عالمی اورقومی امورپر انقلابی رہنما لال خان کے خیال افروز تجزیے

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈاکٹر سید جعفر احمد انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی کے ڈائریکٹر اور سہیل یونیورسٹی کراچی کے شعبہ سوشل سائنس کے ڈین ہیں۔ انہوں نے تاریخ، سیاست اور ادب پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔

جناب یثرب تنویرجو انقلابی سیاسی، علمی اور ادبی حلقوں میں کامریڈ لال خان کے نام سے مشہور ہوئے ، بائیں بازو کے ایک ایسے سرکردہ رہنما تھے جن کی ساری زندگی انقلابی نظریاتی وابستگی کی آئینہ دار تھی۔22 جون 1956ءکو انہوں نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا اور21 فروری 2020ءکو ایک انتہائی بھرپور اور سرفروشانہ زندگی گزار کر وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔کامریڈ لال خان ایک انقلابی کارکن اور رہنما تھے جنہوں نے مارکسزم سے بنیادی تاریخی اور انقلابی شعور اخذ کیا تھا۔ان کی عملی جدوجہد اسی شعور کا حاصل تھی، اسی شعور کو انہوں نے اپنے ملک اور بیرونِ ملک، جہاں جہاں تک ان کی آواز اور تحریریں پہنچ سکتی تھیں، پھیلانے کی کوشش کی ۔یہ سارا کام انہوں نے غیر معمولی اعتماد کے ساتھ کیا۔تاریخ کے ارتقائی عمل اور انقلاب کے راستوں کی جو بھی تفہیم وہ حاصل کرسکے وہ اس پر راسخ رہے اور کبھی انہیں ندامت کا احساس نہیں ہوا۔

کامریڈ لال خان اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے لیکن انہوں نے اس پیشے کو اختےار کرنے کے بجائے عملی سیاست کا راستہ اختےار کیا۔اشتراکیت کی تعبیر و تشریح میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریات کو مناسب ترین تصور کیا اور وہ ساری زندگی اسی کے شارح بنے رہے۔ان کی نظریاتی تعبیرات سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے دونوں ہی بڑی تعداد میں موجود ہوسکتے ہیں لیکن مارکسزم اور لینن ازم سے ان کی بنیادی وابستگی کے بارے میں دو رائےں نہیں ہوسکتیں۔کامریڈ لال خان اُن انقلابی رہنماﺅں میں شامل تھے جن کا دائرہ کار صرف عملی جدوجہد تک محدود نہیں رہتا بلکہ جو علمی کام بھی کرتے ہیں اور درپیش سماجی و سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرنے کو بھی جدوجہد کا حصہ تصور کرتے ہیں۔خود کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے جرمن آئیڈیالوجی پر اپنی کتاب میںیہ فکر انگیز نکتہ بیان کیا تھا کہ علمی اور فکری سرگرمی بھی عمل یعنی praxisہی کی ایک صورت ہے اور علمی اور سیاسی سرگرمیوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔کامریڈ لال خان جس یکسوئی اور نظریاتی تیقّن کے ساتھ علمی کام کرتے تھے وہ ان کی عملی جدوجہد کوبراہ راست طور پر متاثر کرتا تھا اور ان کی عملی جدوجہد ان کے نظریاتی کام کے لیے مہمیز کی حیثیت رکھتی تھی۔کامریڈ لال خان کی علمی، فکری اور تصنیف و تالیف پر مبنی سرگرمیوں نے مختلف شکلوں میں اظہار پایا۔وہ’ایشین مارکسسٹ ریویو ‘اور ’طبقاتی جدوجہد‘ جیسے اہم نظریاتی پرچوں کے مدیر رہے۔ ہر سال اُن کی تنظیم کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر شایع ہونے والی دستاویزات ان کی تنظیم کی سرکاری مطبوعات ہوتی تھیں مگر اُن کی تحریر بھی بیشتر انہیں کا کام ہوتا تھا۔اس کے علاوہ ان کی اپنی اردو اور انگریزی میں تحریر کردہ کتابیں اور ہزاروں کی تعداد میں مضامین بجائے خود ایک بڑے ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان سب تحریروں کا تفصیلی تجزیہ ایک بڑے مضمون کا متقاضی ہے لیکن یہاں ہم اُن کے چند اہم ترین نکات ِ فکر کا حوالہ دینے تک خود کو محدود رکھیں گے۔

لال خان صاحب کے انگنت مضامین کو مرتب کرنے کا بڑا اہم کام’ طبقاتی جدوجہد‘ میں اُن کے رفقائے کارنے سرانجام دیا ہے۔نومبر2011 ءسے جنوری 2020ءتک ان کے 762مضامین ان کے احباب نے ’منتخب تصانیف‘ کے عنوان سے تین جلدوں میں مرتب کردیے ہیں۔ترتیب و تدوین کا یہ کام بڑے سلیقے اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سرانجام دیا گیا ہے۔تینوں جلدوں میں شامل مضامین کو13 ذیلی شعبوںکے تحت مرتب کیا گیا ہے۔یہ شعبے بالترتیب ’پاکستان‘، پیپلز پارٹی‘،’قومی سوال‘،’بنیاد پرستی‘،’تاریخ‘،’مزدور تحریک‘،’معاشیات‘،’سامراجیت‘،’جنوب ایشیا‘، ’مشرق وسطیٰ‘،’یورپ‘،’دنیا/متفرق‘اور ’عمومی موضوعات‘،ہیں۔ تین جلدوں پر مشتمل اس سیٹ کی ہر جلد میں شامل تیرہ شعبوں کو قارئین کے لیے مزید سودمند بنانے کے لیے ہر شعبے کے مضامین کو تاریخ کے اعتبار سے یعنی chronologicallyمرتب کیا گیا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے یہاں کم ہی ضخیم کتابیں اتنے سلیقے سے مرتب کی گئی ہوں گی۔
’منتخب تصانیف ‘کے مندرجات کی طرف متوجہ ہوں تواس کتاب کا اصل جوہر ہمارے سامنے آتا ہے۔ایک واضح نظریاتی ذہن کے ساتھ لکھی گئی یہ ساری تحریریںہم عصر ملکی سیاسی ، معاشی صورت حال اور عالمی معاشی و سیاسی رجحانات کو مارکسی زاویہ نظر سے دیکھنے کی قابل ذکر کاوش قرار دی جاسکتی ہیں۔ان تحریروں میں مصنف کا رویہ غیر مصلحت پسندانہ اور درمیانی راستے تلاش کرنے کی کوششوں سے مکمل انحراف کا رویہ ہے۔وہ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت ناقد ہیں،وہ سامراجیت اور اس کی عالمی ریشہ دوانیوں کو بخوبی سمجھتے اور اس کو بے نقاب کرتے ہیں۔

جن دس،گیارہ برسوں کی تحریریں ان جلدوں میں محفوظ کی گئی ہیںان میں عالمی سطح پر اور خود ہمارے ملک میں جو معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات درپیش رہے ان پر لال خان صاحب کے تجزیے تسلسل سے سامنے آتے رہے۔عالمی سطح پر سامراجی نظام نے جن پرانے اور نئے رجحانات کا مظاہرہ کیا ان کا بہت باریک بینی سے کامریڈ لال خان نے تجزیہ کیا۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں جو وسعت آئی اور اس نے اپنے چہرے پر ماضی میں جو ایک ’انسانی نقاب ‘چڑھا رکھا تھا وہ اتر گیا، تو اس صورت حال کی تفصیلات ان کی تحریروں میں جگہ پاتی رہیں۔کس طرح سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے مارکیٹ اکانومی کے وسیلے سے دنیا کے دور دراز خطوں تک اپنے استحصالی شکنجوں کو پھیلایا، اسلحے کی تجارت کو فروغ دیا گیا، بوسنیا، افغانستان اور عراق پر بھیانک ترین اسلحے کا استعمال کیا گیا،ناٹو کو مزید مستعد بناکر یورپ میں اسلحے کی گرم بازاری کی گئی، ان تمام امور کی تفصیلات نے ان کی تحریروں میں جگہ پائی۔اپنے ایک مضمون ’سامراجی جارحیت کی غارت گری‘ میں وہ کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف ’سرمایہ‘ میں سے مارکس کا یہ قول درج کرتے ہیں کہ ’زر(پیسہ) اگر دنیا میںاپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آتا ہے تو سرمایہ، سامراجیت کی شکل میں سر سے پیر تک، اپنے ہر ایک مسام سے خون ٹپکاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے“۔کامریڈ لال خان اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’سامراجیت کی پوری تاریخ جارحیت،دوسرے ممالک پر قبضوں اور تسلط، لوٹ مار اور قتل عام سے عبارت ہے‘ 1 ان کی تحریروں میں ویتنام ، عراق ،افغانستان اور لاطینی امریکہ کے وہ بہت سے ممالک مستقلاً موضوع ِ گفتگو بنتے رہے جو سامراجی ریشہ دوانیوں کا شکار بنائے گئے۔

عالمی سامراجی نظام کے زیر اثر دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں میںجس قسم کے معاشی اور سیاسی نظام قائم ہوئے،نام نہاد قومی ریاستوں کا جو وجود عمل میں آیا اور پھر ان ریاستوں کے اندر طبقاتی جدوجہد کی جو صورت گری ہوئی،یہ سب بھی کامریڈ لال خان کی تجزیہ نگاری کا مستقل موضوع قرار پائی۔

گذشتہ بیس بائیس برسوں میں دنیا میں مزدور تحریکیں کن بحرانوں کا شکار ہوئیں،ان کے حاصلات کیا ہوئے،ناکامیاں کن اسباب کا نتیجہ تھیں،یہ سب بھی ان کے تجزیوں کا حصہ بنا۔ان تمام بحرانوں کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی عالمی تحریک پر ان کا ایمان کبھی کمزور نہیں ہوا۔ان کو احساس تھا کہ سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد بہت سے سابق اشتراکی چشم زدن میں انقلاب مخالف صفوں میں شامل ہوگئے۔ان میں سے کئی چین اور روس سے اپنا ذہنی رشتہ توڑ کر واشنگٹن کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا بیٹھے۔لیکن اُن کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ ”سوشلسٹ انقلاب کے لفظ کو ایک تضحیک اور سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کو جرم بنادیا گیا۔۔۔لیکن سماج کی کوکھ میں پکنے والے لاوے کی حدت بہت بڑھ چکی ہے،سماجی ہلچل اور تحریکوں میں شدت آنا شروع ہوگئی ہے“2کامریڈ لال خان کو یقین تھا کہ ’عالمی سطح پر انسانی معاشرہ انقلاب کے لیے پک کر تےار ہوچکا ہے۔سرمایہ داری وہ بوسیدہ عمارت ہے جسے محنت کش طبقے کی ایک ضرب منہدم کرسکتی ہے،اس فیصلہ کن اور کاری ضرب میں نسل انسانی کی نجات پنہاں ہے۔مارکسسٹوں کا فرض ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو اس تاریخی فریضے کی ادائیگی کے لیے منظم اور متحرک کریں“3

کامریڈ لال خان اُن تضادات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں جو سامراجی ملکوں کے اپنے اندرونی نظاموں میں پروان چڑھتے ہیں۔مثلاً انہوں نے امریکہ میں نسلی منافرت کو امریکہ کے سامراجی نظام کے جزوِ لاینفک کے طور پر دیکھا۔وہ امریکی سیاہ فاموں کے ہر دلعزیز رہنمامیلکم ایکس کا قول دہراتے ہیں کہ ”نسلی تعصب کے بغیر سرمایہ داری کا وجود ہی ممکن نہیں ہے“۔بارک اوباما کے صدر بننے سے امریکہ کے نسلی تضاد پر مشتمل معاشرے اور ریاست میں کوئی معنوی تبدیلی نہیں آئی۔اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لال خان نے لکھا:
’سیاہ فام شخص کے صدر بننے سے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات ختم ہوئے ہیں نہ ہی امریکہ میں رہنے والے عام سیاہ فاموں کی معاشی اور سماجی مشکلات کم ہوئی ہیں۔نسلی تعصب سمیت تمام مسائل نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ گھمبیر ہوتے چلے جارہے ہیں۔مسئلہ چند افراد یا ان کے رنگ و نسل نہیں بلکہ اس سماج کے خمیر میں موجود طبقاتی تضاد ہے۔ریاستی حکمرانوں کا رنگ بھلا ریاست کے کردار اور استحصالی معیشت کی حرکیات کو کیسے بدل سکتا ہے؟‘ 4

لال خان سامراجیت اور اُس کے داخلی نسل پرستانہ نظام کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور نسل پرستی لازم و ملزوم ہیں اور یہ جب بھی ختم ہوئے،ایک ساتھ ختم ہوں گے،لیکن یہ خاتمہ ہوگا کیسے؟ وہ اس کی راہ کشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’جب تک ذرائع پیداوار اور دولت پر اقلیتی طبقہ قابض ہے،ریاست اس طبقے کے ہاتھ میں جبر کا آلہ بن کے اکثریت کو سیاسی،معاشی اور سماجی طور پر کچلتی رہے گی۔چہروں یا حکومتوں کے بدل جانے سے کوئی’تبدیلی نہیں آئے گی۔لینن نے کہا تھا کہ’عوام کی آپسی لڑائیاں ان کی غلامی کو تقویت بخشتی ہیں‘۔امریکی محنت کشوں کو سیاہ و سفید کی تفریق کو مسترد کرتے ہوئے،دنیا بھر کے محنت کش عوام کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر اس سامراجی ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہوگا جو نہ صرف انہیں برباد کررہی ہے بلکہ پورے کرہ ارض کا ناسور بن چکی ہے۔رنگ اور نسل کے تعصب سے اس وقت تک نجات ممکن نہیں جب تک اس نظام کو پاش پاش نہ کیا جائے جو ان تعصبات کو بھڑکاتا اوراستعمال کرتا ہے! 5

کامریڈ لال خان کے پاکستان سے متعلق تجزیے بھی گہرے مطالعے‘ مشاہدے اور تجزیے کے حامل ہیں۔وہ تقسیم ِ ہند کے بارے میںیہ رائے رکھتے ہیں کہ تاریخ کا یہ اہم واقعہ برطانوی استعمار اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مقامی سیاسی و معاشی اشرافیہ کے باہمی اتفاق و اختلاف کا نتیجہ تھا۔اس تقسیم کے نتیجے میں ہولناک انسانی تباہیاں ، نقل مکانی،آبروریزی کے واقعات اور قتل و غارت گری ہوئی اس سے ان قوتوں کو کبھی کوئی سروکار نہیں رہا۔لال خان نے تقسیم ہند سے متعلق اپنا نقطہ نظر چند فقروں میں یوں بیان کردیا تھا:
’مسلمان سرمایہ داروں کو ہندوسرمایہ داروں کے مقابلے سے پاک منڈی کی تلاش تھی،جاگیر داروںکوزمینداری نظام کا تسلسل درکار تھا،قدامت پسند تھیوکریٹک ریاست کے متلاشی تھے اور ریاستی عہدیدار تیز ترقی کے شارٹ کٹ چاہتے تھے۔تاہم اس سب کے باوجود بھی بٹوارے کے گھاﺅ سے بچا جاسکتا تھا ،اگر کانگریس کی قیادت کا کردار اتنا غلیظ نہ ہوتا‘۔6
اسی تناظر میں وہ کانگریس کی سیاست کے دوررس نتائج کا احاطہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:

’بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں تک کانگریس بڑی حد تک سیکولر سیاسی جماعت تھی۔برصغیر کی سیاست میں مذہبی شاونزم کا ابھار گاندھی کے ساتھ ہی ہوا۔گاندھی سے قبل مین سٹریم سیاست میں ہندو بنیاد پرست رجحانات کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔گاندھی کی مذہبی”روحانیت“،قدامت پرست شعبدے بازیاں اور ”مذہبی یگانگت“کی گردان وہ عناصر تھے جن کے تحت مذہب غیر محسوس طریقے سے سیاست میں سرایت کرتا چلا گیا۔اسی عہد میں ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ نے”ہندو قوم“کا نعرہ بلند کیا۔گاندھی کی حرکات مذہبی تقسیم کو ہوا دیتی رہیں جبکہ وہ خود ہندو مسلم اتحاد کے راگ الاپتا رہا۔دوسرے مذاہب کی اشرافیہ کے لیے ان حالات میں مذہب کے سیاسی استعمال کی راہ ہموار ہوئی‘۔7

لال خان ہندوستان کی تاریخ میں حقیقی انقلابی رجحانات کی نشاندہی بھی اپنے مختلف مضامین میں کرتے رہے۔انہوں نے بھگت سنگھ،1946ءکی نیوی کی بغاوت اور ان کے علاوہ مختلف ادوار میں ہندوستان کا ناقابل فراموش باب تصور کیا اور واقعات سے ایک استعمارمخالف نقطہ نظر کو جلابخشنے کی کامیاب کوشش کی۔پاکستان کے بارے میں ان کے بیسیوں مضامین ملک میں جمہوریت اور فوجی آمریت کے تضاد ،بورژوا سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں اور خاص طور سے ان کی موقع پرستی،ریاست کے ہاتھوں شہریوں کی تذلیل،انتخابی ناٹکوں کی اندرونی حرکیات،عدلیہ کی جمہور دشمن اور آمریت نواز طویل تاریخ، نسلی و لسانی جھگڑوں کے اسباب غرض پاکستان کو درپیش مختلف النوع تضادات کے معروضی تجزیوں پر مشتمل ہیں۔لال خان اور ان کی تنظیم پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ایک نوع کے تعلق کی حامل رہی ۔شاید ان کا خیال یہ تھا کہ اس جماعت نے اپنے ابتدائی منشور میں اور ذو الفقار علی بھٹو نے اپنی ابتدائی سیاست میں جن اصولوں اور پروگرام کا ذکر کیا تھا وہ حوصلہ افزا اور کارآمد تھا،اور اس پر اشتراکی تعمیر کا کام کیا جاسکتا تھا۔ان کا یہ خیال کوئی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکا۔وہ کسی نہ کسی سطح پر پارٹی کے ہم نوا بھی رہے۔لیکن انہوں نے اس کی سیاست پر شدید تنقید بھی جاری رکھی۔ان کا خیال تھا کہ بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی وہ نہیں رہی جو وہ پہلے تھی۔اس نے پرائیوٹائزیشن کی حمایت شروع کی، ملی جلی معیشت کا موقف اختےار کیا،فوجی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مصالحت کی، مصلحتوں کا راستہ اختےار کیا اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیا۔وہ خود بھٹو کے دورِ اقتدار سے حاصل ہونے والے تاریخ کے سبق کو خود بھٹو ہی کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنی سیاست کاحاصل یہ بیان کیا کہ ’میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلا ہوں میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لیے متضاد مفادات کے درمیان آبرو مندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔یوں معلوم ہوتا ہے اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستی ، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹوپیا (دیوانے کا خواب) ہے۔فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا‘۔8

ڈاکٹر لال خان نے کئی مضامین بنیاد پرستی پر بھی لکھے جو ان کے خیال میں براہ راست طور سے عالمی سامراج اور پاکستانی ریاست کی پروردہ ہے۔یہ عوام کو حقیقی مسائل سے غافل کرنے،ان کو ماضی کا اسیر بنائے رکھنے اور اسلحے کے زور پر مہذب اور متمدن زندگی کو قدم جمانے سے روکنے کی شعوری کوشش ہے۔

مذہبی بنیاد پرستی نے سامراجیت کے،دنیا بھر میں توسیع حاصل کرنے کے پروجیکٹ کا حصہ بن کر معاشروں کو منفی طور پر کس طرح بدلا ہے،اس کا ذکر لال خان پاکستان کے حوالے سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ہزاروں سالوں سے اس خطے کے دیہات سیکولر ثقافت اور طرز زندگی کا گہوارہ رہے ہیں۔چند دہائیاں پہلے تک دیہات کے مولوی یا مذہبی پیشوا کا سماجی مرتبہ ثانوی اور معاشی حیثیت قابل رحم ہوا کرتی تھی۔1980ءکی دہائی میں شروع ہونے والی کالے دھن کی ریل پیل اور ریاستی سرپرستی میں لڑے جانے والے ڈالر جہاد نے مذہب کے سماجی کردار کو ہی بدل دیا ہے اور ملا سائیکل سے اتر کر لینڈ کروزر گاڑیوں پر چڑھ بیٹھا ہے۔سماج جتنا بدحال ہوا ہے،مذہب کے ٹھیکیدا ر اسی تناسب سے ”خوشحال“ ہوئے ہیں۔یہاں کی مسخ شدہ سرمایہ داری کے تحت دیہاتوں میں آنے والی ”جدیدیت“ بھی انتہائی بدنما اور جعلی ہے۔سرمائے کی سرایت نے دیہات کی زندگی کے اشتراکی پہلو اور رنگین ثقافت کو برباد کردیا ہے۔فطرت کا حسن بگڑ گیا ہے، معاشی حالات بدتر ہوئے ہیں اور شعوری پسماندگی بڑھی ہے جس نے فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے کاروبار کے لیے سازگار حالات فراہم کیے ہیں۔مذہب غربت کو قناعت اور صبر کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔معاشی،سماجی اور ثقافتی گراوٹ کے ان ادوار میں کسی مذہبی یا فرقہ وارانہ گروہ سے وابستگی،سماج کی پسماندہ اور بیگانہ پرتوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے‘۔9

اس قدرے طویل اقتباس کو پڑھ لینے کے بعد اس امر کی مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ہمارے یہاں گذشتہ تیس ، پینتیس برسوں میں مذہبی و مسلکی جماعتوں کو اتنا فروغ کیوں کر حاصل ہوا؟وہ سیاست کے مرکزی دھارے میں ایک قابل قدر کردار کی حامل کیسے بن گئیں؟ اور ان کی حاصل کردہ اسٹریٹ پاور نے معاشرے کو کس طرح اُن کے ہاتھوں میں گروی رکھوادیا؟مذہبی انتہا پسندی نے فرقہ واریت کو جو ہوا دی، اُس کا ذکر اپنے مضمون ”فرقہ واریت کا عفریت “میںکرتے ہوئے لال خان لکھتے ہیں:

’1980ءکی دہائی سے بنیادپرستی کو ہوا دینے میں ریاست کے کردار اور سرکاری ملاﺅں کی دولت میں بے پناہ اضافے سے پرتشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کے تشدد میں بھی شدت آئی جنہیں بنیادی طور پر سامراج اور ریاست نے تخلیق کیا اور پروان چڑھایا تھا۔بعد کی دہائیوں میں مختلف جمہوری حکومتوں نے بھی ان فرقہ وارانہ پراکسیوں کا استعمال جاری رکھا اور پورے ملک میں ان کے مدرسوں کی تعداد بڑھتی گئی۔جرائم،کرپشن،منشیات،قبضہ گیری اور دوسرے دھندوں پر مبنی کالی معیشت کے بڑھنے سے مختلف بنیاد پرست دھڑوں کے درمیان اس لوٹ مار پر لڑائیاں بھی بڑھ گئیں۔اس سے ان فرقوں کے مزید فرقے بنے اور سب اس لوٹ کے مال کو زیادہ سے زیادہ لوٹنے کے لیے آپس میں دست و گریبان ہوگئے۔ہر نیا بننے والا فرقہ اور دھڑا پہلے سے زیادہ بربریت کا مظاہرہ کرتا تھا تاکہ اپنا دبدبہ اور مارکیٹ ویلیو بڑھاسکے۔آج پاکستان میں ضیاءالحق کی وحشی آمریت کے دور سے کہیں زیادہ مذہبی فرقے اور مختلف انواع و اقسام کی بنیاد پرست تنظیمیں موجود ہیں۔سماجی تعلقات مزید زہر آلود ہورہے ہیں اور نجی زندگیوں میں ایک طرف ان بنیاد پرستوں تو دوسری طرف’نیشنل ایکشن پلان ‘جیسی ”کاروائیوں“ کے نام پر ریاست کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے‘۔10

کامریڈ لال خان کے افکار کی یہ صرف چند جھلکیاں ہیں۔بہت اچھا ہوکہ ہمارے نظریاتی کارکن ان تحریروں کو توجہ سے پڑھیں جو بہت کچھ سمجھانے اور اپنے معاشرے کے تضادات کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔کامریڈ لال خان کے مضامین اور دیگر تحریریں ایک سے زیادہ سیمیناروں کی متقاضی ہیں۔امید ہے کہ ان کے احباب ایسی ہی مزید محفلوں کا انعقاد کرتے رہیں گے اور ان تحریروں کو زیر بحث لاتے رہیں گے۔

لال خان صاحب ادب کا بھی بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے۔اُن کی تحریروں میں جو وفور اور حقائق کو موثر ترین انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ تھا،وہ ادب سے اُن کے تعلق ِ خاطر ہی کا نتیجہ تھا۔وہ فیض کی شاعری کے بڑے قدردان تھے۔وہ فیض کی شاعری پر اشرافیہ کے تصرف پر سخت تنقید کرتے اور فیض کی انقلاب دوستی کو اجاگر کرتے رہتے تھے۔

فیض کے نظریاتی تیقن اور ان کے فکری استقلال،نیز بعض حلقوں کی طرف سے آخری عمر میں اُن کی نظریاتی وابستگی کے، مبینہ اضمحلال کے الزام کے تناظر میں لال خان نے لکھا:
’فیض صاحب نے تمام عمر اپنے نظریات کبھی نہیں چھپائے۔وہ کھل کر بڑی جرات سے خود کو کمیونسٹ قرار دیتے تھے۔اسی نظریے کی پاداش میں انہیں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں،جلا وطن بھی ہوئے لیکن ہر قسم کی تضحیک،جبر اور اذیت کے باوجود،مرتے دم تک اپنے نظریات چھپائے نہ ان سے منحرف ہوئے۔فیض کو مارکسزم اور کمیونزم سے الگ قرار دینا کم از کم کسی ذی شعور انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔وکی پیڈیا پر درج فیض صاحب کے اس تعارف کو کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے کہ فیض ”پراگریسو رائیٹرز موومنٹ“(PWM)کے سرخیل رکن تھے۔وہ واشگاف طور پر مارکسسٹ تھے۔1962ءمیں انہیں سوویت یونین کی طرف سے ’لینن امن انعام‘ سے نوازا گیا…‘۔11

فیض کے انتقال کے بعداور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ماضی کے بعض ترقی پسندوں نے اپنی،رخ کردار کی تبدیلی کو فیض کی نئی تعبیر کا سہارا دینے کی کوشش کی۔مگر لال خان نے تنبیہہ کے انداز میں کہا:
’آج فیض کے کئی قریبی دوست اور نئی نسل میں ان کے بہت سے مداح سماج پر حاوی رجعت اور پراگندگی سے گھبرا کر ا ن کے کمیونسٹ ہونے کی سچائی کو چھپانے یا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مشکل سے مشکل عہد میں فیض نے ایسی کوئی کوشش کبھی نہیں کی۔مارکسزم نے فیض کی شخصیت کو جو جلابخشی اس کا ذکر وہ اپنی نظم ”رقیب سے“میں کرتے ہیں….۔فیض صاحب میں بہت سی نظریاتی کمزوریاں ہوسکتی ہیں،وہ سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق نہیں کرپائے لیکن مشکل ترین حالات میں بھی انقلابی سوشلزم اور انسانیت کے کمیونسٹ مستقبل پر فیض صاحب کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے‘۔12

عجیب اتفاق ہے کہ لال خان نے دنیا سے رخصت کے لیے جو مہینہ یعنی فروری منتخب کیا، وہ اُن کے ممدوح فیض صاحب کی دنیا میں آمد کا مہینہ بھی ہے۔سو کیوں نہ ہم اس مختصر مضمون کو فیض کے اُن اشعار پر ختم کریں جو فیض ہی کے نہیں بلکہ لال خان اور اُن جیسے اُن سب لوگوں کے حسبِ حال ہیں جو جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں اور انقلاب کی منزل کے سفیر ہیں

یہ دل کے داغ تو دُکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجرانِ یار کا موسم
صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں
اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

حوالہ جات
1۔ لال خان،’منتخب تصانیف‘،لاہور:طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز،جلد اوّل،ص ۔510
2۔ ایضاً، ص۔655
3۔ ایضاً، ص۔656
4۔ ایضاً، جلد2،ص۔26
5۔ ایضاً، ص۔27
6۔ ایضاً، ص۔457
7۔ ایضاً، ص۔458
8۔ ایضاً،جلداوّل ،ص۔94
9۔ ایضاً، جلد2، ص۔29
10۔ ایضاً، جلد3،ص۔137
11۔ ایضاً،جلد2،ص۔151
12۔ ایضاً، ص۔152

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے