اداریہ – ریاض و تہران سمجھوتہ اور تنازعات کے بارودی سرنگ

[یہ اداریہ پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد کے شمارہ نمبر 7 یکم تا 15 اپریل 2023ء میں شائع ہوا تھا]

ریاض اور تہران کی رجعتی ریاستیں نصف صدی تک قدیم تاریخ کے تعصبات پر مبنی فرقہ پرستی کی خون آشام پراکسی جنگوں میں مسلم دنیا کے غریب عوام کو تاراج اور تباہ و برباد کرنے کے بعد چین کی ثالثی میں بھرپور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا سمجھوتہ کر بیٹھی ہیں۔ اس سمجھوتے سے امریکا‘ نیٹو اور ان کے حواریوں کو پہنچنے والی اذیت اور پریشانی پر سرشاری سے دوسری انتہا میں جاکر اس سمجھوتے سے خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا سیاسی حماقت ہے۔ دراصل 2008ءسے عالمی معاشی بحرانوں کے تسلسل نے ان آمرانہ حکومتوں کے معاشی و ریاستی حالات پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں جس کے نتیجے میں سعودی حکمران خاندان اور ایرانی مقتدر ملاﺅں کی اقتدار پر گرفت بہت کمزور ہوئی ہے۔ اس گہرے بحران سے ان میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کو مہمیز ملی ہے اور مصالحت کا یہ موڑ ان ظالم حکمرانوں کے داخلی ناقابل حل شدید تضادات کے آگے کمزوری اور بے بسی کی غمازی کرتا ہے۔ جس طرح ”جنگیں دراصل دوسرے ذرائع سے سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہیں“ اسی طرح بنیادی خیالات اور پالیسیوں میں تبدیلی کے بغیر مصالحت جہاں ایک طرف حکمرانی کی سابقہ پالیسیوں کی ناکامی اور طریقوں کے استرداد کا نہایت واضح اظہار ہے‘ تو دوسری جانب یہ جدلیاتی سماجی سائنس کی سچائی کا ٹھوس ثبوت بھی ہے کہ حکمرانوں اور سرمایہ دار ریاستوں کے تضادات چاہے کتنے شدید ہی کیوں نا ہوں وہ ہمیشہ فروعی نوعیت کے قابل مصالحت تضادات ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ظالم نظام ِ زر اپنے عروج اور استرداد کے تاریخی عمل کے تسلسل میں عالمی پیمانے پر گہرے بحرانوں کی اندھی کھائی میں کسی خوفناک منطقی انجام سے دو چار ہونے کے لیے زوال کے ایک تیز ڈھلوان پر لڑھکتا ہی جارہا ہے۔ نسل انسان کو ہلاک، تہذیب کو مٹانے اور محنت سے تعمیر ہونے والے تمدن کو برباد کرنے جیسے جنگی ساز و سامان کی صنعت و جنونی نفسیات میں ترقی کے علاوہ‘ اس نظام کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ عہد کی سامراجی طاقت امریکا اور شمالی اوقیانوس کی جنگی تنظیم نیٹو‘ نامراد نیو لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کو ظالمانہ پالیسیوں اور ننگی جارحیت کے ذریعے مسلط رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں‘ جس سے کرہ ارض کے باسیوں کی اکثریت قحط، غربت، مفلسی، بےروزگاری اور تاریک مستقبل کے بھیانک احساسات کے شکنجوں میں جھکڑی ہوئی ہے۔ ان سامراجی پالیسیوں کے خلاف متحرک تنظیموں اور محنت کش عوام کو کچلنے کے لیے یورپ کی نام نہاد سوشل ویلفیئر سٹیٹس تک خونخوار پولیس ریاستوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ یورپ‘ لاطینی امریکا اور ایشیا کے مختلف ممالک میں محنت کشوں، اقلیتوں، خواتین و بچوں، مظلوم طبقات ، محکوم قوموں اور انقلابی نظریات کو دبانے کے لیے نیم فسطائیت کا عفریت پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ نظام زر کے عالمی اور ہمہ جہت بحرانوں کے پس منظر میں ریاض اور تہران کی رجعتی مذہبی ریاستیں‘ جن کی قبیح بنیادوں کی سامراجی گماشتگی کی مٹی محنت کشوں کے خون سے تر کرکے رکھی گئی تھیں‘ انقلابی نظریات، سماجی تبدیلی و قومی آزادی کی تحریکوں کے خلاف سرمایہ داری کے ان قلعوں کے تحفظ کی دیواریں مظلوم انسانوں کے لاشوں پر اٹھائی گئی تھیں۔ شام سے لے کر پاکستان اور انڈونیشیا تک سامراج نے جدید بنیاد پرستی سامراجی مفادات کے تحفظ ہی کے لیے تخلیق کی تھی اور آج تک اسے ابھارتا اور مسلح کرکے مسلط کرتا رہا ہے۔
امریکی و برطانوی سامراج نے ابن سعود عبد العزیز کی عرب کے مرکز میں سعودی شاہی ریاست کی تعمیر و غلبہ سے عرب امریکی تیل کمپنی ARAMCO کی تشکیل تک بھرپور سامراجی کردار ادا کیاتھا، تیل پر اجارہ داری کے ساتھ سامراج نے اسی رجعتی حکمران ریاست کو مختلف مسلم ممالک میں اپنے سامراجی مقاصد کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ افغانستان میں انقلابی حکومت کے خلاف ڈالر جہاد ، یمن، شام، مصر اور پورے مشرق وسطی میں سماجی تبدیلی کو کچلنے کے سامراجی آلے کا کردار اس کا وظیفہ ٹھہرا گیا ہے۔ اسی طرح ایران میں انقلابی تودہ پارٹی کی قیادت میں ایرانی محنت کش عوام کی تحریک جو سرمایہ داری کو اکھاڑ کر کسی سوشلسٹ انقلاب پر منتج ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا‘ اس سے خوفزدہ سامراج نے تحریک میں مداخلت اور انقلاب کو زائل کرنے کی خاطر جلا وطن ملاں خمینی کو اس بغاوت پر مسلط کرکے سرمایہ داری کو تحفظ اور دوام دیا تھا۔ ان دو رجعتی حکمران ریاستوں نے تحریکوں اور انقلابات کی شکل میں سرمایہ داری کے وجود کو درپیش چیلنجوں کے وقت سامراج کی مکمل گماشتگی کا تاریخی مظاہرہ کیاہے۔ سعودی اور ایرانی حکمرانوں نے افغانستان میں انقلابی حکومت کے خلاف چین اور حتی کہ اسرائیل اور دوسری سامراجی گماشتہ ریاستوں کے ساتھ ملکر امریکا کی چھتری تلے ایک ہی مورچے میں سامراجی مفادات کے تحفظ کی تباہ کن جنگ لڑی۔ سعودی و امریکی تخلیق القاعدہ ، النصرہ فرنٹ اور داعش شام کے ذخائر کو لوٹنے کے لیے امریکی فضائیہ کی سہولت کے ساتھ زمینی قوت کے طور پر لڑ رہی ہیں‘ تو وہیں ایران کی پروردہ حماس ان امریکی گماشتہ پیادوں کی ہمقدم رہی۔افغانستان پر امریکی جارحیت کو ایرانی ملاں ریاست کی حمایت حاصل رہی۔ ایرانی حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے جنگ سالاروں اور جنگی تنظیموں کی ایرانی ملاو¿ں کی ہدایت پر سامراجی ہمکاری کے بغیر افغانستان پر امریکی قبضہ مشکل ہدف اور امریکی فوج کے بڑے نقصان کا باعث ہوتا۔ عراق میں بصرہ کے مقام سے امریکی فوجی پیش قدمی‘ ایرانی جاسوسی معلومات کی روشنی میں ہی کامیاب ہوئی جبکہ امریکا کے لیے بغداد میں درد ِسر مقتدہ الصدر کو دھوکے سے ایران بلا کر مہدی ملیشیا کو غیر مسلح کروانے کا فریضہ بھی ایران کی رجعتی رژیم نے ہی سرانجام دیا۔چین کی مشرق وسطی سے پرامن ماحول میں تیل کی ترسیل (جو چین کے تیل کی کل کھپت کا 40 فیصد ہے) کی خواہش جہاں ریاض اور تہران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ثالثی کا سبب بنا وہاں عالمی سطح پر چین و روس کی قیادت میں بننے والے امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والے بلاک کی ایک دوسرے کے ریاستی معاملات اور حکومتوں کی تشکیل میں عدم مداخلت کی پالیسی سعودی بادشاہت اور ایرانی ملاو¿ں کی آمریت کے مفاد میں ہے، چین کے اعتماد کو جیتنے کے لیے ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سعودی عرب کو مذکورہ تنظیم میں ابتدائی طور پر مبصر سے ذرا اوپر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔سعودی و ایرانی رجعتی حکمرانوں کی اپنی بقا کی کوشش میں سفارتی بحالی کا سمجھوتہ اور پڑوس میں ابھرتی بغاوتوں اور پراکسی جنگوں سے تحفظ کی خواہشیں زمینی حقائق کے بارودی سرنگوں سے ٹکرا کر بہت جلد پاش پاش ہونے والی ہیں۔ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایران حوثیوں کی حمایت اور کمک سے دستبردار ہوگا یا سعودی حوثیوں کی حاکمیت کو یمن میں تسلیم کرلےگا؟ کیا ایران النصرہ فرنٹ ، داعش اور القاعدہ کے خلاف القدس بریگیڈ کی شام میں تعیناتی اور مدد سے ہاتھ کھینچے گا یا پھر سعودی بشرالاسد کے ساتھ تعلقات معمول پر لاکر فری سیریئن آرمی و داعش وغیرہ کی پشت پناہی چھوڑ دے گا؟ لیبیا اور لبنان سے لے کر مصر تک یہ فہرست بہت طویل ہے۔ سعودی و ایران مشرق وسطی کے قریباً ہر ملک میں برسرپیکار متحارب قوتوں کے پیچھے کھڑے ہیں‘ خارجی طور پر بڑے طاقتور اور سامراجی ممالک کی ان تنازعات میں شمولیت ان تنازعات کو مزید پیچیدہ اور عالمی معاشی بحرانی حالات میں ناقابل حل بنادیتے ہیں۔
پچھلی دہائی میں مشرق وسطی میں تیونس اور مصر سے لے کر ایران تک نوجوانوں کے ابھرنے والے انقلاب کو امریکی سامراج اور سی آئی اے نے این جی اوز کے اصلاحاتی ایجنڈے، حکومتی سازشوں، تقسیم کرو اور حکمرانی کرو، اپنے گماشتوں میں ڈالروں کی ریل پیل اور جمہوری انقلاب کے رد انقلابی نظریئے کی مداخلت کے ذریعے گمراہ کردیا تھا۔ لیکن مہسا امینی کی ایرانی رجعتی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں شہادت سے بپھرے ہوئے ایرانی نوجوان مرد و زن کے حالیہ احتجاجی تحریک سے ملاں رژیم لرز اٹھی ہے۔ مصر میں جنرل السیسی کی آمریت تلے بے چینی کا ایک لاوا پھٹنے کو ہے۔ تیونس‘ لبنان اور پورے مشرق وسطی میں طویل جبر، دھوکوں اور سازشوں کے بعد نئی تحریکیں پھوٹنے کو ہیں۔ اب کی بار ماضی کے اسباق سے سیکھتے ہوئے متحرک نوجوان اور محنت کش عوام سامراجی نظریات کے کسی جمہوری انقلاب کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ایران میں امریکی لبرل جمہوری کٹھ پتلیوں کو موجودہ تحریک نے نکال باہر پھینکا تھا۔ تحریک کی پختگی اور جذبہ ہر ملک میں مسلط کردہ رجعتی بنیاد پرستی کو چیر کر نکلنے کو ہے جو ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ سرمایہ داری اور سامراجی غلبے کو اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت سے مزیّن ہوگی۔ یہ عمل صرف ان مارکسی نظریات اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جو مشرق وسطی میں شام سے لے کر عراق اور ایران تک محنت کش عوام کی شاندار سیاسی انقلابی روایت رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے