ایشیائی طرز پیداوار کی بحث

تحریر: عمرشاہد

انسانی تاریخ کا سفر سیدھی لکیر کی بجائے پر پیچ، ناہموار اور مختلف ادوار میں مختلف سماجی پھلانگوں پر محیط رہا ہے۔ انسان اس سماجی پیداوار کے عمل کے دوران مختلف رشتوں میں بندھتا رہا ہے جو اس کے ارادوں کے تابع نہیں رہے۔ کسی ایک مخصوص وقت میں یہ پیداواری رشتے پیداراوی قوتوں کی ترقی کی مختلف شکلوں سے ہم آہنگ رہے ہیں، سماج کا معاشی ڈھانچہ انہی پیداواری رشتوں کے حاصل جمع پر مشتمل ہو تا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر سماجی، سیاسی اور قانونی بالائی ڈھانچوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ مختلف تاریخی ادوار میں سماجی تعلقات کی مختلف شکلیں موجود رہی ہیں۔ ایک طرف سماجوں میں ترقی ہوئی تو دوسری طرف اس ترقی کے متضاد اثرات مرتب ہوئے اور مختلف خطوں میں مختلف نوعیت سے اس ترقی کی رفتار اور جہتیں مختلف رہیں۔ قدیم کمیون معاشرے سے سرمایہ داری تک کے سفر کے دوران جہاں مغرب میں غلام دارانہ اور جاگیردارانہ سماج موجود رہے وہیں ایشیا اور کچھ دیگر علاقوں میں مختلف سماجی ارتقا کے سفر سے مختلف معاشرہ، ’ مشرقی استبداد‘ (Oriental Despotism) یا مارکس کے الفاظ میں ایشیائی طرز پیداوارکی شکل میں موجود رہا۔
قدیم ہندوستان تہذیب کا گہوارہ تھا۔ جب موہن جو دڑو اور ہڑپہ میں قدیم شہروں کی باقیات دریافت ہوئیں تو معلوم ہواکہ یہاں کی تاریخ صرف ویدوں کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی قدیم اور ترقی یافتہ تہذیبیں یہاں موجود رہی ہیں۔ کوٹ ڈی جی اور مہر گڑھ میں سے ملنے والے آثار قدیمہ 7000 قبل مسیح کے انسانی سماج کا پتا دیتے ہیں۔ میسو پوٹیمیا اور مصر کی تہذیب میں طبقات موجود تھے، مذہب مضبوط تھااورمحنت کشوں کا استحصال بھی ہوتا تھا جسکی جھلک ہمیں اہراموں کی تعمیر میں ملتی ہے مگرقدیم ایشیا میں نہ غلام داری اور نہ ہی جاگیرداری کے کوئی آثار ملتے ہیں۔ یہاں کے آثار قدیمہ میں بڑے محلات، جبر کے آلات اور ہتھیار وغیرہ ناپید ہیں۔ منصوبہ بندی کے بغیر اس طرح کے جدید شہروں کی تعمیر ناممکن تھی اور یہ شہر دوسرے شہروں سے تجارت بھی کرتے تھے۔

ایشیائی طرز پیداوار کا سماجی ارتقا مغرب سے یکسر مختلف رہا جس کی بنیادی وجہ پھر یہاں کے مادی حالات تھے۔ ایشیائی خطوں خصوصاً برصغیر میں کلاسیکی شکل میں غلام داری اور جاگیرداری کبھی بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔ یہاں پیداوار کے مخصوص عمل سے سماجی رشتے مغرب سے یکسر مختلف تھے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری یہاں پر کسی ارتقائی مرحلے کی بجائے برطانوی سامراج کی جانب سے مسلط کردہ تھی۔ خونی بٹوارے کے 70 سال بعد آج بھی سامراج کے دیئے گئے زخموں سے لہو ٹپک رہا ہے اور اس خطے کے عوام نجات کے متلاشی ہیں۔

ریڈ کلف لائن کے آر پار حکمران طبقے کے وظیفہ خور تاریخ دانوں اور سٹالنسٹوں کی جانب سے برصغیر کو تاریخی طور پر جاگیردارانہ معاشرہ ثابت کرنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود حقائق برعکس ہیں۔ سٹالنسٹوں کے نزدیک برصغیر کا سب سے اہم مسئلہ جاگیرداری ہے جس کے خلاف یہاں کی بورژوازی کا ساتھ دیا جانا ناگزیر ہے تاکہ یہ بورژوازی ایک جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکے۔ اس خطے کی عوام کو’ صدیوں کے غلام‘ قرار دینا درحقیقت ان کی انقلابی جدوجہد کی تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ حالات اور مستقبل کی جدوجہد کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ ہم ماضی کا درست تجزیہ کرتے ہوئے اس خطے کے محکوم عوام کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔

ایشیائی طرزپیداوار کی خصوصیات

مارکس نے ایشیائی طرز پیداوار کو تاریخی حوالوں سے دیگر طرز پیداوار سے یکسر مختلف اور الگ قرار دیا جس کی معاشی و سماجی بناوٹ دیگر طریقہ پیداوار سے یکسر مختلف تھی۔ مارکس نے 1853ء تا 1858ء نیویارک ٹریبون میں ہندوستان پر اپنے مشہور مضامین میں ’ ایشیائی طرز پیداوار‘ پر کافی روشنی ڈالی۔ ان مضامین میں اس مخصوص طریق پیداوار پر مبنی معاشرے کی بنیادی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاشرے میں ارتقا مغرب سے یکسر مختلف ہے، یہاں پر غلام داری وجود نہیں رکھتی اور اس سماج کی بنیاد کھڈی، چرخہ، زراعت اوردستکاری کے مابین ربط پر مشتمل تھی جس کو برطانوی بھاپ کے انجن اور سائنس نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس نظام کی اہم خصوصیت اس کی سماجی شکل تھی جس میں تین ہزارسالوں تک کئی حملے، خانہ جنگیاں، فتوحات اور قحط وغیرہ آئے لیکن وہ تمام بالائی سطح تک محدود رہے اور اس کی بنیاد کو متاثر نہ کر سکے۔ اس طرز پیداوار کی بنیاد خود کفیل دیہاتوں پر مشتمل تھی جو اپنے اندرونی معاملات میں بڑی حد آزاد تھے۔ ان معاشروں کی قابل ذکر خاصیت یہاں نجی ملکیت کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے زمین کسی ایک فرد کی ملکیت کی بجائے پورے کمیون کی مشترکہ ملکیت میں تھی جسے گاؤں کا ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق بروئے کار لا سکتا تھا۔ مارکس نے ’Grundrisse‘ میں لکھا، ’’ایشیائی طرز میں ( کم از کم بنیادی طور پر) فرد کسی جائیداد کامالک نہیں بلکہ اس کوصرف تصرف کا حق حاصل ہے اور حقیقی مالک کیمون ہے۔ لہٰذا زمین کی ملکیت صرف مشترکہ ملکیت کی شکل میں ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے باشندوں نے سلطنتوں کے منقسم ہونے اور شیرازے بکھرنے پر کبھی کوئی فکر و تردد نہیں کیا۔ اگر گاؤں صحیح سالم ہے تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ اقتدارکس کو منتقل ہوا یا پھر وہ کس فرمانروا کے زیر سایہ آئے ہیں اور اندرونی معیشت جوں کی توں رہی۔ ان دیہاتوں کی ایک اہم خصوصیت ان کی پیداوار کی تنظیم کا سادہ ہونا تھا جو حادثاتی طور پر برباد ہو جاتی تو انہی ناموں کے ساتھ انہی جگہوں پر دوبارہ اپنے آپ کو دوبارہ قائم کر لیتی۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں منتشر کمیونز اپنے آپ کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھ سکے۔ ہندوستان کے ایک علاقے میں آنے والی کسی بربادی یا خوشحالی سے دیگر علاقے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ اس سماج میں فرد کی بقا کا انحصار پھر اپنے کمیون پر تھا۔ مارکس نے ایشیائی طرز پیداوار کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ جہاں ایک طرف اس طرز پیداوار نے صدیوں تک ہندوستانی معاشرے کو قائم رکھا وہیں پراس کی مخصوص نوعیت اِس خطے کی پسمانگی اور تاریخی طور پر پچھڑے رہنے کا باعث بنی۔ یہاں زراعت کے لئے پانی کے مشترکہ اور کفایت شعار استعمال کی ضرورت نے مرکزیت پیدا کرنے والی قوت یعنی مشرقی استبداد کو جنم دیا، جس کے ذمے آبپاشی کا نظام تھا۔ مارکس نے اپنی تحریر ’ہندوستان میں برطانوی راج‘ میں لکھا کہ’ ’پانی کے مشترکہ اور کفایت شعار استعمال کی اسی اولین اور اہم ضرورت نے مشرق میں حکومت کی مرکزیت پیدا کرنے والی قوت کی دخل اندازی کو لازمی بنایا، کیو نکہ وہاں تہذیب کی سطح اس قدر نیچی تھی اور علاقے اس قدر وسیع اور پھیلے ہوئے تھے کہ رضاکارانہ ساجھے داری کو بروئے کا ر نہیں لایا جاسکتا تھا، لہٰذا تمام ایشیائی حکومتوں پر تعمیرات عامہ مہیا کرنے کا فرض عائد ہوا۔‘‘ مارکس کی تحریروں کی روشنی میں ایشیائی طرز پیداوار کا مختصر خاکہ یوں تیار کیا جا سکتا ہے:

1۔ زراعت اور دستکاری کے باہمی ربط کی بنیاد پر قدرتی معیشت، جس میں محنت کی واضح تقسیم موجود تھی۔
2۔ زمین کی اشتراکی ملکیت پر مبنی معاشرہ۔
3۔ زراعت کے لئے عوامی تعمیرات، یعنی آبپاشی کے نظام کی لازمیت کے باعث مشرقی استبدادکے طرز کی حکومت
4۔ ریاست کا گاؤں سے لگان کی شکل میں مشترکہ قدر زائد نچوڑنا

مادی حالات اور ریاست

ایشیائی طرز پیداوارکی بنیادیں پھر ہمیں اس کے مادی حالات میں ملتی ہیں۔ ہندوستان کے مخصوص علاقے اور موسم کی وجہ سے یہاں کی زرعی معیشت کے لئے آبپاشی کا مربوط نظام ایک لازمی ضرورت تھا اوراس صورتحال نے ایک مرکزی طاقت یعنی ریاست کو جنم دیا۔ مارکس نے لکھا کہ ’ ’آب و ہوا، علاقائی حالات اور خصوصاً وسیع ریگستان کی موجودگی نے نہروں اور آب رسانی کے انتظامات کے ذریعے مصنوعی آب پاشی کو مشرقی کاشت کاری کی بنیاد بنا دیاہے۔ ‘‘ اینگلز نے اینٹی ڈیورنگ میں اس پر لکھا کہ ’’فارس اور ہندوستان میں آبپاشی دریاؤں کے ذریعے کی گئی جس کے بغیر یہاں کوئی زراعت ممکن نہ تھی۔‘‘ اس آبپاشی کے مربوط نظام کو کنٹرول اور اس کی دیکھ بھال کے لئے ناگزیر طور پر افراد کی ضرورت تھی۔ ان افراد کا بنیادی فرض اس مربوط نظام کو رواں رکھنا تھا تاکہ زراعت برقرار رہ سکے۔ یہ بالکل ایساہی ہے جیسے انسانی جسم میں خون کو رواں رکھنے کے لئے دل کا ایک مرکزی کردار ہے۔

مارکس نے سرمایہ کی جلد اول کے 13ویں باب میں واضح کیا کہ تمام مشترکہ محنت کوبڑے پیمانے پر ایک منتظم کی ضرورت ہو تی ہے تاکہ انفرادی سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ یہ منتظم افراد آگے چل کر ریاستی اہلکاروں کا روپ اختیار کر گئے جن کے مقاصد میں آبپاشی کے نظام کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ لگان وصول کرنا شامل تھا۔

لیکن ایشیائی طرز پیداوار پر مبنی ریاست اپنی ساخت میں مغرب سے یکسر مختلف تھی۔ مغرب میں غلام داری یا جاگیرداری ادوار میں تشکیل پانے والی ریاست کی بنیاد نجی ملکیت پر تھی جبکہ ایشیائی طرز پیداوار میں نجی ملکیت وجود نہیں رکھتی تھی۔ جیسے مارکس نے لکھا کہ’اس پر اتفاق ہے کہ اکثر ایشیائی ملکوں کی طرح ہندوستان میں زمین کی اصلی ملکیت حکومت کی ہوتی ہے۔ ‘ اینگلز نے بھی مشرقی استبداد کی بنیاد مشترکہ ملکیت کوقرار دیا۔ مارکس اور اینگلز نے اپنی تحریروں میں واضح طور پر ایشیائی طرز پیداوار میں اشتراکی ملکیت پر زور دیا، انہوں نے بیان کیا کہ یہاں پر فرد کے پاس زمین کی ملکیت موجود نہ تھی تاہم زمین کا تصرف موجود تھا۔ ملکیت اور تصرف میں فرق کرنا ضروری ہے، تصرف میں کمیون کا کوئی بھی فرد اپنے کمیون کی مرضی سے زمین کو کاشت کرسکتا تھا اور اسے استعمال میں لاسکتا تھا۔ لیکن زمین کبھی بھی اس کی ذاتی ملکیت قرار نہیں دی گئی بلکہ کمیون اس زمین کو کسی بھی وقت واپس لینے کا حق رکھتا تھا۔ اس سوال پر مارکس نے Grundrisse میں لکھا، ’’ملکیت صرف اشتراکی ملکیت کے طور پر موجود ہے، یہاں کوئی انفرادی رکن کسی خاص حصے کو محض تصرف میں لاسکتا ہے، کوئی بھی فردزمین کو محض کمیون کے ایک ممبر کے طور پر بر وئے کار لا سکتا ہے… صرف سماجی ملکیت اور شخصی تصرف موجود ہے۔‘‘ مارکس نے اپنے مضمون ’لارڈکیننگ کا اعلان اورہندوستان میں زمین کی ملکیت‘ میں ان بنیادی یونٹوں کے کام کرنے کے طریقے پر لکھا، ’’زمین دیہاتی اداروں کی ملکیت تھی جنہیں یہ اختیار حاصل تھا کہ کاشت کے لئے اسے افراد کو الاٹ کریں اور زمیندار اورتعلق دار سرکاری افسروں کے علاوہ او رکچھ نہ تھے جو اس لئے مقرر کئے جاتے تھے کہ گاؤں کے ذمے جو لگان ہے اسے جمع کریں اور راجہ کو ادا کر دیں۔‘‘ مارکس نے اس ریاست کے شعبوں پر لکھا، ’’ایشیا میں بہت پرانے وقتوں سے عام طور پر حکومت کے صرف تین شعبے ہوتے چلے آئے ہیں: مالیت یا اندرونی لوٹ کھسوٹ کاشعبہ، جنگ یا بیرونی لوٹ کھسوٹ کا شعبہ اور ان کے علاوہ تعمیرات عامہ (یعنی آبپاشی کا نظام) کا شعبہ۔‘‘ ان وجوہات سے ایشیائی استبداد کی ساخت اور کردار مغرب میں غلام دارانہ یا جاگیردارانہ سماج کی ریاستوں سے یکسر مختلف تھا۔ یہاں پر موجود مادی حالات نجی ملکیت کے فروغ کے منافی تھے لیکن معاشی ضرورتوں کے تحت ان یونٹوں کی بقا کے لئے ریاست کی شکل میں ایک مرکزی قوت ناگزیر تھی، لہٰذا ایشیائی طرز پیداوار میں قدیم کمیونزم کی باقیات کی شکل میں گاؤں کا اشتراکی نظام موجود تھا جو پیداوار میں خود کفیل تھیں اور بالائی سطح پر ایک مرکزی ریاست قائم تھی جو آبپاشی کے نظام اور تعمیرات عامہ کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل اور مالیات کے شعبے قائم رکھتی تھی۔

قدر زائد اور استحصال

ایشیائی استبداد میں سماج مکمل طور پر استحصال سے پاک نہ تھا۔ یہ ریاست بھی قدر زائد نچوڑتی رہی، آغاز میں ریاست ’’Corvee Labour‘‘ یا بلا اجرت محنت عارضی بنیادوں پر بیگار لیتی تھی۔ اس محنت کو اکثر حکمران جنگ کے میدان میں یا تعمیرات کے کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس عارضی بیگار محنت کی جگہ باقاعدہ لگان نے لے لی، جس میں تمام یونٹوں سے ان کی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ وصول کیا جاتا تھا۔ اس لگان سے جہاں ایک طرف ریاست کے مالیاتی شعبوں کو مستحکم کیا جاتا تھا وہیں پر اس کا ایک حصہ وصولی کرنے والے سرکاری کارندوں یعنی ’زمینداروں‘ اور ’تعلق داروں‘کی اجرتوں کی ادائیگیوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ اس عارضی محنت اور لگان سے ایشیائی حکمران رعایا اور دیگر ممالک پر رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے اکثر پر تعیش عمارات، مقبرے اور حکومتی عمارات کی تعمیرات کرواتے تھے۔ مارکس نے Grundrisse میں لکھا، ’’ایشیائی سماجوں میں بادشاہ زمین سے حاصل ہونے والی قدر زائد کا واحد مالک تھا۔ ‘‘ اسی پر مارکس نے ’سرمایہ ‘ کے 14ویں باب میں واضح کیا کہ اس سماج میں پیدا ہونے والی زیادہ تر پیداوار کموڈیٹی کا روپ نہیں اختیار کرتی تھی۔ مارکس نے لکھا، ’’مصنوعات کا بڑا حصہ براہِ راست کمیونٹی کے استعمال میں آتا ہے۔‘‘
مغربی سماجوں میں غلام یا مزارعے کی پیدا کردہ قدر زائد پر انفرادی آقا یا جاگیردار براہ راست قابض ہوتا تھا جبکہ ایشیائی سماجوں میں پوری آبادی کی اشتراکی پیداوار سے ریاست مشترکہ طور پر قدر زائد نچوڑتی تھی۔ ان معاشروں میں محنت کی تقسیم بھی دیگر سماجوں سے منفرد تھی۔ یہاں افراد ہر چیز کی تیاری کا جدا گانہ عمل سر انجام نہیں دیتے تھے بلکہ اجتماعی ملکیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی کوئی شے تیار کی جا سکتی تھی۔

ایشیائی جاگیرداری؟

سٹالنسٹوں نے مرحلہ واریت کی فرسودہ تھیوری کو درست ثابت کرنے کے لئے چین اور ہندوستان کے نظام کو’ ایشیائی جاگیرداری ‘کہا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی پانچویں کانگریس میں اعلان کیا گیا کہ ایشیائی طرز پیداوار چین کی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتی، تاریخی طور پر یہاں ایشیائی طرز کی جاگیرداری رہی ہے۔ اصل میں چین کو جاگیردارانہ سماج قرار دینے کا مقصد ’’ترقی پسند بورژوازی‘‘ کے ساتھ اتحاد کو جواز فراہم کرنا تھا۔ یہی کیفیت ہمیں ہندوستان میں نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ’کمنٹرن‘ کے رکن اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ممبر ایم این رائے نے اپنی کتاب India in Transition میں ہندوستان میں 1857ء کی بغاوت کو ’ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ سماج اور نئی ابھرتی ہوئی بورژواز ی‘ کے مابین تصادم قرار دیا اور ہندوستان کو تاریخی طور پر جاگیردارانہ سماج قرار دیا۔ تاہم مارکس اور اینگلز کے بعد لینن کی تحریروں میں بھی ایشیائی طرز پیداوار کا واضح ذکر ملتا ہے۔ 1899ء میں لینن نے اپنی اہم تصنیف ’روس میں سرمایہ داری کا ارتقا‘ میں روس میں پائی جانے والی ایشیائی خصوصیات کو چین سے تشبیہ دی اور زار کے زمین اور کسانوں پر کنٹرول کو ’ زمین کی مالیاتی ملکیت ‘ قرار دیا۔ اسی طرح ٹراٹسکی نے اپنے مارچ اور اپریل 1928ء کے Three Letters to Preobrazhensky میں لکھا، ’’چین میں بورژوازی کے مقابلے میں کوئی جاگیردار نہیں ہیں… درحقیقت چین میں کوئی جاگیرداری وجود نہیں رکھتی… چین میں جاگیرداری ثابت کرنے کی کوشش حقائق کے بر خلاف بورژوازی سے اتحاد کرنے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔‘‘ اسی طرح اس نے ایک اور جگہ لکھا کہ’چین میں بطور طبقہ جاگیردار وجود نہیں رکھتے۔ ‘ اسی طرح ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’انقلاب روس کی تاریخ ‘ کی جلد اول کے باب اول میں ایشیائی طرز پیداوار پر لکھا، ’’روسی شہروں کی عدم اہمیت، جس نے بڑھ کر ایشیائی طرز کے ارتقا کو جنم دیا، نے تجدید یعنی جاگیردارانہ افسر شاہانہ قدامت پرستی کی عیسائیت کی کسی ایسی جدید شکل سے تبدیلی جو بورژوا سماج کے مطالبات سے ہم آہنگ ہو، کو بھی ناممکن بنا دیا۔‘‘ اس کتاب میں ٹراٹسکی نے روس کو یورپ اور ایشیا یعنی ایشیائی طرز پیداواراورجاگیرداری کے درمیان قرار دیا۔ سوویت مصنفوں کی تحریروں میں1930ء سے 1964ء تک ایشیائی طرز پیداوار کا ذکر تک نہیں ملتا۔ فروری 1931ء میں لینن گراڈ کانفرنس میں ایشیائی طرز پیداوار پر بحث ہوئی لیکن اس کے اعلامیے میں واضح طور پر ایشیائی طرز پیداوار کے خیال کو غلط قرار دیا گیا۔ جوزف سٹالن نے 1938ء میں لکھے گئے اپنے مضمون ’جدلیاتی اور تاریخی مادیت ‘ میں ایشیائی طرز پیداوار کو تاریخ سے حذف کرتے ہوئے لکھا، ’’آج تک کی معلوم تاریخ میں پانچ طرح کے بنیادی طرز پیداوار رہے ہیں جو کہ قدیم کمیونسٹ، غلام داری، جاگیرداری، سرمایہ داری اور سوشلسٹ ہیں۔‘‘

معاشرتی ٹھہراؤ اور زوال

جیسا پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جن عوامل نے ایشیائی سماجوں کو دیگر سماجوں سے معاشی و ثقافتی فوقیت دی وہی عوامل اس نظام کے ٹھہراؤ اور غیر تغیر پذیری کا باعث بنے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مارکس نے تاریخ کے جبر سے تشبیہ دی ہے۔ یہ طرز پیداوار اپنی مخصوص خصوصیات کے باعث کئی ہزار سالوں تک وجود رکھ سکا اور اس تمام عہد میں اس کے بنیادی کردار میں زیادہ بڑی تبدیلیاں رونما نہیں ہوئیں۔ مارکس نے لکھا، ’یہ پر سکون دیہی برادریاں بظاہر بھلے ہی بے ضرر معلوم ہوں لیکن وہ ہمیشہ سے مشرقی استبداد کی ٹھوس بنیاد رہی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ انسانی ذہن کو حتی الامکان تنگ ترین دائرے میں قید رکھا ہے۔‘‘ مغرب نے جس عرصے میں سرمایہ داری تک کا سفر طے کیا اس دوران ایشیائی ریاستیں ٹھہراؤ کا شکار رہیں۔ اس کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے مارکس نے اینگلز کے نام ایک خط میں لکھا، ’’سیاسی افق پر موجود تمام تبدیلیوں کے باوجود ایشیائی خطے کے ٹھہراؤ کی وجوہات باہمی انحصارپر مبنی دو کیفیات میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ اول، تعمیرات عامہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ دوم، چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں نے اپنے اندر چھوٹی سی دنیا بسا رکھی تھی۔ میرا نہیں خیال کہ ایشیائی استبداد کے ٹھہراؤ کی اس سے بہتر کوئی بنیاد تلاش کی جا سکتی ہے۔‘‘ ہندوستان میں اِس ٹھہراؤ کو برطانوی سامراج نے توڑا۔ مارکس نے ہندوستان میں برطانوی سامراج کی آمد کا جدلیاتی طریقہ کار سے تجزیہ کرتے ہوئے اس کو ’ثالثی کے مندر کی ڈراؤنی او ر بد شکل مقدس مخلوقات‘ سے بد تر قرار دیا۔ مارکس کے مطابق اپنے پیش رو بیرونی حملہ آوروں کے برعکس برطانوی سامراج نے یہاں ایشیائی طرزپیداوار کی بنیادوں کو تہس نہس کر دیا۔ ہندوستانی سماج دو ستونوں پر کھڑا تھا جس میں ایک زراعت اور دوسرا کرگھے اور چرخے پر مبنی دستکاری۔ برطانوی سامراج نے یہاں زراعت اور دستکاری کے باہمی اتحاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ لیکن جہاں ایک طرف برطانوی سامراج نے لوٹ مار، تباہی اور بربادی پھیلائی وہاں ایک ترقی پسند کردار بھی ادا کیا، صدیوں سے ٹھہراؤ کے شکار سماج کا جمود توڑا اور نئے پیداواری رشتوں کو جنم دیا۔ مارکس نے لکھا، ’’حیا تِ نو بخشنے کا کام کھنڈروں کے ڈھیر کے پیچھے بمشکل ہی سے دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ کام شروع ہو گیا ہے۔ ‘‘ مارکس نے واضح کیا کہ ’برقی تار پر مبنی مستحکم اور پائیدار سیاسی اتحاد‘، ’دفاع کے لئے دیسی فوج کی تعمیر‘، ’آزاد اخبار نویسی‘، ’یورپی سائنس سے آگاہی‘، ’ ہندوستان کا بیرونی دنیا سے تیز رابطہ‘ اور ’ریلوے کے ذریعے فاصلوں میں کمی‘ جیسے اقدامات ناگزیر طور پر سماج کو آگے بڑھانے کا کام کریں گے۔ اس نے یہ حقیقت بھی دریافت کی کہ برطانوی سامراج کا ہر ایک قدم اپنی قبر خود کھودنے کے مترادف ہے۔ مارکس اور اینگلز نے سامراجی لوٹ مار کے اس عمل میں مستقبل کے پرولتاریہ کی پیدائش اور ہندوستان کے دنیا کے ساتھ جڑنے کے عمل کو عالمی سوشلسٹ تحریک میں اہم سنگ میل قرار دیا۔ ان کا تناظر مستقبل کے واقعات مثلاً ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک، 1920ء کی محنت کشوں کی جدوجہد اور بالخصوص 1946ء کی انقلابی بغاوتوں کی شکل میں درست ثابت ہوا۔

One thought on “ایشیائی طرز پیداوار کی بحث

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے