کی نوعیت کو سمجھنے میں ناکامی کے مترادف ہے کیونکہ سامراجیت کے دور میں معاشی، عسکری اور جغرافیائی سیاسی شعبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آئی ایس ایل کی موجودہ پالیسی میں‘ امریکی سامراج کی یوکرین میں کئی سالوں سے پالیسی اور موجودہ جنگ میں اس کی مداخلتوں کو چھپایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، 2014 کے بعد کیف میں بننے والی حکومت ایک انتہائی دائیں بازو کی حکومت بن گئی ہے جو منظم طریقے سے اقلیتوں پر جبر کرتی ہے اور یوکرین‘ امریکہ کی گماشتہ ریاست میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد نیٹو کی توسیع پسندی اور گھیراؤ کی پالیسی اوریوکرائن کی حالیہ تاریخ میں داخلی تنازعات کو آئی ایس ایل نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔ آئی ایس ایل کی موجودہ قیادت حالیہ تاریخ کے ان حقائق سے آنکھیں چرا رہی ہے کیونکہ یہ ان کو اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ یوکرائنی جنگ ”جائز جنگ“ نہیں بلکہ سامراجیوں کے درمیان ”پراکسی وار“ ہے۔ امریکہ کے لیے یوکرین کی جنگ کا پس منظر نیٹو کی توسیع کرنا، اس کے طاقتور ہوتے ہوئے حریفوں کا گھیراؤ کرنا، پھر ان کوفوجی اور معاشی شکست دے کر بالآخر ٹوٹ پھوٹ کی طرف لے جاناہے۔ دوسرے لفظوں میں”روس کی شکست“ کی پالیسی نیٹو/امریکہ کے تزویراتی عزم کا اظہار بھی ہے۔ اس لیے ”روس کی شکست“ کے نعرے کے گرد مغربی ممالک میں محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کی کوشش کرنا دراصل نیٹو کے ساتھ تعاون ہے۔ آئی ایس ایل کو اس تاریخی غلطی کو فوری طور پر درست کرنا چاہیے۔ ہم اس غلطی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
کیا نیٹو جنگ میں شامل نہیں ہے؟
نیٹو پہلے ہی کامریڈ الاندرو کے ”روس کی شکست“ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کر رہا ہے جیسا کہ سب کو پتا ہے کہ نیٹو یوکرائنی ریاست کو لامحدود اہم ہتھیار، رقم اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کررہا ہے۔ اس کے علاوہ، نیٹو کی فوجی مہارت، جنگی ساز و سامان، اورعسکری تربیتی تعاون جنگ پر براہ راست اثر انداز ہورہے ہیں۔ یوکرائنی فوج کی اب تک کی کامیابیوں کو محض یوکرائنی قوم پرستی اور قومی دفاعی تحریک سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نیٹو میدانِ جنگ میں براہ راست نہیں لڑ رہی ، اس لیے اس جنگ کا کوئی سامراجی کردار نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امریکی زمینی فوج شاید میدان میں سرگرم نہ ہو سکیں لیکن وہ اہم جنگی حکمت عملیوں اور آلات کے ساتھ جنگ میں شامل ہیں۔ سیٹلائٹ اور ڈرون سپورٹ کی بدولت، نیٹو آپریشن روم(NATO Operation Room) یوکرین کی فوج کو روسی فوجیوں، کمانڈ پوسٹس، سپلائی روٹس اور گولہ بارود کے ذخیروں اور ان کے محل وقوع کے حوالے سے آگاہ کرتا ہے۔ پھر HIMARS میزائل بھی تو ہیں جو اِن اہداف کوٹھیک نشانہ بناتے ہیں۔ توکیا یوکرین کی فوج نیٹو کے ماہرین کے بغیر ان جدید میزائل سسٹم کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے علاوہ نہ صرف برطانیہ یا امریکہ میں‘ بلکہ یوکرائنی فرنٹ لائن پر نیٹو یونٹس فوجی تربیت دے رہے ہیں اور جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ مغربی میڈیا میں ان کے بارے میں بہت سی خبریں دیکھ سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ امریکہ چونکہ ایٹمی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتا اس لئے وہ براہ راست جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن دوسرے طریقوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی جنگ کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ روسی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش ان کے عزائم کا ایک اور پہلو ہے۔ اس لیے یوکرین کی جنگ امریکہ کی پراکسی جنگ بھی ہے۔ جو لوگ اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں وہ جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ نیٹو نے یوکرین کو زیادہ موثر ہتھیاروں کی فراہمی بڑھا دی جس کی وجہ سے ڈونباس میں روس کی پیش قدمی جولائی میں آکر رک گئی۔ پھر کیف کے جوابی حملے شروع ہوئے اور روسی فوج کو تقریباً ہر علاقے میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ ستمبر میں تمام محاذوں پر روسی فوج کی شکست کے امکانات ظاہر ہوئے ۔ ہمارے سامنے روسی فوج‘ نیٹو کی پشت پناہی سے لڑی جانے والی جنگ میں ٹوٹ پھوٹ رہی ہے جسے جان بوجھ کر آئی ایس ایل کی پالیسی میں دنیا کی دوسری سب سے طاقتور فوج کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ روسی فوج یوکرین کی فوج کے جوابی حملے کی مزاحمت کے لیے ایران کے ہتھیاروں پر انحصار کر رہی ہے۔
دوسری طرف ہم یہ جانے بغیر یوکرین کو نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح نیٹو نے کیف میں معاملات اپنے ہاتھ میں لیے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی تھی۔ 2014 کے بعد، کیف میں ریاست کی ایک نئی شکل آمریکا کی کمان میں تشکیل دی گئی‘ جس میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کو کلیدی عہدوں پر رکھا گیا اور بائیں بازو کی اپوزیشن کو کچلا گیا اور روسی بولنے والی اقلیت پر ظلم کیا گیا۔ اسی لیے ہم اسے ”کیف حکومت“ کہتے ہیں۔ اگر ایم ایس ٹی کے کامریڈوں نے یوکرین پر قبضے کی بات کرنی ہے، تو انہیں 2014 میں حکومت کی تبدیلی سے شروعات کرنی چاہیے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں یوکرین کی حالیہ تاریخ کا چشم کشا مثالوں اور شواہد کے ساتھ جائزہ لیا تاہم، آئی ایس ایل کی جانب سے جواب میں پیش کیے گئے چار مضامین میں، حالیہ تاریخ کے بارے میں ان بنیادی حقائق کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
کلاز وٹز نے اپنے مشہور زمانہ جملے میں کہا تھا کہ جنگیں سیاست کو دوسرے ذرائع سے جاری رکھنے کا نام ہے۔ آج موجودہ جنگ کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے نہ صرف فروری 2022 کے واقعات کو دیکھنا ہوگا، جب جنگ شروع ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یوکرین کی خانہ جنگی اور یورو میڈن کُو کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ان حرکیات کو سمجھے بغیر صرف سطحی اور تاثراتی نتائج ہی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نیٹو/امریکہ نے بالآخر 2014 میں یوکرین کا انتظام سنبھالا اور ملک کو جنگ میں جھونک دیا۔ مشرقی اور مغربی یوکرائن کی اولیگارشی پر مشتمل ملکی بورژوازی نے سامراجی قوتوں (امریکہ اور روس) کو اپنے داخلی تنازعات میں شامل کیا۔ یہ طاقتور اشرافیہ ایک آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی بنانے میں ناکام تھی اور امریکہ کی مداخلت سے ملک کو جنگ میں دھکیل دیا۔ صرف روسی جارحیت اور قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے جنگ کے دیگر پہلوﺅں کو نظرانداز کرنے سے جنگ کے کردار کو سمجھا نہیں جا سکتا۔
آئی ایس ایل مغربی محنت کش طبقے کو کیا پیغام دیتی ہے؟
آئی ایس ایل کی موجودہ یوکرین پالیسی ناگزیر طور پر مبہم اور رجعتی نتائج کی حامل ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ”روس کی شکست“ کا نعرہ مغربی محنت کش طبقے کے شعور پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔ اپنے سامراجی حکمران طبقے کے ساتھ اسی پالیسی (روس کی شکست) پر اکٹھے ہونے کا مطلب محنت کش طبقے کو سامراجی بورژوازی کی تابعداری میں چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔ یہ پالیسی محنت کش طبقے کو سامراجی جھوٹ اور جنگی پروپیگنڈے کے خلاف اپنے ہتھیار پھینکنے کا درس دے گی۔ اس وقت مغربی حکمران طبقہ روس کے خلاف بہت فعال مہم چلا رہا ہے۔ سامراجی مراکز میں سرکاری عمارتوں پر یوکرین کا پرچم لہرا رہا ہے۔ میڈیا ، شہر کے چوکوں اور گلیوں میں روس مخالف پروپیگنڈہ جاری ہے۔
اگر مغرب میں محنت کش طبقہ جمہوریت اور آزادی کے جھوٹے پراپیگنڈے کی بنیاد پر اپنے سامراجی حکمران طبقے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں تو انہیں آغاز سے ہی شکست ہوگی۔ محنت کش طبقہ اگر جنگ میں اپنے حکمران طبقات کے کردار کو نہیں سمجھتا اور اس کی مخالفت نہیں کرتا ‘وہ معاشی بحران اور جنگ کی قیمت ادا کرے گا کیونکہ بالآخر روس خوراک اور ایندھن کے اخراجات میں ناقابل برداشت اضافے کے لیے ذمہ دار ہوگا۔ مغربی سامراجی بورژوازی کا استدلال ہے کہ یوکرین کی دفاع کے لیے ”آزاد دنیا“ کو یہ قیمت اداکرنی چاہیے ۔ دوسرے لفظوں میں نیٹو اور امریکامحنت کشوں سے ” روس کی شکست“ کے لیے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہی آئی ایس ایل کا بھی مرکزی نصب العین ہے۔ جہاں جنگ کے اثرات سے معاشی بحران نے محنت کشوں کو تیزی سے غریب کر دیا، وہیں آئی ایس ایل کی طرف سے روس کی شکست کا بدترین نعرہ لگایا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے، پورے یورپ میں ہڑتالیں اور مظاہرے بڑھ رہے ہیں اور وسیع تر عوام یوکرائن کی جنگ میں اپنے ہی حکمران طبقات کے کردار کو مسترد کر رہے ہیں۔
اگر سامراجی مراکز میں سوشلسٹ اپنے سامراجی حکمران طبقوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے تو یہ کاﺅتسکی والی سوشلزم ہوگی۔ آئی ایس ایل کے موجودہ تناظر کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ محنت کش عوام یوکرائن کی فتح کے لیے اپنی سامراجی ریاستوں کی جنگ میں زیادہ گہری شمولیت کا مطالبہ کریں گے۔ اسی منطق سے بائیڈن اور بورس جانسن جیسے پرجوش یوکرینی محافظ، جنہوں نے روس کے خلاف جنگی پالیسیاں اپنائیں، عوامی حمایت حاصل کریں گے۔ اس صورت میں، تنقیدی رویہ صرف اس سے بھی زیادہ دائیں بازو کی طرف سے ہی بنایا جا سکتا ہے۔”آپ یوکرین کو مزید ہتھیار کیوں نہیں بھیجتے؟“
ایک یوکرائنی رضاکار، جس کا ذکر آئی ایس ایل کی ویب سائٹ پر ایک انٹرویو میں آئی ایس ایل کے رکن کے طور پر کیا گیا تھا، دوسرے ممالک میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجیں۔ یوکرین کو مزید بیریکٹر (Bayraktar) ڈرون بھیجیں! اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اے کے پی(ترکی کی حکومت) حکومت پہلے ہی”فخر کے ساتھ“ بیریکٹر ڈرون کی ایک بڑی تعداد یوکرین بھیج چکی ہے، یہاں تک کہ کچھ مفت بھی۔ اگر ہم اس یوکرائنی رضاکار کی بات سنتے اور اردگان سے یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجنے کا مطالبہ کرتے تو ہم انقلابی ہی نہ رہتے۔ یہ ہے ایم ایس ٹی کی زیر قیادت آئی ایس ایل کی پوزیشن!
کچھ مورینسٹ پارٹیاں پہلے ہی مذکورہ بالا جنگی موقف اپنا چکی ہیں۔ وہ یوکرین کو ناکافی ہتھیار بھیجنے پر نہ صرف نیٹو کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ان کا موقف ہے کہ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کیا جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ زیادہ جارحانہ اور جنگجو پوزیشن اختیار کرے۔ عملی طور پر ان کا موقف عالمی جنگ بڑھکانا ہے۔ یہ لوگ خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں! تاہم، حقیقی انقلابی مارکسی روایت کارل لیبنیخت کا نعرہ لگاتے ہیں کہ ”اصل دشمن اندر ہے“۔ ایک حقیقی انقلابی، محنت کش طبقے کے اعمال اور شعور کو ایک انقلابی سمت میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایم ایس ٹی اپنی دفاع میں‘ نیٹو کے خلاف اپنی ہمدردانہ بیان بازی کرسکتا ہے لیکن ایک کارکن جو روس کی شکست کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتا ہے وہ فوری طور پر اس دفاع پر اعتراض کرے گا: ”اگر بنیادی مسئلہ یوکرین کی فتح ہے تو آپ کیوں چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ سے نکل جائے؟“ یہاں پر آئی ایس ایل کی نیٹو کے خلاف علامتی گفتگو کا خالی پن ابھر کر سامنے آتا ہے۔متذبذب عوام یقینا اعتراض کریں گے: ”کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ نیٹو کے بغیر ’روس کی شکست‘ ممکن نہیں اور پھر روس دوسرے مشرقی یورپی ممالک پر بھی حملہ کریگا!“  اگر اصل مسئلہ روس کی شکست ہے تو کیوں نہ نیٹو سے یوکرین کو اس سے بھی زیادہ موثر ہتھیار بھیجنے کا کہا جائے جیسا کہ USFI نے کیا؟ اگر اصل مسئلہ روس کی شکست ہے تو نیٹو کی مخالفت کرنے والے عمل کو عوام بالکل بے معنی اور یقینا نقصاندہ سمجھیں گی کیونکہ نیٹو کے بغیر روس کو شکست دینا ممکن نہیں۔
نیٹو پر ایم ایس ٹی کی تنقیددراصل یوکرین جنگ میں ایم ایس ٹی کی نیٹو کے ساتھ ہم آہنگی پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ چند الفاظ جو نیٹو کے خلاف محض علامتی ہیں وہ کوئی عملی معنی نہیں رکھتے۔ برنی سینڈرز جیسے محب الوطن لوگوں کا موقف عوام کے لیے زیادہ قابل قبول ہوگا جو چاہتے ہیں کہ بغیر وقت ضائع کیے یوکرین کو بھرپور عسکری کمک دی جائے۔ یہ کاؤتسکی ازم کا ریاست کے حق میں ہونے والا موقف ہے۔ اس لیے مغرب کے سوشلسٹوں کو روس کی شکست کے لیے لڑنے کے لیے کہنا ایک تباہ کن پالیسی ہے۔ مغربی بلاک میں سوشلسٹوں کو اپنے حکمران طبقے کی توسیع پسندانہ پالیسی کے خلاف جدوجہد کے لیے عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ محنت کش طبقہ ایسے رویے کے بغیر انقلابی نہیں ہو سکتا اور اگریوکرین میں نیٹو/امریکا کی مداخلت کا راستہ نہیں روکا گیا تو آمریکا آسانی سے چین کے خلاف اشتعال انگیزی کو جاری و ساری رکھے گا۔ لہٰذا روس کو شکست دینے کا نعرہ، جسے آئی ایس ایل نے باضابطہ اپنے موقف کے طور پر پیش کیا ہے، ایک ایسا نعرہ ہے جو محنت کش طبقے کے شعور کو آگے نہیں بلکہ پیچھے لے جائیگا۔ اس پالیسی کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ عملی طور پر محنت کش اپنی سامراجی ریاستی پالیسی کی حمایت کریں گے۔ ڈسکشن بلیٹن میں ہمارے خلاف لکھے گئے چار آرٹیکلز میں اس مسئلے پر جو تنقید کی گئی، ان میں ہمارے تخفظات کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس مسئلے پر صرف ایک تبصرہ روبن زانوف کا حیران کن سوال ہے کہ ایک بین الاقوامی تنظیم مختلف ممالک میں کیسے متضاد موقف اختیار کر سکتی ہے۔ اس حیرت سے پتہ چلتا ہے کہ انقلابی نقطہ نظر کا فقدان کتنا گہرا ہے۔ سب سے پہلے ایک عالمی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والی تنظیم کو دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت اور اس کے زیر اثر ممالک میں رہنے والے محنت کشوں کے بارے میں واضح رویہ رکھنا چاہیے۔ اس وضاحت کو ”اندر کے حقیقی دشمن“ کے نقطہ نظر سے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف مختلف ممالک میں عالمی تنظیم کے سیکشنز کے مختلف طریقہ کار ہوسکتے ہیں اور مختلف ممالک کے انقلابیوں کے لیے مخالف سمت میں رجحان رکھنا ضروری ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر”روس کی شکست“ کا نعرہ جو روس میں انقلابی نعرہ ہے، مغرب میں یہ سامراج کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔ یہ ظاہری تضاد قومی ریاستوں میں تقسیم سامراجی عالمی نظام کی ساخت اور محنت کش طبقے اور بورژوازی کے درمیان ناقابل مصالحت تضاد کی وجہ سے ہے۔انقلابی محنت کش طبقے کو اندر اور باہر اپنی بورژوازی کی پالیسیوں کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری تجویز کردہ پالیسی متضاد نہیں ہے بلکہ اس کا ایک تکمیلی کردار ہے۔ یونان اور اٹلی میں ریلوے اور ایئر لائنز کے کارکنوں نے یوکرین جانے والے نیٹو ہتھیاروں کو روک دیا۔ بیلاروس میں ریلوے کے محنت کشوں نے روسی کارگو کو روکنے کے لیے ایسا ہی کیا۔ اپنے حکمران طبقوں کی سامراجی پالیسیوں کی نفی کرنے کی کوشش کرنے والے مزدور مستقبل کی امید ہیں۔ جنگ کے قومی اور بین الاقوامی کردار کے درمیان تضاد کی وجہ سے آئی ایس ایل کو مختلف ممالک میں مختلف طریقے(tactics) استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ بدقسمتی سے، آئی ایس ایل اس نقطہ پر ناکام ہو گیا ہے۔ یہاں پر اہم بات محنت کش طبقے کے شعور، تنظیم اور جدوجہد کے فروغ کا ہے جس میں آئی ایس ایل پوری طرح ناکام ہے۔
ایس ای پی(SEP) نے شروع سے ہی درج ذیل موقف کا دفاع کیا ہے:
٭روس کے اندر انقلابیوں کو Defeatistموقف اپناتے ہوئے جنگ مخالف تنظیم سازی اور پروپیگنڈا کرنا چاہیے۔
٭یوکرین میں انقلابی‘ کیف حکومت کے برخلاف ایک آزادانہ موقف اختیار کریں۔ زیر زمین تنظیمیں تشکیل دیں اور روسی قبضے اور نسلی جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے یوکرائنی اور روسی مزدوروں اور سپاہیوں کو دونوں ا طراف کی اشرافیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کریں۔
٭ مغرب کے انقلابی ‘جنگ مخالف تحریک میں اپنی سامراجی ریاستوں کے خلاف جدوجہد کریں‘ ہتھیاروں کی ترسیل کی مخالفت کریں اور اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کریں۔
اگر روس کو جنگ کے اختتام پر شکست ہوجاتی ہے
ایم ایس ٹی کے رہنما الاندرو بوڈارٹ کا دعویٰ ہے کہ روس کی شکست کا مطلب نیٹو کی فتح نہیں ہے اور اس کمزور دعوے کی تائید کے لیے وہ دلیل دیتا ہے کہ نیٹو کی اصل طاقت کوئی اور نہیں بلکہ خود پیوٹن ہے‘ جس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ ٹھیک ہے ! مان لیا کہ کریملن میں بیٹھا آمر اور اس کے ارد گرد اشرافیائی ڈھانچے نے ثابت کیا ہے کہ وہ یوکرین اور عالمی صورتحال کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ اپنی بدعنوانی اور نااہلیوں سے بے خبر ہونے کی وجہ سے انہوں نے جو کچھ کرنا تھا اس میں نااہل ثابت ہوئے اور گڑبڑ کر دی۔ انہوں نے جو غلطیاں کیں ان کا مطالعہ جنگوں کی تاریخ میں ایک سبق کے طور پر پڑھا جائے گا۔ لیکن ہمارا موضوع یہ نہیں ہے! ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا روس کی شکست امریکہ کی مضبوطی کا باعث بنے گا یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس سے الاندرو بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا جواب کسی بھی سنجیدہ شخص کے لیے واضح ہے۔ اس جنگ کا ماضی، حال اور مستقبل‘ نیٹو کا ہے۔ اگر روس ہار جاتا ہے تو سامراجی تنظیمی ڈھانچے کی چوٹی پر بیٹھے امریکہ کو یقینا ایک زبردست کامیابی حاصل ہوگی اور وہ مختلف ممالک میں اپنی تسلط پسندی اور جارحیت کے ساتھ ان کامیابیوں کو جاری رکھنا چاہے گا۔ یوکرین میں امریکہ کی کامیابی یا ناکامی اس کی چین کا محاصرہ کرنے اور امریکہ کی قیادت میں ایشیا پیسفک میں ایک وسیع چین مخالف محاذ کو اکٹھا کرنے کی پالیسی کے لیے بھی فیصلہ کن ہے۔
الاندرو بوڈارٹ اور دوسرے کامریڈز کے ایک اور دعوے کے مطابق اگر روس کو شکست ہوئی تو پیوٹن کی آمریت کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور روس میں مظلوم قومیں اپنی ”آزادی“ دوبارہ حاصل کر لیں گی! مغرب کے انقلابیوں کے لیے یہ فرضی نتائج ان کی اپنی ریاست کی سامراجی پالیسیوں کی پشت پناہی کرنے کا بہانہ نہیں بن سکتی۔ سب کو سب سے پہلے اپنے حکمران طبقے کا گھیراؤ کرنا ہوگا۔ یہ اصول انقلابی حکمت عملی کا سب سے بنیادی نقطہ آغاز ہے۔ کسی دوسرے ملک میں انقلاب آنے کی اُمید میں اپنے حکمران طبقے کی پالیسی کو اپنانا انقلابیوں کا شیوہ نہیں۔ کیا یہ بات قابل فہم ہے کہ عالمی سوشلسٹ‘ اینگلو-ارجنٹینا جنگ میں ارجنٹینا کی شکست کا دفاع یہ کہہ کر کریں کہ ”ارجنٹینا کو شکست دی جائے تاکہ ارجنٹینا میں فاشسٹ آمر کا تختہ الٹ دیا جائے؟“
لیکن روس کی شکست کے بعد جنگ مخالف سرگرمیوں اور ہڑتالوں کے ذریعے پیوٹن کا تختہ الٹنا ممکن نہیں؟بلاشبہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن دیگر بد تر امکانات بھی ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ شکستوں کے بعد انتہائی شاﺅنسٹ حکومتیں بھی ابھر سکتی ہیں۔ تاہم ایک بین الاقوامی انقلابی تنظیم اس طرح پالیسی تیار نہیں کرتی۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔ روس میں انقلابیوں کے لیے پیوٹن کی آمریت کو بین الاقوامی انداز میں چیلنج کرنا ایک بات ہے اور روس میں آمریت کا تختہ الٹنے کی اُمید میں مغرب کے سوشلسٹوں کو اپنے ہی حکمران طبقے کی حمایت کی تاکید کرنا دوسری بات ہے۔ روس میں انقلابی اور جنگ مخالف رائے عامہ دنیا کی بائیں بازو کی اُن چند قوتوں میں سے ایک ہے جنہوں نے شروع سے ہی پیوٹن کی مخالفت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوئے درست موقف اختیار کیا ہے لیکن مغرب میں بائیں بازو کے بہت سے گروہ روس مخالف سامراجی سرگرمیوں میں حصہ لے کر نیٹو کے جرائم اور پروپیگنڈے کا آلہ کار بن چکے ہیں۔
آئیے اس دعوے کی طرف آتے ہیں کہ روس کی جنگ میں شکست سے مظلوم قوموں کو”آزادی“ ملے گی۔ روس کا ٹوٹنا امریکہ کا بھی منصوبہ ہے. لہٰذا آپ کو اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ چیچنیا سے لے کر چین کے ایغور علاقے تک، علیحدگی پسند جنونی اسلام پسندوں کو ماضی سے لے کر آج تک امریکی خفیہ ایجنسی کی مدد حاصل رہی ہے۔ مختصر یہ کہ روس کا نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ٹوٹنا اپنے آپ میں ترقی پسند نہیں ہے! یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کوئی بھی “آزادی“ جس میں ترقی پسند عناصر شامل نہ ہوں،اس سے مظلوم عوام، محنت کش طبقے اور انقلاب کے لیے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ لہٰذا ہمیں قومی سوال کے معاملے پر بہت زیادہ غور کرنا چاہیے۔
یوکرین‘ قومی مسئلہ کے طور پر
یوکرین کی جنگ کو محض مظلوم عوام کی مزاحمت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر‘ یوکرین کی موجودہ صورتحال کو مغربی صحارا کی صورتحال سے گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ یوکرین میں ایک مخصوص فوجی صلاحیت کی حامل ریاست ہے جہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کو سرکاری نظریے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اس ریاست نے اقلیتوں اور بائیں بازو کی اپوزیشن کو کچل دیا ہے اور اسے دنیا کے طاقتور ترین سامراجیوں کی حمایت حاصل ہے۔ مختصر یہ کہ یوکرین کی مثال نہ تو بے وطن فلسطینیوں، کردوں، کیٹالونیا وغیرہ سے مماثلت رکھتی ہے اور نہ ہی صدام کے عراق یا قذافی کے لیبیا جیسی ہے جو سپرپاور کے حملے کا شکار تھے۔ آئی ایس ایل کے یوکرین سیکشن کے لیڈر اولیگ ورنک نے ڈسکشن بلیٹن میں خلیجی جنگوں کے دوران صدام حسین کو روس سے ملنے والی امداد کے بارے میں کہانیاں سنائیں۔ ہمارے پاس اس طرح کی عقل سے عاری اور جذبات سے پُر بہت سی کہانیاں موجود ہیں جن کو صرف اپنے جبڑے پھڑپھڑانے کے لیے سنایا جاسکتا ہے جو اکثر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسئلے کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ پہلی اور دوسری خلیجی جنگوں میں عراق کی صورت حال اور عراق کے لیے نام نہاد روسی امداد، یوکرین کی صورت حال اور آج نیٹو کی امداد کا موازنہ کرنے کے لیے ایسے تبصروں میں ہمیں وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آئی ایس ایل کو یوکرین سے روس کے انخلا ، نیٹو کی مداخلت اور توسیع کے خاتمے اور ڈونباس کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر جنگ مخالف تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا کرتے وقت کیف حکومت کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے اور نیٹو کے پروپیگنڈے اور منصوبوں کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن آئی ایس ایل نے ایسا نہیں کیا! وہ اب کیف حکومت کی غیر مشروط حمایت کرتی ہے۔
جی ہاں، یوکرین فلسطین یا عراق نہیں ہے جس پر 91-1990میں امریکہ نے حملہ کیا تھا لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یوکرین کے اندر روس کے خلاف ایک قومی جنگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ آئیے ایک لمحے کے لیے بھول جائیں کہ یہ جنگ ایک بین الاقوامی پراکسی وار بھی ہے اور یہ کہ ڈونباس میں یوکرائنی قوم پرستی کے دباؤ سے ایک اور قومی سوال ابھر رہا ہے۔ اس مفروضے کے نتیجے میں ہمارے پاس صرف ایک قومی مزاحمتی تحریک ہے جس کی قیادت دائیں یا انتہائی دائیں بازو کی قوتیں کررہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں اصولی رویہ کیا ہونا چاہیے؟ دوسرے ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں قومی مزاحمت کی قیادت دائیں اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں نے کیں۔ مثال کے طور پر چیچنیا میں جہادی، افغانستان میں طالبان یا چین میں اویغور تحریک۔ اب کیا آئی ایس ایل ان مزاحمتوں کو دنیا کے محنت کشوں کے لیے ایک شاندار مزاحمت قرار دے گی؟ یا کیا ہم یہ کہیں گے کہ سیاسی اور عسکری میدان الگ الگ ہیں اور ان ممالک میں اپنے حامیوں کو ان قومی مزاحمتوں کی عسکری قیادت میں لڑنے کی ترغیب دینگے؟ جیسا کے ہم یوکرین میں کرچکے ہیں۔ تو کیا ہم افغانستان میں اپنے چند ساتھیوں سے کہہ دیں کہ طالبان کی صفوں میں شامل ہو جائیں؟ یہ سوال ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں پوچھا تھا۔
لیکن جواب میں، ہمیں صرف ورنِک کی غیرمتعلقہ بے تکی باتیں ہی پڑھنے کو ملیں۔
ماضی میں‘ ہم نے سامراج اور قومی سوال کو درست نہ سمجھنے والوں کو طالبان یا داعش کی تعریف کرتے دیکھا ہے۔ فریق بند(campers)، جنہوں نے افغانستان میں طالبان کی حالیہ فتح کو عالمی محنت کش طبقے کی فتح کے طور پر خوش آمدید کہا، یقینا یہ سب کچھ خوفناک حد تک مضحکہ خیز تھا لیکن مسئلہ صرف اسلامی انتہا پسندوں تک محدود نہیں ہے! ایران میں سیکولر دائیں/ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرستی بھی ہمارے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے مذہبی انتہاپسند طالبان۔ افغانستان میں امریکہ‘ جنوبی آذربائیجان میں ایران اور چیچنیا میں روس کی جنگ اور جبر پر احتجاج کرنا ایک بات ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی قومی قیادتوں کے ساتھ تعاون کرنا‘ انہیں ترقی پسند کے طور پر پیش کرنا یا ان کی فوجی کمان میں جنگ کا پرچار کرنا بالکل الگ بات ہے۔ ان مثالوں سے ہم یوکرین کی صورت حال کے متعلق اصولوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن آئی ایس ایل کی موجودہ پوزیشن آزاد طبقاتی پوزیشن کے بالکل برعکس اور نیٹو کی حکمت عملی سے ملتی ہے۔ ایک متضاد مثال کے طور پر، ہم ترکی میں کردوں کے حق خودارادیت کا دفاع کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عملی جدوجہد میں بائیں بازو کی خصوصیت رکھنے والی کرد قومی تحریک کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ ہمیں اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔
تو ہمیں ایسے معاملات میں کیا رویہ اختیا کرنا چاہیے جہاں قومی تحریکوں کا کردار دائیں بازو/انتہائی دائیں بازو والا ہو، جیسا کہ یوکرین میں ہے؟ مثال کے طور پر روس اور چین کے انقلابیوں کو چیچنیا اور ایغور میں اپنی ریاستوں کے جبر کے خلاف جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اگر نہیں کرتے تو وہ انقلابی نہیں ہو سکتے۔ ان ممالک میں مظلوم قوموں کے حق خودارادیت کا دفاع روس اور چین کے محنت کش طبقے کے بین الاقوامی شعور کے لیے ایک اہم نکتہ ہے۔ دوسری طرف‘ بلاشبہ‘ دائیں بازو کی قومی تحریکوں کا ساتھ دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ عوام کے شعور میں رجعت کا باعث بنے گا اور انقلابیوں کا حشر دائیں بازو کی تنزلی کی شکل میں ہوگا۔ باقی دنیا کے دیگر انقلابیوں کو بھی چیچنیا یا ایغور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے لیکن دائیں بازو کی قومی تحریکوں کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس فلسطین، کردستان، مغربی صحارا، کاتالونیا وغیرہ کی مثالوں میں قومی تحریکیں بائیں بازو کی ہیں اور انقلابی مارکسسٹوں کو ان قومی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی اور اتحاد کے مخصوص رشتوں میں رہنا چاہیے۔ ان اتحادوں کی حدود اور دائرہ کار کا تعین جدوجہد کی ٹھوس صورت حال سے کیا جا سکتا ہے۔
آئی ایس ایل حق خود ارادیت کے نام پر کیف کی حکومت کی حمایت کرتی ہے۔ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ”ہم صرف عسکری حمایت کرتے ہیں سیاسی حمایت نہیں کرتے اور ہم تنقید کرتے ہیں“۔ اس مرحلے پر آئی ایس ایل یوکرین کو کیا فوجی مدد فراہم کر سکتا ہے؟ ہمارے پاس ایک انٹرویو کے علاوہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جس کی صداقت پر بھی سوال ہے، لیکن ان کی جانب سے سیاسی حمایت واضح ہے۔
کیف میں یک طرفہ پروپیگنڈے کو دہرانا اور روس کی شکست کے نعرے کو مرکزی حکمت عملی کے طور پر طے کرنے سے چیزیں واضح ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ یوکرائنی سیکشن کی طرف سے کیف حکومت پر تنقید صرف نیو لبرل ازم تک محدود ہے، یہ بھی ایک طرح سے حکومت کی حفاظت کرنے والا رویہ ہے۔ ویسے پوری دنیا میں سوشل ڈیموکریٹک حکومتیں بھی دراصل نیو لبرل ہی ہیں۔ کیف کی طرف سے 2014 سے لاگو کی گئی پالیسیوں کو چھپانا اور صرف نیولبرل ازم کی تنقید پر اکتفا کرنا ایک قسم کی ٹریڈ یونین رہنما والی سطحی قسم کی تنقید ہے۔
تو کیا آئی ایس ایل کی کیف حکومت کی حمایت کی وضاحت حق خود ارادیت کے پیرائے میں کی جا سکتی ہے؟ اگر اس مسئلے پر جو موقف اپنایا گیا ہے وہ انقلاب کو آگے نہیں بڑھاتا اور یہ محنت کش طبقے کے شعور اور تنظیمی صلاحیت کو پست کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لینن کے اصول کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ یہ لیننسٹ اصول کی ولسونین تشریح ہوگی۔ لینن نے واضح طور پر آگاہ کیا تھا کہ:”[حق خودارادیت کا] پروگرام صرف اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ ایک حقیقی سوشلسٹ پارٹی پرولتاریہ کے طبقاتی شعور کو بدعنوان نہیں کرے گی، یا طبقاتی جدوجہد پر طنز نہیں کرے گی، یا بورژوا جمہوری فقرے سے محنت کش طبقے کو فریب نہیں دیگی، یا پرولتاریہ کی موجودہ سیاسی جدوجہد کے اتحاد کو نہیں توڑے گی۔ یہی شرط معاملے کی جڑ ہے کیونکہ صرف اسی شرط سے ہی ہم حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں“اگر ہم اپنے حامیوں کو یہ کہتے ہوئے دائیں بازو کے پیچھے لگا رہے ہیں کہ”یہ عوام کا انتخاب ہے“ تو آئیے پھر یوکرین کے نیٹو کا رکن بننے کے حق کا بھی دفاع کریں جیسا کہ USFI نے کیا۔ پھر تویقینا نیٹو کا رکن بننے کے لیے کسی قوم کے انتخاب کو بھی ”خود ارادیت“ کے حق کے حصے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب آپ اس ”جمہوریت کی بیماری“ میں پھنس جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ”جمہوریت کے حامی“ رہنما امریکہ کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
سامراجیوں کے درمیان طاقت کا توازن
سامراجیت نہ صرف کمزور قوموں اور ریاستوں پر طاقتور قوتوں کے جبر کا نام ہے بلکہ اندرونی سامراجی کشمکش اور تنازعات پر بھی مبنی ہوتی ہے۔ یہ نقطہ نظر ہمیں بتاتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کو صرف یوکرین کی حق خودارادیت کی حدود کے اندر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوکرائنی جنگ کو اس کے بین الاقوامی تناظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سیاق و سباق میں انقلابی عالمی تنظیم کو یہ سمجھتے ہوئے درست پالیسیاں پیش کرنی ہونگی کہ وقت کے ساتھ ساتھ سامراجیوں کے درمیان تعلقات کیسے تبدیل ہوئے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یوکرین کی جنگ کے حوالے سے متضاد قومی اور بین الاقوامی حرکیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں چھڑی کو کس سمت موڑنا چاہیے؟ بنیادی مسئلہ یہی ہے۔ اس کے لیے سامراجی درجہ بندی اور سماجی جدوجہد کی حرکیات کو صحیح طور پر سمجھنا لازمی ہے۔
ہم موجودہ سامراجی تنظیمی درجہ بندی کے اندر لڑائی کا خلاصہ کیسے کر سکتے ہیں؟ جب دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہوئی تو امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دو طرفہ(Bipolar) سپر پاور دشمنی نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور سرد جنگ کے دور کا آغاز ہوگیا۔ ان کے بیچ جنگیں شدت اختیار نہ کر سکیں کیونکہ جوہری جنگ کا مطلب دونوں فریقوں کے لیے مکمل تباہی ہوتی۔ اس کی بجائے سپر پاورز نے پراکسی جنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں، اگرچہ سابقہ نوآبادیوں نے بظاہر آزادی حاصل کر لی تھی، نوآبادیات کی معاشی اصطلاح پہلے ہی ختم ہو چکی تھی‘ اس کی جگہ امریکی صنعت کے زیر تسلط آزاد منڈیوں نے لے لی اور اس طرح سامراجی ”نیو ورلڈ آرڈر“ قائم ہوا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مغربی یورپ اور جاپان نے امریکی قیادت میں اپنی صنعتی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس عرصے میں اسرائیل، جنوبی کوریا، بھارت، برازیل، میکسیکو، ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے پسماندہ ممالک قابل قدر سرمایہ جمع کرکے چھوٹی سامراجی طاقتوں کے طور پر ابھرے۔
1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک قسم کا یونی پولر(unipolar) امریکی دور کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف سوویت یونین کے بعد کا روس بالکل تھک چکا تھا۔ مغربی مشاورین کی رہنمائی میں، یلسن اور اس کی ٹیم نے آزاد منڈی کی ”شاک تھراپی“ کی جابرانہ پالیسیوں سے لوگوں کو فاقوں پر مجبور کردیا۔ صنعت تباہ ہو گئی، پیداوار رُک گئی۔ 1986 سے 1999 تک تیل کے بیرل کی قیمتیں 10-20 ڈالر کے درمیان جھولتی رہی۔ کریملن کے پاس پیسہ ختم ہو چکا تھا اور ہر طرف بدعنوانی پھیلی ہوئی تھی جس کو روکنا ممکن نہیں تھا۔اس دور کی لوٹ مار کے ماحول میں تیزی سے امیر ہونے والی اشرافیہ اُن لاکھوں لوگوں کا منہ چڑھا رہی تھی جو بھوک سے نبرد آزما تھے۔
پہلے پہل گورباچوف، یلسن، اور یہاں تک کہ پیوٹن بھی روس کو یورپی یونین کا رکن بنا کر مغربی بلاک میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن امریکہ اور برطانیہ، یورپی یونین میں امریکہ کا ٹروجن گھوڑا(Trojan horse)، روس کو یورپی یونین میں شامل ہونے کی بات تو کیا اُسے دوبارہ کھڑا ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چیچنیا سے آغاز کر کے، روس کو توڑنے اور وہاں نسلی اور مذہبی تنازعات کو تیز کرنا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹو کو روسی سرحد پر قائم کرنا اسی پالیسی کی پیداوار تھی۔ اُن سالوں میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ روس کا ٹوٹنا ناگزیر ہے۔
تیل کی قیمتوں کی بدولت، جو پیوٹن کے اقتدار میں آنے کے بعد دوبارہ بڑھیں، روسی معیشت جو تیزی سے ڈوب رہی تھی، ابھرنے لگی۔ سب سے پہلے، چیچنیا میں علیحدگی پسندوں کو بے رحمی سے کچلنے کے بعد، روس کی ٹوٹ پھوٹ کی حرکیات مرجھا گئی۔ پھر روس نے سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں پر اپنی سرپرستی قائم کرنے کی کوشش کی لیکن بالٹک ریاستیں پہلے ہی نیٹو میں شامل ہوچکی تھیں۔ دوسری طرف جارجیا اور یوکرین میں مداخلت اور شام کی خانہ جنگی میں شرکت نے ثابت کر دیا کہ روس ایک بار پھر سامراجی درجہ بندی میں آگے بڑھ چکا ہے۔
کریملن کی معیشت میں اتنی استطاعت تھی کہ وہ ان کاروائیوں کا خرچہ برداشت کرسکے۔ 1999 اور 2008 کے درمیان روس کی جی ڈی پی میں 94 فیصد اضافہ ہوا اور فی کس آمدنی دوگنی ہو گئی۔ جیسے جیسے روس معاشی طور پر مضبوط ہوتا گیا، اس نے اپنی فوجی ٹیکنالوجی کو جدید بنانے، اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو پھیلانے اور سابق سوویت یونین کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنا شروع کیا۔
دوسری طرف شام میں روسی مداخلت اور لیبیا میں کاروائیوں نے اس کی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر امریکہ چاہتا تو بآسانی اسد کا تختہ الٹ سکتا تھا لیکن یہ واضح تھا کہ اسد کی جگہ کو پُر کرنے کے لیے جہادی گروہوں کے ٹولوں کے سوا کچھ بھی دستیاب نہیں تھا جو اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
یہ واضح ہونے کے بعد کہ امریکی فوج براہ راست مداخلت نہیں کریگی، پیوٹن شام میں مداخلت کرنے کے قابل ہوگیا تاہم روس نے شام میں زمینی لڑائی نہیں لڑی۔ فضائی کمک، سفارت کاری اور فوجی مشاورت سے یقینا فرق پڑا لیکن یہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ جہادیوں کے پاس جدید ترین ہتھیار نہیں تھے۔ چونکہ امریکہ اور دیگر ریاستیں جہادیوں کو فضائی دفاعی نظام فراہم نہیں کر سکتے تھے (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ہتھیار داعش جیسی تنظیموں کے ہاتھ لگ جائیں گے جس سے الٹ اور بھیانک نتائج برآمد ہونگے) اس لیے روسی طیارے اور ہیلی کاپٹر شام کی فضائی حدود میں آسانی سے حملہ کرنے کے قابل ہوگئے اورموثر ثابت ہوئے۔ اس کے باوجود شام کی خانہ جنگی میں یہ دیکھا گیا کہ روسی طیاروں کی فضائی حملے کی صلاحیت کا امریکہ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
مختصراً یہ کہ ایک وقت تھا جب روس کی عسکری صلاحیتیں حقیقت سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی تھیں۔ یوکرین میں ان کی تباہ کن غلطیوں سے یہ واضح ہے کہ پیوٹن اور اس کے اردگرد خوشامدی ٹولا اس مبالغہ آمیز تاثر سے خوش تھا۔
اس جنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روسی فوج تکنیکی جدّت حاصل نہیں کر سکی‘ اس کی الیکٹرانک جنگی صلاحیتیں کمزور ہیں‘ ڈرون ٹیکنالوجی بہتر نہیں‘ اس کے پیشہ ور دستے اور خصوصی فوج تعداد میں ناکافی ہیں‘ کمانڈ کنٹرول کرنے والے ادارے ناکام ہیں‘ لاجسٹک صلاحیتیں کم ہیں اور فوجی افسر شاہی کرپشن میں غرق ہے۔ دوسری جانب یوکرین کی فوج جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پسماندہ اور کمزور سمجھی جاتی ہے، نیٹو کے جدید ترین ہتھیاروں سے کافی مضبوط ہو چکی ہے۔ میدان میں روسی فوج کی پیش قدمی رک گئی ہے اور یوکرین کی فوج، جو اَب جوابی حملے منظم کرنے کے مرحلے پر پہنچ چکی ہے، پیش قدمی کے قابل ہو گئی ہے۔
مثال کے طور پر، روس فضائی برتری حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ کیونکہ دیکھا گیا کہ روسی جنگی طیاروں کی طرف سے گائیڈڈ میزائلوں کا استعمال محدود تھا اور انہوں نے نچلی پروازیں کرکے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن یوکرین کی فوج کے پاس اسٹنگر اور اس سے ملتی جلتی میزائلوں کی کافی مقدار ہے جو انہوں نے نیٹو سے خریدے ہیں اور ان میزائلوں سے نچلی پروازیں کرنے والی ہوائی جہازوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں1979 میں شروع ہونے والی افغانستان کی جنگ کا منظرنامہ 2022 میں یوکرین جنگ کی شکل میں دہرایا گیا اور مجموعی طور پر روسی فوج 1990 کی چیچن جنگ کے وقت سے زیادہ جدید نہیں۔ روسی فوج نے یوکرین جنگ کے پہلے 7 ماہ میں افغانستان پر 9 سالہ قبضے میں ہونے والے مجموعی جانی نقصانات سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
سامراجی جنگیں بھی ایک ایسا عمل ہے جس میں سامراجی طاقتوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔
لینن کے اپنے نظریہ سامراج میں استعمال کیے گئے طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے، ہم نے اس بات پر زور دیا کہ روس صرف تیسرے درجے کی ایک سامراجی طاقت ہے۔ IEC میں ہمارے ساتھ گفتگو کرنے والوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لہٰذا انقلابی عالمی تنظیم کو اب بھی عالمی سامراجی تنظیمی درجہ بندی کے بالائی حصے میں بیٹھے ہمارے مضبوط ترین دشمن کی پالیسیوں پر غور کرتے ہوئے اپنی پالیسیاں وضع کرنی چاہیے۔ یہی بحث کا نچوڑ ہے۔
امریکہ آج مشرقی یورپ میں ایک پرجوش اتحادی ہے اور اس نے مغربی یورپ پر اپنی قیادت کو بہت مضبوط کر لیا ہے۔ یورپی یونین کے سرکردہ ملک جرمنی نے ایک حقیقی جنگجو فوج رکھنے اور اسلحہ سازی کے اخراجات میں زبردست اضافے کا فیصلہ کیا ہے، جو تاریخی فیصلے کے ساتھ ساتھ اس کی عسکری تاریخی ورثے کی طرف واپسی ہے۔ جرمنی سے جاپان تک پرانے عسکریت پسندوں کا امریکی قیادت میں دوبارہ جنم ہے۔ ایشیا پیسفک میں چین مخالف اتحاد میں جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویت نام، فلپائن، ملائیشیا وغیرہ جیسی طاقتیں امریکہ کی قیادت میں اکٹھی ہوئی ہیں۔ ہمیں اس تاریخی اور بین الاقوامی پس منظر میں یوکرین اور تائیوان کے مسائل پر غور کرنا ہوگا۔
امریکہ جس کی یوکرین میں خود اعتمادی بڑھ گئی ہے، اس نے جان بوجھ کر تائیوان کو اشتعال دے کر چین کے ساتھ کشیدگی کو بڑھایا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے جنگی طیاروں کے ہمراہ تائیوان کا ایک اشتعال انگیز دورہ ایسے وقت میں کیا جب یوکرین میں جنگ چل رہی تھی۔ تائیوان، جو کئی سالوں سے اپنی فوج کو مضبوط بناتا رہا ہے، وہاں جنگ کی تیاریاں پوری رفتار سے جاری ہیں۔ امریکہ تیسری عالمی جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔ اب کیا امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے سوشلسٹ تائیوان کی خود ارادیت پر زور دیں گے یا وہ امریکی جنگجوؤں پر حملہ کریں گے؟ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ جو اولذکر کو منتخب کرینگے امریکی سامراج کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
ہم موجودہ صورتحال کا موازنہ دنیا کے سب سے مضبوط بدمعاش سے کرسکتے ہیں جو چھوٹے غنڈوں کو کچل رہا ہے۔ امریکہ کے خلاف چین اب بھی صرف ایک علاقائی سامراجی طاقت ہے۔ اگرچہ چین نے عالمی طاقت بننے کے لیے اقتصادی، سیاسی اور عسکری کوششیں کی ہیں لیکن اس سلسلے میں اسے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ امریکہ اور اس کے شراکت دار اس کی روک تھام کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں کرنے کو تیار ہیں۔ اس میں جنگ شروع کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔
ہم نے کہا کہ روس سامراجی تنظیمی درجہ بندی میں صرف تیسرے درجے کی طاقت ہو سکتی ہے۔ ہسپانوی سیکشن کی طرف سے آئی ایس ایل کی IEC میں موجود ربن زنوف نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ روس اپنے خطے میں ایک سپر پاور ہے۔ واضح طور پر زنوف خطے میں نیٹو‘ جوروس کا پڑوسی بن گیا ہے‘ کی موجودگی کو بھول گیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی نظرانداز کر رہا ہے کہ کیف میں حکومت امریکہ کی جاگیر ہے۔ جب حقیقی سپر پاور (امریکہ) نے مداخلت کی تو علاقائی طاقت روس کی اصل صلاحیت اور کمزوری آشکار ہوئی۔
فریق بندی (Campism)

فریق بندی سے مراد وہ تمام حکومتیں جو سرد جنگ کے دوران آمریکا کے ساتھ ٹکراﺅ میں تھے اور جنہیں سوویت یونین اپنے اتحادیوں کے طور پر دیکھتا تھا۔ فریق بندی سوویت یونین میں افسر شاہانہ اشرافیہ کی خارجہ پالیسی کا خلاصہ تھا۔
سوویت یونین میں نوکرشاہانہ حکومت دنیا بھر میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تحریکوں کو اپنے لیے خطرے کے طور پر دیکھتی تھی جب کہ اس کی بنیادی حکمت عملی ان حکومتوں سے قریبی تعلقات استوار کرنا تھا جو کسی نہ کسی طریقے سے امریکہ سے متصادم تھیں۔ مثال کے طور پر، کیوبا کے قابل نفرت آمر بتیستا کوسوویت یونین اور کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی حمایت حاصل تھی یا ایران میں بائیں بازو اور سوشلسٹوں کی بجائے امریکہ مخالف خمینی کی قیادت میں مذہبی انتہاپسندوں کی حمایت کی گئی۔ اور بھی حیران کن مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ہوگو شاویزکا ایران میں سرمایہ دار ملاؤں کے ساتھ قریبی رشتہ اور دنیا کی بائیں بازو کے ایک اہم حصے ، خاص طور پر لاطینی امریکہ، کی طرف سے اس پالیسی کی حمایت ایک اور تازہ مثال ہے۔
بائیں بازو میں ایک مضبوط رجحان اب بھی موجود ہے جو امریکی خارجہ پالیسی کی مخالفت کو ہی سامراج مخالف ہونا سمجھتے ہیں اور اسی لیے چین، روس، ایران، وینزویلا،نکاراگوا، شمالی کوریا کے گروہ کو ترقی پسند کہتے ہیں۔ اس رجحان کے بنیادی علمبردار سٹالنسٹ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ روس میں سوویت یونین اب بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر کچھ سٹالنسٹ اس حد تک چلے گئے کہ پیوٹن کی طرف سے قازقستان میں مزدوروں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجے گئے فوجی دستوں کی حمایت کی۔ ہم نے ان نام نہاد ٹراٹسکسٹوں کو بھی دیکھا ہے جنہیں فریق بندی کی طرف اس قدر شدید جھونک دیا گیا کہ امریکہ کے افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دینے کو مظلوم عوام اور بالآخر محنت کش طبقے کی فتح قرار دیا۔
دوسری طرف، ہمیں فریق بندی اور امریکی سامراج کے خلاف اصولی موقف اختیار کرنے میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہر قسم کے امریکہ دشمن عناصر ہمارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن امریکی سامراج آج بھی دنیا کا سب سے بڑا خونی درندہ ہے۔ فطری طور پر، انقلابی اس خونی درندے کی اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے کبھی حمایت نہیں کرتے لیکن بدقسمتی سے، کچھ لوگ اسے ایسا کرنے پر اکساتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ تنظیم جو عالمی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بارے میں بہت محتاط ہونا چاہیے جو دنیا کے بیشتر حصوں میں معاشی، سیاسی، فوجی اور نظریاتی فوقیت رکھتے ہیں۔ محتاط ہونے کا مطلب کسی ایک فریق کی طرف ہونا نہیں۔
بلاشبہ ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ وہ لوگ جو یکطرفہ پروپیگنڈہ نشر کرتے ہیں اور ڈونباس میں یوکرائنی فوج کی جانب سے شہریوں پر بمباری کا ذکر تک نہیں کرتے، نیٹو کے پروپیگنڈے کو مسلسل دہراتے ہیں، ڈسکشن بلیٹن میں ہم پر فریق بند(campist) ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک پارٹی کے طور پر جو ایک طویل عرصے سے روس کو ایک سامراجی طاقت قرار دے رہی ہے، روسی کیمپ پر ہمارا موقف بحث کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کیمپزم/فریق بندی کا ایک دھڑا روسی-چینی محاذ ہے اور دوسرا دھڑا آمریکا/نیٹو محاذ ہے۔ لہٰذا فریق بندی کا مطلب صرف روس نواز رویہ نہیں بلکہ اس کا مطلب ایک امریکہ نواز رویہ بھی ہے۔ درحقیقت، ہم ان بین الاقوامی حلقوں کو طویل عرصے سے جانتے ہیں۔ وہ ہر بار جب بھی دوراہے پر ہوتے ہیں امریکہ نواز پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا ایسے سوشلسٹ نہیں تھے جنہوں نے شام ، لیبیا، وینزویلا اور یوکرائن کے”انقلابوں“ کی حمایت کی اور دائیں / انتہائی دائیں بازو کے ٹولوں کو آمروں کے خلاف لڑنے والے انقلابی قرار دیا! کیا یہ بھی ”فریق بندی“ کا حصہ نہیں ہے!آئی ایس ایل کو اس پر فیصلہ کرنا ہوگا۔
ہمیں یورو میڈن کُو کے بارے کیا موقف اپنانا چاہیے ، جس میں انتہائی دائیں بازو کا غلبہ ہے اور جو امریکہ کی سرپرستی میں شروع ہوئی ؟ یا کیا ہم ان گروہوں کو بھول گئے ہیں جو اسد کے خلاف اسلام پسند جنونیوں اور ترک ریاست کی زیرقیادت فری سیرین آرمی کو انقلابی قرار دیتے ہیں؟ ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے ان اسلامی شدت پسند گروہوں کی تعریف کی اور انہیں انقلابی قرار دیا جنہوں نے امریکی بمباری سے قذافی کو ہلاک کیا؟ ان تمام مثالوں میں دو سوشلسٹ روایات سامنے آتی ہیں: پہلی ہے USFI، جمہوریت کی چیمپئن جو اپنے سامراجی حکمران طبقے کے ساتھ بہت اچھی طرح سے گھل مل جاتی ہے اور دوسری بین الاقوامی مورینسٹ روایت ہے۔ اتفاق سے، ایم ایس ٹی، جس کی مورینسٹ تنظیموں جیسے UIT-CI اور LIT-CI کے ساتھ مشترکہ تاریخ ہے، کو آئی ایس ایل پروجیکٹ سے پہلے USFI میں مبصر کا درجہ حاصل تھا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ایک آزاد طبقاتی رویے کی پالیسی، جو آئی ایس ایل کے قیام کے دوران پیش کی گئی تھی، مورینسٹ روایت کو پابند نہ کرسکی۔ ایک اچھی کہاوت ہے: پرانی عادتیں مشکل سے ختم ہوتی ہیں!
مورینزم
افسوس کی بات یہ ہے کہ آئی ایس ایل یوکرائن کی جنگ میں فریق بندی(campism) کی دوسری طرف کھڑا ہے۔ہم (SEP ) نے آئی ایس ایل کی موجودہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ نظریاتی مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
مورینزم میں آمروں کے خلاف ”جمہوری انقلاب“ کے دفاع کا موقف امریکی سامراج کی خارجہ پالیسی سے کافی مطابقت رکھتا ہے، جو اپنی نظریاتی بالادستی کو”آمریت بمقابلہ جمہوریت“ کی بنیاد پر استوار کرتا ہے۔ مزید برآں، ایک بار جب آپ جمہوری انقلاب کو اپنی حکمت عملی کے طور پر بیان کرتے ہیں تو مختلف بورژوا دھاروں کے ساتھ تعاون کی نظریاتی بنیادیں فراہم ہو ہی جاتی ہیں۔ اس طرح مورینسٹوں کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ فری سرین آرمی (Free Syrian Army) کو آمر کے خلاف انقلابی قرار دیں۔ اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ FSA ترکی اور دیگر ریاستوں کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت میں اسلامی انتہاپسند گروہوں پر مشتمل تھی اور عوام کو دھوکہ دیا گیا تھا۔ یا یوکرین میں یورو میڈان تحریک، جو اپنے مواد، مطالبات اور رہنماؤں کے حوالے سے دائیں بازو یا انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤرکھتی ہے، اس تحریک کو ایک انقلاب کے طور پر سراہا جاتا ہے۔
مادورو کے خلاف دائیں بازو کے گائیڈو(Guaido) کے ساتھ تعاون کرنے والے آئی ایس ایل کے وینزویلین سیکشن پر ہمارے سخت رد عمل کے بعد وہ اس خوفناک پالیسی سے پیچھے ہٹے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ غلطیوں کو درست نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسئلے کی نظریاتی جڑیں گہری ہیں اور یہ مسئلے طریقہ کارمیں جزوی غلطیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمت عملی اور پروگرام میں اہم انحرافات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
تو ٹراٹسکسٹ روایت کی مرحلہ واریت کی طرف واپسی کیسے ممکن ہوئی؟ناہول مورینو نے 1983 میں ارجنٹائن میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد پالیسی میں تبدیلی کی تھی۔ مورینو کے مطابق”جمہوری انقلاب“کے ذریعے فوجی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اس سے ایک نئی بورژوا حکومت قائم ہوئی جو سوشلسٹ انقلاب کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ یہی وہ غلط اندازہ تھا جس نے مرحلہ واریت کو ایک نظریہ بنا دیا تھا۔ درحقیقت، ارجنٹینا میں فوجی حکومت کی شکست و ریخت کی وجہ سے حکومت منہدم ہوئی اور اس کے نتیجے میں نظام کی بورژوا بحالی ہوئی۔ سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی کے نتیجے میں بورژوا ”جمہوری“ ادارے دوبارہ قائم ہوئے۔ درحقیقت بعد کے سالوں میں ارجنٹائن میں نو لبرل ازم کے چیمپئن، ’مینیمزم‘ کے قدم مضبوط ہوئے اور سوشلسٹ بایاں بازو کمزور ہونے لگا جب کہ محنت کش طبقہ تیزی سے غریب ہو رہا تھا۔ جلد ہی، مورینسٹ پرجوش طریقے سے دیوار برلن کے گرنے کو ایک جمہوری انقلاب کے طور پر دیکھنے لگے۔ تاثراتی سطحیت اپنے ساتھ مرحلہ واریت اور اس کے زہریلے نتائج کی طرف واپسی لے کر آئی۔یہاں یہ واضح رہے کہ مورینو میں جمہوری انقلاب مینشویک اور سٹالنسٹ شکلوں سے بھی زیادہ رجعتی تھا کیونکہ، اس سے پہلے جمہوری انقلاب کے روایتی دفاع میں، جائیداد کے مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ تھا، چاہے وہ کبھی پورا نہ ہو سکے: زمین کا مسئلہ تھا، قومی مسئلہ تھا، سامراج پر انحصار وغیرہ… لیکن مورینو کے جمہوری انقلاب میں، آمریت کی جگہ صرف بورژوا آئین کے تحت چلنے کا ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ان خیالات کے ساتھ، مورینو ٹراٹسکی کے ساتھ تضاد میں آجاتا ہے اور لکھتا ہے، ”ٹراٹسکی نے ایک ایسے جمہوری انقلاب کی ضرورت کو ٹھوس بنیادوں پر نہیں سمجھا۔ فاشسٹ مطلق العنان حکومت کو ختم کرنا سوشلسٹ انقلاب کا ہی حصہ یا اس کی طرف ایک آگے کا قدم ہوتا۔ اس وجہ سے سنگین نظریاتی مسئلہ وہیں کا وہیں رہا اور حل نہ ہوا“۔ درحقیقت، ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے ٹراٹسکی نے حل نہ کیا ہو۔ اگر محنت کش طبقہ بورژوا فوجی آمریتوں کے خاتمے کے دوران جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب تک نہیں لے جا سکے جیسا کہ سپین، پرتگال اور ارجنٹائن جیسے بہت سے ممالک میں ہوا،پھر سامراجی سرمایہ داری پہل قدمی کرے گی اور بورژوا معمول کی بحالی کو یقینی بنائے گی اور ظاہر ہے کہ اسے جمہوری انقلاب نہیں کہا جاتا۔
مرحلہ واریت کی پالیسی، جس پر مورینو متفق ہے، کا مطلب ہے بورژوازی کے مختلف عناصر کے ساتھ تعاون کیا جائے جو آمریت کی مخالفت کرتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں سٹالنسٹ کرتے تھے۔ مزید برآں، بین الاقوامی سیاست میں، جمہوری انقلاب کا مورینسٹ تصور آمروں کے خلاف جمہوری انقلاب کے امریکی نقطہ نظر سے مکمل ہم آہنگ ہے۔
انقلاب کے آگے بڑھنے کا تجربہ مراحل میں نہیں، چھلانگ لگا کر ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریک کی سطح اور انقلابی ہراول دستے کا موجود ہونا نتائج کا تعین کرتا ہے۔
جمہوری انقلاب کا دور ختم ہو چکا ہے اور معاشرے کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ اس طرح حل نہیں ہو سکتا۔ نیپال، سری لنکا، سوڈان، مصر، یمن اور تیونس جیسی حالیہ مثالیں، جہاں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں آمروں کا تختہ الٹ دیا گیا، جس سے ایک بار پھر ٹراٹسکی اور انقلاب مسلسل کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے۔ حقیقی سماجی تبدیلیاں انقلاب مسلسل کے ذریعے ہی ممکن ہیں جو جمہوری مطالبات کو سوشلسٹ اقدامات سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح وہ مسلسل انقلاب کی پالیسی تھی جس سے مورینزم نے خود کو کاٹ لیا۔
یوکرائنی قوم پرستی کی جڑیں
جنگ کے عین وسط میں‘ ہم کیف حکومت کے کردار اور یوکرائنی قوم پرستی کے کردار پر بات کر رہے ہیں۔ آئی ایس ایل اور دیگر کہتے ہیں کہ یہ روسی پروپیگنڈہ ہے اور ایسی باتوں سے پرہیز کریں۔لیکن حقائق کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور یہ حقائق اتنے اہم کیوں ہیں؟ یہ اس لیے کہ قومی تحریکوں سے تعلق قائم کرنے کے لیے شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگ کے پراکسی کردار کے علاوہ، کیف میں امریکہ نواز حکومت کے انتہائی دائیں بازو کی نوعیت پر بھی آئی ایس ایل اور اس کا یوکرائنی سیکشن پردہ ڈال رہا ہے۔
الاندرو بوڈارٹ اور دوسرے دوست اُس وقت کافی خفا ہوئے جب کیف حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے کردار اور یوکرائنی قوم پرستی کی نیو نازی(Neo Nazi) بنیادوں کا ذکر ہوا۔ ایم ایس ٹی رہنما سرجیو گارسیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں بوڈارٹ نے سٹالنزم کو یوکرائنی قوم پرستی کے رجعتی تاریخی کردار کی وجہ قرار دیا ۔ اس نے کہا:”مشرقی یورپ میں نازی ازم سٹالنزم ہے“۔ اتنے بڑے جھوٹ کو اتنی لاپرواہی سے کہنا بہت مشکل کام ہے۔سوویت یونین میں سٹالنزم کی فتح سے بہت پہلے، یوکرائنی قوم پرستی پہلے ہی انتہائی دایاں بازو تھا۔ اکتوبر انقلاب کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں، یوکرائنی قوم پرستی سرخوں(Reds) کے خلاف لڑتی رہی۔ بعد میں ٹراٹسکی کی قیادت میں سرخ فوج نے انہیں کچل دیا۔
او یو این(OUN) کی جگہ آنے والی یو وی او(UVO) کا 1920 کی دہائی سے فاشسٹ رجحان تھا اور اس نے خود کو پرتشدد طریقے سے کمیونزم مخالف اور نسلی قتلِ عام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوکرائنی قوم پرستی کے کٹر دائیں بازو کے کردار کو درست ثابت کرنے یا سٹالن ازم کو بہانے کے طور پر آنکھیں بند کر کے استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سٹالن کے قتلِ عام سے واقف ہیں، لیکن سٹالنزم کو نازی ازم کے ساتھ مساوی کرنے کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی سنجیدہ نقطہ نظر نہیں ہے۔
اصطلاحات کا لاپر واہی سے استعمال ایک بات ہے اور مشرقی یورپ میں نازیوں کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں کے قتل عام کو نظر انداز کرنا اور یہ کہنا”مشرقی یورپ میں نازی ازم سٹالنزم ہے“ دوسری بات ہے لیکن اگر بات الاندرو کی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ مشرقی یورپ کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ مزید برآں، سٹالنزم اور نازی ازم کو ایک چیز سمجھنا سٹالن ازم فوبیا ہے جس کا اصل مطلب جمہوری سامراجیت کے کیمپ میں چلے جانا ہے۔ ہم یہ بات Schatman اور Burnham کے وقت سے جانتے ہیں، جنہیں ٹراٹسکی ازم نے ماضی میں اپنی صفوں سے نکال دیا تھا۔
اس کے علاوہ، یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ اولیگ ورنک نے جو لکھا اور کہا، اس کے ساتھ ساتھ الاندرو اور اس کے ساتھیوں نے جو یوکرین کی تاریخ کے بارے میں لکھا اور کہا، دونوں نے اس میں اسٹیپن بنڈیرا جیسے ہولوکاسٹ کے مجرموں کا ذکر تک نہیں کیا۔
ان تمام حقائق کو بیان کرنے پر ہم پر روسی پروپیگنڈا کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ تاہم ہمیں حقائق،چاہے وہ جو بھی ہوں، کو آشکار کرنے ہوں گے۔ 2014 کے بعد یوکرین میں، بنڈیرا جیسی شخصیات سرکاری پروپیگنڈے کا حصہ بن گئیں۔ سٹیٹکو اور بنڈیرا جیسے نسل کش لوگوں کو ہیرو قرار دیا گیا، جگہ جگہ ان کے مجسمے لگائے گئے۔ اس بارے میں ہم اپنے پچھلے مضمون میں تفصیل سے معلومات دے چکے ہیں۔ مزید یہ کہ آج دائیں بازو کی پولش ریاست بھی یوکرائنی ریاست کی طرف سے بنڈیرا کو قومی ہیرو کے طور پر ابھارنے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خاتون اول اولینا زیلنسکا نے ترکی میں نیو نازی ازوف بریگیڈ کے کمانڈروں، جو قید سے بچ گئے تھے، سے ملاقات کی اور انہیں ہیرو قرار دیا۔
اس طرح کے حقائق سے انکار کرکے آئی ایس ایل صرف اپنے کارکنوں کو گمراہ کررہی ہے۔ دوسری طرف، ورنک نے خود بیان دیا تھا کہ اگر یوکرین جنگ جیت بھی گیا تو یوکرین میں کٹر دائیں بازو کا ماحول بہت مضبوط ہو جائے گا۔ یہ سب معلومات یوکرین میں انقلابیوں کے کام کے لیے بہت اہم ہیں۔
یوکرائنی انقلابیوں کے فرائض
ہمارا ماننا ہے کہ یوکرین کے اندر انقلابیوں کو آزاد طبقاتی موقف کے ساتھ اپنی تنظیم سازی کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس کے لیے کیف حکومت کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد، روسی اور یوکرائنی سپاہیوں کو قبضے اور جنگ کے خلاف ابھارنا، اور دونوں اطراف کی اشرافیہ حکومتوں اور نسلی کشمکش کے خلاف ایک بین الاقوامی انقلابی زیر زمین تنظیم کے قیام کی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ یوکرین کے انقلابیوں کو خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
انقلابی طریقہ یہ ہے کہ ٹھوس صورت حال کا ٹھوس تجزیہ کیا جائے۔ یوکرین میں بائیں بازو کی تمام اہم تنظیموں کے لیے دروازے بند ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 2014 سے یوکرینی بائیں بازو کو کچل دیا گیا ہے۔ آج بائیں بازو اور مخالف نظریات کا دفاع کرنا بہت خطرناک ہے۔ آئی ایس ایل کا یوکرینی سیکشن ایک بار پھر کیف حکومت کے ساتھ ہم آہنگی میں ہے اور وہ پابندی کی زد میں آئے بائیں بازو کی جماعتوں کو روسی ایجنٹ کہتا ہے۔ یہ حکومت کے ساتھ کھلم کھلا ساز باز ہے۔ درحقیقت، موجودہ جنگ سے بہت پہلے، 2014 کی حکومت کی تبدیلی کے بعد بہت سے سوشلسٹ کارکنوں کو یورپ میں جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔
کیف حکومت آپ کو صرف اسی صورت میں رہنے کی اجازت دیتی ہے جب آپ قوم پرستانہ موقف رکھتے ہوں۔ یہ ایک کھلا سچ ہے۔ ایک انقلابی مارکسی یوکرائنی تنظیم کو ایسے ہی حالات میں تنظیم سازی کرنی ہوگی۔ اس کے باوجود یوکرین کے اندر حقیقی کمیونسٹ ابھی پروپیگنڈے کے مرحلے پر ہیں اور انہیں چھپ کرکام کرنا پڑتا ہے۔
انقلابی کیڈروں کو تیار کرنے اور انقلابی پارٹی کی بنیاد ڈالنے کا کام ایک تاریخی فریضہ ہے اور یہ صرف انقلابی اصولوں کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے۔ قوم پرست دھارے میں شامل ہو کر تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی خواہش رکھنا اور اس قسم کی پالیسی کو انقلابیت کے نام پر فروغ دینا، انقلابیت نہیں دو نمبری ہے۔
ڈسکشن بلیٹن یوکرین میں قومی دفاعی جوش و ولولے کی طاقت کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ ہمیں میدان جنگ کو دائیں بازو کے عناصر کے لیے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بزدل نہیں،بلکہ ہم بہترین جنگجو ہیں!! دوسرے لفظوں میں ہم قوم پرستی کی دوڑ میں دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے ساتھ مقابلے میں شامل ہونگے اور مقابلہ کریں گے۔کیا موقع پرستی ہے! جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئی ایس ایل کی اکثریت غیر مشروط طور پر دلیل دیتی ہے کہ کیف حکومت کی فوجی حمایت کی جانی چاہیے۔ ہم پر کی جانے والی تنقیدوں کا مرکز یہ دعویٰ ہے کہ ہم ”صرف پروپیگنڈہ کرنے والے“ ہیں لیکن یوکرائنی سیکشن اور آئی ایس ایل آج جو کچھ کر رہی ہے وہ خالص پروپیگنڈے سے کتنا مختلف ہے! ہمارا پروپیگنڈہ صرف ایک آزاد طبقاتی موقف پر مبنی ہے، جبکہ آئی ایس ایل اور یو ایس ایل کے پروپیگنڈے میں کیف حکومت کی فوجی کارروائیوں کی حمایت شامل ہے۔
یو ایس ایل، جو پہلے ہی ایک بہت چھوٹی تنظیم ہے، جنگی پروپیگنڈے کے علاوہ کیف حکومت کو کتنی بڑی فوجی مدد فراہم کریگی! پروپیگنڈے سے آگے کیا ہے؟ اگر ہمیں بتایا جائے کہ زخستی پراستی(Zakhsti Prasti)یونین‘ کارکنوں کو محاذ پر جانے کی تاکید کر رہی ہے، تو ہمیں اس مقام پر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ یونین کے یہ ارکان کن نظریات اور کن رہنماوں کی قیادت میں ایک شدید کمیونسٹ مخالف فوجی ڈھانچے میں لڑینگے، جہاں”سٹیپن بنڈیرا، ہمارے باپ ہیں“ جیسے ترانے گائے جاتے ہیں؟ واضح رہے کہ زخستی پراستی یونین اور ان کے رہنما اولیگ ورنک بھی اس معاملے پر تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یونین کے فیس بک پیج پر ایسی پوسٹیں موجود ہیں جس کا مقصدفاشسٹ تنظیم او یو این(OUN)،کے ماضی کو بے داغ بنانا ہے۔ جب ہم نے تلاش کرنا شروع کیا تو ہمیں اس یونین کے یوکرین کے کٹر قوم پرستوں کے ساتھ ماضی کے دل چسپ تعلقات دیکھنے میں آئے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ ایک اتفاق ہے کہ زخستی پراستی یونین نے سرخ اور سیاہ رنگوں کا انتخاب کیا جو یوکرین کے انتہائی قوم پرستوں اور بنڈیرا نے بطور علامت استعمال کیے تھے ۔ یہ سب دیکھتے ہوئے یہ سوال سامنے آتی ہے کہ آئی ایس ایل یوکرین میں حقیقتاً کیا کر رہی ہے؟ ہم سب کو یہ پوچھنے کی ضرورت ہے۔

سوشلسٹ لیبر پارٹی (ترکی)کی سینٹرل کمیٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے