ایک انقلابی صورتِ حال کیا ہوتی ہے؟

تحریر: لیون ٹراٹسکی، تلخیص و ترجمہ: کامریڈ سیفی

نومبر 1931ء کی یہ تحریر کامریڈ لیون ٹراٹسکی اور کمیونسٹ لیگ آف امریکہ کی نیشنل کمیٹی (اپوزیشن) کے ممبر کامریڈ البرٹ گلا ٹزرکے درمیان ہونے والی بحث کا نتیجہ ہے۔ ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ 1930ء کی دہائی کے انگلستان کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے لیکن سب سے اہم تجزیہ کرنے کا طریقہ کار ہے جس سے ہم آج بھی بہت سے نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

۱۔ ایک انقلابی نقطہ نظر سے کسی بھی صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت انقلابی صورتحال کی طرف لے جانے والے معاشی اور سماجی حالات اور خود انقلابی صورتحال کے درمیان فرق لازمی ہوتا ہے۔

۲۔ انقلابی صورتحال کی طرف لے جانے والے معاشی اور سماجی حالات عام طور پر وہ ہوتے ہیں جب کسی مُلک کی پیداواری قوتیں ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوں؛ جب کسی بھی سرمایہ دارانہ ملک کا حجم عالمی منڈی میں کم ہوتا چلا جائے اور مختلف طبقات کی آمدن بتدریج کم ہوتی چلی جائے ، جب بیروز گاری کسی اتار چڑھاؤ کی بجائے مستقل سماجی عفریت کی طرح نہ صرف مسلط ہو بلکہ بڑھتی چلی جائے۔ انگلستان میں یہ صورتحال پک کر تیار ہو چکی ہے۔ ہم اس بات کا یقین دلا سکتے ہیں کہ انقلابی صورتحال کی معاشی اور سماجی شرائط وہاں موجود ہیں اور مسلسل پک کر تیار ہورہی ہیں۔مگر ہمیں قطعاً یہ نہیں بھولنا چائیے کہ انقلابی صورتحال ایک سیا سی اصطلاح ہے نہ کہ صرف سماجی۔ وضاحت کے لئے موضوعی عنصر لازمی ہوتا ہے اور موضوعی عنصر کا مطلب صرف پرولتاریہ کی پارٹی نہیں بلکہ یہ پورے طبقے کے شعور کا سوال ہے ، لیکن سب سے بڑھ کر پرولتاریہ اور اس کی پارٹی اہم ہے۔

انقلابی صورتِ حال کی ابتدا

۳۔ تاہم انقلابی صورتِ حال کا آغازاُس لمحے ہوتا ہے جب معاشی اور سماجی حالات سماج کے مختلف طبقات کے شعور پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ ایسے حالات کو انقلابی معروض میں بدلنے کے لئے کیا لازم ہے؟

(i) ہر وہ صورتِ حال جس کا تجزیہ کرنا لازمی ہو اس کے لئے سماج کے تین مختلف طبقات یعنی سرمایہ دار، پیٹی بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان فرق کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ ان طبقات کے شعورمیں پیدا ہونیوالی تبدیلیاں انقلابی صورتحال کا تعین کرتی ہیں اور یہ تبدیلیاں مختلف طبقات میں مختلف ہوتی ہیں۔

(ii) برطانوی محنت کش طبقہ تمام تر نظریہ دانوں سے زیادہ آگاہ ہے کہ برطانیہ کی معاشی صورتحال بہت ابتر ہے۔ مگر انقلابی صورتحال کا آ غاز اُس لمحے ہوتا جب محنت کش طبقہ اپنی نجات کیلئے ایک نئے راستے کا متلاشی ہوتا ہے، سماج کے پرانے رسم و رواج کے مطابق نہیں بلکہ موجودہ سماجی ڈھانچوں کے خلاف ایک انقلابی سر کشی کے ذریعے انقلاب کا راستہ تراشتا ہے۔عوام کے انقلابی جذبات کی شدت انقلابی معروض کے پک کر تیار ہونے کو ماپنے کا سب سے اہم پیمانہ ہے۔

(iii) مگر انقلابی صورتحال وہ ہوتی ہے جو اگلے مرحلے میں محنت کش طبقے کو سماج کا اقتدار سنبھالنے کا موقع دیتی ہے۔ کسی بھی ملک سے زیادہ انگلستان میں اس کا انحصار وہاں کے درمیانے طبقے کے سیاسی افکار اور احساسات پر ہے۔ انقلابی صورتحال تمام روایتی پارٹیوں میں درمیانے طبقے کے عدم اعتماد سے واضح ہوتی ہے(بشمول لیبر پارٹی ، جو کہ ایک اصلاح پسند پارٹی ہے)، اور اس صورتحال میں درمیانہ طبقہ سماج میں کسی ریڈیکل اور انقلابی پارٹی سے امیدیں وابستہ کر لیتا ہے ( نہ کہ ایک ردِانقلابی یعنی فاشسٹ تبدیلی)۔

(iv) دونوں طبقات یعنی محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے شعور کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کے شعور میں بھی واضح تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اپنے ہی نظام کو بچانے کیلئے خود اعتمادی کھو چکے ہیں اور گل سڑ کر دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔

طبقات کی تبدیل ہوتی ہوئی کیفیت
۴۔ پہلے سے یہ تعین کیا جا سکتا ہے نہ ہی ریاضیاتی اصولوں کے مطابق بتایا جا سکتا ہے کہ ان تمام تر عوامل کے تحت ایک انقلابی صورتحال کب پک کر تیار ہو گی۔ایک انقلابی پارٹی فیصلہ کن کردار اپنی جدوجہد، عوام پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنی قوتوں میں اضافے، مثلاً کسانوں اور قصبوں کی پیٹی بورژوازی وغیرہ میں،اور حکمران طبقات کی مزاحمت کو کمزور کر کے ہی ادا کر سکتی ہے۔

۵۔ اگر ہم برطانیہ میں تجزئیے کا یہ طریقہ کار استعمال کرہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ:

(i) بیان کئے گئے معاشی اور سماجی حالات موجود ہیں اور زیادہ با اثر اور شدید ہو رہے ہیں۔

(ii) تاہم ان معاشی حالات کا نفسیاتی نتائج سے رابطہ ابھی استوار نہیں ہوا ہے۔انگلستان میں انقلابی صورتحال کیلئے بڑے پیمانے پر معاشی حالات میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے جو کہ پہلے ہی سے ناقابل برداشت ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ مختلف طبقات کا شعور خود کو اس تباہ کن اور ناقابل برداشت صورتحال کے مطابق ڈھالے ۔

تبدیلی کی شرح

۶۔ سماج میں معاشی تبدیلی بہت سست رفتار ہوتی ہے اور اس کی پیمائش دہائیوں یا صدیوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ مگر جب معاشی حالات میں بنیادی تبدیلی پیدا ہوتی ہے تو قدامت پسند اور پچھڑے ہوئے شعور میں تیز تبدیلی آ سکتی ہے۔ تاہم تیزی یا آہستگی سے، ایسی تبدیلیاں ناگزیر طور پر طبقات کے شعور کو متاثر کرتی ہیں۔ اسی طرح انقلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔

۷۔ سیاسی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے کہ محنت کش طبقے کا نہ صرف قدامت پسند اور لبرلز پر سے بلکہ لیبر پارٹی پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ:

(i) اپنے عزم اور جرا ت کو انقلابی مقاصد اور طریقہ کار کیلئے مجتمع کرے۔

(ii) درمیانے طبقے کا اعتماد بڑی بورژوازی اور اشرافیہ پر سے اٹھ جائے اور وہ انقلابی پرولتاریہ کی طرف مائل ہو۔

(iii) عوام کے ٹھکرائے ہوئے امیر طبقات اور حکمران ٹولوں کا اپنے اوپر سے اعتماد اٹھ جائے۔

۸۔ یہ مظاہر ناگزیر طور پر پیدا ہوں گے۔تاہم وہ فی الوقت موجود نہیں ہیں۔ شدید بحران کے تحت یہ جلد پیدا ہو سکتے ہیں۔ دو یا تین سال یا شاید سال میں بھی یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ مستقبل کا تناظر ہے نہ کہ آج کی حقیقت۔ ہمیں اپنی پالیسی آنے والے کل کے نہیں بلکہ آج کے حقائق کے مطابق ترتیب دینی چاہئے۔

ایک بالغ کمیونسٹ پارٹی کی فیصلہ کن اہمیت

۹۔ ایک انقلابی صورتحال کے سیاسی حالات ایک ہی وقت میں کم و بیش ایک دوسرے کے متوازی پیدا ہو رہے ہیں، مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک ہی وقت میں پک کر تیار ہو جائیں۔پک کر تیار ہوتے ہوئے سیاسی حالات میں سب سے بڑی کمی ایک انقلابی پارٹی (کی عدم موجودگی) ہے۔ یہ خارج از امکان نہیں ہے کہ پرولتاریہ اور درمیانے طبقے میں عمومی انقلابی تبدیلی ، اور حکمران طبقے کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ ایک کمیونسٹ پارٹی کے پک کر تیار ہونے سے زیادہ تیز ہو جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ خارج از امکان نہیں کہ ایک حقیقی انقلابی صورتحال ایک مضبوط کمیونسٹ پارٹی کے بغیر ہی پیدا ہو جائے۔ یہ کسی حد تک 1923ء کے جرمنی والی صورتحال ہو گی۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ انگلستان (فی الوقت) اس صورتحال میں ہے۔

۰۱۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل خارج از امکان نہیں ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کی بڑھوتری انقلابی صورتحال کے باقی تمام تر پہلوؤ ں کی نسبت سست رو ہو مگر یہ کسی بھی طرح ناگزیر نہیں ہے ۔اس سوال پر ہم بالکل قطعی پیش بینی تو نہیں کر سکتے لیکن سوال صرف پیش بینی کا نہیں ہے،یہ ہمارے اپنے عمل کا سوال ہے۔

۱۱۔ سرمایہ دارانہ سماج کی موجودہ کیفیت میں پرولتاریہ کو تینوں بورژوا پارٹیوں سے ناطہ توڑنے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟ کمیونسٹ پارٹی کی درست پالیسی کے تحت عین ممکن ہے کہ اس کی نمو دوسری پارٹیوں کے دیوالیہ پن اور ٹوٹ پھوٹ کے تناسب سے ہی ہو (یعنی درست پالیسی اپنانے کی صورت میں باقی پارٹیاں جوں جوں زوال پزیر ہوں گی اسی شرح سے کمیونسٹ پارٹی بڑھے گی)۔ یہ ہمارا مقصد ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔

آگے کیا ہو گا؟
نتائج: اس سے واضح ہوتا ہے کہ انگلستان کو اس وقت جمہوریت اور فاشزم کے درمیان قرار دینا بالکل غلط ہے۔ فاشزم کے دور کا آغاز سنجیدگی سے پرولتاریہ پر بورژوازی کی فیصلہ کن فتح سے ہوتا ہے۔ مگر انگلستان میں عظیم جدوجہد ہمارے آگے کھڑی ہے نہ کہ پیچھے۔جیسا کہ ہم نے ایک اور جگہ تبادلہ خیال میں واضح کیا تھا کہ قومی حکومت (National Government) کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد انگلستان میں قدامت پرست حکومت (کنزویٹو پارٹی کی حکومت) بننے کے امکانات ہیں لیکن قوی امکان ہے کہ اس کے بعد آنے والا سیاسی عہد لبرل لیبر اصلاح پسندوں (کی حکومت) پر مبنی ہو سکتا ہے جو کہ انگلستان میں فاشزم سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ہم مشروط طور پر اس متذکرہ عہد کو برطانوی طرز کی کیرنسکی حکومت کہہ سکتے ہیں۔ (روس میں زار شاہی کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کا سربراہ کیرنسکی تھا جس سے بعد ازاں نومبر 1917ء میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کشوں نے اقتدار چھینا تھا)

مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ضروری نہیں کہ کیرنسکی طرز حکومت کا مظہر جس طرح روس میں کمزور تھا اسی طرح ہر حالات اور ہر ملک میں ہی کمزور ہو۔ روس میں کیرنسکی حکومت کی کمزوری بالشویک پارٹی کی عظیم طاقت کے نتیجے میں تھی۔ تاہم مثال کے طور پر سپین میں کمیونسٹ پارٹی کی کمزوری کی وجہ وہاں موجود کیرنسکی طرز کی حکومت، جو لبرلز اور ’’سوشلسٹوں‘‘ کے اتحاد پر مبنی ہے، کسی بھی طرح روس کی طرح کمزور نہیں ہے، اور اسی وجہ سے ہسپانوی انقلاب کو اس سے شدید خطرہ ہے۔کیرنسکی طرز حکومت کا مطلب اصلاح پسندی، ’’انقلابی‘‘، ’’جمہوری‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ لفاظی اور ثانوی نوعیت کی جمہوری اور سماجی اصلاحات کا استعمال اور ساتھ ہی ساتھ محنت کش طبقے کے بائیں بازو پر جبر ہے۔یہ طریقہ کار فاشزم سے بالکل متضاد ہے مگر مقصد ایک ہی ہے۔

آنے والے کل کا خطرہ اصلاح پسند پارٹی ہے جو کہ لبرلز اور سوشلسٹوں کے الحاق پر مبنی ہو سکتی ہے۔ فاشزم کا خطرہ اس سے تیسرے یا چوتھے مرحلے پرہے۔ فاشسٹ مرحلے کے خاتمے اور اصلاح پسند مرحلے کے خاتمے یا اسے مختصر کرنے کے لئے ہماری جدوجہد کا مطلب درحقیقت محنت کش طبقے کو جیتنے کے لئے کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد ہے (یعنی محنت کش طبقے کو انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیت کر ہی فاشزم اور اصلاح پسندی سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے